موبائل نمبر : 8318177138
اہل سنت و جماعت کے مابین اختلاف و انتشار کے سد باب کی صورت
- Home
- کتب و مقالات مقالات ابن فقیہ ملت و تاثرات و غیرہ
- اہل سنت و جماعت کے مابین اختلاف و انتشار کے سد باب کی صورت
اہل سنت و جماعت کے مابین اختلاف و انتشار
اور اس کے سد باب کی صورت
از: ابن فقیہ ملت غفرلہ
مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
یہ عنوان: ’اہل سنت و جماعت کے مابین اختلاف و انتشار کے سد باب کی صورت‘۔ اس بات کی طرف، واضح اشارہ کر رہا ہے کہ اہل سنت و جماعت، آپس میں عقائد پر متحد ہونے کے باوجود، اختلاف و انتشار کے کافی شکار ہیں؛ جس کی بنیاد پر آج، اہل سنت و جماعت، بڑی کس مپرسی کے عالم میں ہیں؛ تو آخر اس کس مپرسی کا علاج اور اس اختلاف و انتشار کے سد باب کی صورت کیا ہوسکتی ہے۔
میرے خیال سے اہل سنت و جماعت یعنی اہل مسلک اعلی حضرت کے درمیان، جو اختلاف و انتشار ہے، اس کے سد باب کی صورت پر غور و خوص اور کچھ تحریر کرنے سے پہلے، ان کے درمیان، اختلاف و انتشار کے اسباب کیا ہیں، ان کی تعیین کرلی جائے، پھر غور کرلیا جائے کہ کیا واقعی یہ چیزیں اس لائق ہیں کہ ان کی بنیاد پر اہل سنت و جماعت کے درمیان، مذموم اختلاف ہو یا وہ مخدوش انتشار کے شکار ہوں یا وہ چیزیں اس لائق ہی نہیں ہیں، اگر نہیں ہیں؛ تو ان معاملات کو لے کر، ہمیں کونسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس کی بنیاد پر یہ چیزیں، اہل سنت و جماعت کے درمیان مذموم اختلاف و انتشار کا سبب نہ بنیں، آئیے ان اسباب کو ان کے لوازمات کے ساتھ دیکھتے ہیں، پھر ان شاء اللہ تعالی، اس اختلاف کے سد باب کی صورت پر گفتگو کی جائےگی۔
تبلیغی و تفہیمی مزاج کو فوقیت نہ دینا
تبلیغی و تفہیمی مزاج کی بڑی اہمیت اور اس کے بہت سارے فوائد ہیں، ماضی میں اس مزاج کی بنیاد پر نہ جانے کتنے فتنے، اہل سنت و جماعت کے درمیان، اٹھ ہی نہ سکے اور ان کے درمیان، نہ جانے کتنے اٹھنے کی کوشش کرنے والے فتنے، زمین کے نیچے دفن ہوگئے۔ ان کے درمیان انتشار پیدا کرنے والی، نہ جانے کتنی مردود کوششیں، زمیں دوز ہوگئیں اور ان کے درمیان، نہ جانے کتنے فتنے برپا کرنے کی کوشش کرنے والے، تاریخ کی تاریکیوں میں کھوگئے! مگر افسوس کہ آج اہل سنت و جماعت کے درمیان، تبلیغی و تفہیمی مزاج، تقریبا مفقود ہوچکا ہے! یہ کان کے اتنے کچے ہوچکے ہیں کہ کسی عالم و مفتی کے بارے میں کسی سے کوئی بات سنی، خواہ وہ فاسق ہو یا فاجر یا کرتے و پاجامے کی صورت میں شیطانی فطرت کا حامل، اس نے کہ دیا بس یہی کافی ہے، اسی کی بنیاد پر، اس کے خلاف پروپیگنڈے ہوں گے اور ہر جا اس کی ہتک عزت کرنے کی کوشش کی جائےگی، اس کے لیے نہ تو انھیں قرآن پاک نظر آئےگا، نہ ہی احادیث طیبہ اور نہ ہی علما و مفتیان کرام کے اصول! اور نہ صاحب معاملہ سے مل کرخود بات کرنے کی ہمت یا اسے طلب کرکے، معاملہ کے ختم کرنے کی صلاحیت؛ جس کی بنیاد پر آج دن بدن، اہل سنت و جماعت کے لوگ، گروہ در گروہ، بنٹ کر، کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں۔ اہل سنت و جماعت کے لوگ بھی تو انسان ہی ہیں، ان سے بھی خطا تو ہو ہی سکتی ہے، اب اگر ان میں سے کسی فرد سے کوئی غلطی ہوگئی، جو قابل قبول نہیں؛ تو کیا مقتدی حضرات کی یہ ذمہ داری نہیں کہ علما و مفتیان کرام کے ذریعے، اسے کم از کم، دو سے تین بار سمجھانے کی کوشش کی جائے، یقینا ان کی ذمہ داری ہے، اگر اس کا احساس کرکے، پہلے کی طرح، آج بھی اس ذمہ داری کو کما حقہ بروے کار لایا جائے اور اہل سنت و جماعت کے درمیان، تفہیمی و تبلیغی مزاج کو فوقیت دی جائے؛ تو نہ جانے کتنے اٹھنے والے، فتنے، اٹھنے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں اور نہ جانے کتنی مذموم کوششیں، خود بخود سر خانے میں چلی جائیں، اے کاش ایسا ہوتا!
تنظیمی و اجتماعی رجحان کو ترجیح نہ دینا!
تنظیمی و اجتماعی رجحان، اہل سنت و جماعت کی جان ہے، یہ رجحان ایسا رجحان ہے کہ اگر اس کو مضبوطی سے تھام لیا جائے؛ تو اہل سنت و جماعت، دن دونی رات چوگنی، ترقی پذیر ہوں گے، ہر چہار جانب، اہل سنت و جماعت کا ہی کا بول بالا ہوگا، مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج اہل سنت و جماعت کے درمیان سے یہ وصف محمود، تقریبا اٹھ چکا ہے، عموما ہر فرد، فرد کو ہی ترجیح دیتا ہے،عام طور سے وہ تنظیمی و اجتماعیت کو ترجیح دینے سے بھاگتا ہے، اب چاہے اس کی وجہ سے تنظیم کا نقصان ہو یا اجتماعیت کایا اہل سنت و جماعت، تنزلی کا شکار ہو، اس فرد کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ اسی وجہ سے کل بھی اہل سنت و جماعت کو بہت نقصان ہوا اور آج بھی بہت سارے مواقع پر، اہل سنت و جماعت کا بھاری نقصان ہورہا ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ تنظیمی و اجتماعی رجحان کو فروغ دیا جائے اور اسی کو فوقیت دینے کی تحریک چلائی جائے، مثلا کوئی اہل سنت و جماعت کا ادارہ ہے یا کوئی اہل سنت و جماعت کی تنظیم ہے، اس کے افراد میں سے کسی فرد نے کسی کے ساتھ ایسی حرکت کی، جو مذموم و مقبوح ہے؛ تو اب اس فرد کو سمجھانے کی کوشش کی جائے گی، نہیں سمجھتا ہے؛ تو اسی فرد کی مخالفت کی جائےگی، نہ کہ پورے ادارے اور تنظیم کو اکھاڑ پھینکے کی مذموم کوشش کی جائےگی اور نہ ہی پورے ادارے یا تنظیم کو تہس نہس کرنے کی سعی کی جائے گی؛ کیوں کہ ایسے مواقع پر فرد کو اپنی ہی قربانی دینی ہوگی، اپنے ہی کو صبر کے دامن سے باندھنا ہوگا، نہ یہ کہ اپنے نفس کو فوقیت دےکر، پورے ادارے کو ہی قربان کرنے کی کوشش کی جائےگی یا پوری تنظیم ہی کو تباہی کے دہانے پر لے جانے کا احمقانہ کردار نبھایا جائےگا۔
فتوی کون دے گا، اس کی تعیین نہ ہونا؟!
فتوی کون دےگا، یہ سوال شاید تھوڑا عجیب لگے؛ کیوں کہ اس کا جواب ہر کوئی جانتا ہے کہ فتوی تو مفتی ہی دےگا، مگر سوال اب بھی اپنی جگہ، اپنی اصلی حالت پر برقرار ہے؛ کیوں کہ اگرچہ یہ خوش آئند بات ہے کہ فتوی لکھنے کی تربیت، کثرت سے مدارس میں دی جارہی ہے، مگر کیا تربیت حاصل کرنے والا، ہر فرد، فتوی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟! کیا ہر ایک کے اندر، اتنی سوجھ بوجھ ہوتی ہے کہ وہ یہ اہم ذمہ داری کما حقہ نبھاسکے؟! کیا تربیت حاصل کرنے والا، ہر فرد، اس کی مسؤلیت پر کھرا اتر سکتا ہے؟! ہر عاقل اور دور رس نگاہ رکھنے والا، یہی جواب دے گا کہ تربیت حاصل کرنے والا، ہر فرد، اس کا متحمل نہیں ہوتااور جب تربیت کرنے والا، ہر فرد اس کا متحمل نہیں ہوتا؛ تو جو صرف عالم ہے، وہ اس کا کیسے متحمل ہوسکتا ہے؟! اور تدریب جیسے اہم کام کی ذمہ داری نبھانے کی جسارت کیسے کرسکتا ہے؟! مگر آج کے دور میں اہل و نااہل، عموما ہر کوئی مفتی بنا بیٹھا ہے؛ جس کی وجہ سے بہت سارے اختلافات، اہل سنت و جماعت کے درمیان پنپ رہے ہیں؛ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل سنت و جماعت کے درمیان، مفتیان کرام کی ایک جماعت ہو، جو اس کے تعلق سے فیصلہ کرے، جب یہ مہر ثبت کردے کہ ہاں یہ فتوی دینے کے قابل ہے؛ تو اب وہ فتوی لکھے، ورنہ پرہیز ہی کرے، اگرچہ اس نے تربیت افتا کا کورس بھی مکمل کیا ہو، یا کم از کم جو لوگ تدریب کراتے ہیں، وہ امت مسلمہ پر رحم کریں، اگر وہ لائق ہیں؛ تو تدریب کی ذمہ داری لیں ورنہ نہیں، نیز ایسے کو سند ہرگز نہ دیں، جو فتوی لکھنے کی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل نہ ہو۔ اگر اس امر کی جانب توجہ دی جائے؛ تو امید قوی ہے کہ اہل سنت و جماعت کے درمیان، جو دوریاں ہیں، کم ہوں گی اور اتحاد کی فزا ہموار ہوگی۔
فروعی مسائل میں اختلاف کو برداشت نہ کرنا!
کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ اہل سنت و جماعت کے درمیان، فروعی مسائل میں بھی اختلاف، کم سے کم ہو، مگر یہ مسلمات سے ہے کہ فروعی مسائل میں دور اندیشی سے اختلاف تو کم ہوسکتے ہیں، لیکن بالکل ختم ہی ہوجائیں، یہ ناممکن ہے؛ اس لیے اگر کوئی مفتی یا فقیہ، اصول و ضوابط کی روشنی میں اختلاف کرتا ہے؛ تو جو بھی فقیہ یا مفتی، مذکورہ فقیہ یا مفتی سے متفق نہیں؛ تو اسے چاہیے کہ صبر و تحمل سے کام لے، صبر و تحمل کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ، مذکورہ فقیہ و مفتی کا دلائل اور اصول و ضوابط کی روشنی میں رد نہ کرے، کرنے کی ضرورت ہے؛ توضرور کرے، اس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ صبر و تحمل سے مقصود یہ ہے کہ مذکورہ مفتی یا فقیہ کا رد، عام کرنے سے پہلے، ممکن ہو تو اسی سے تحریری یا آمنے سامنے بیٹھ کر، مکاملہ کرلے، بات بن گئی تو ٹھیک اور اگر ممکن نہیں یا بات نہ بنی؛ تو اب علمی و فقہی رد، اگر نشر کرنا چاہے؛ تو کرے،مگر اس کو گالی نہ دے یا اس کو برا بھلا نہ کہے، سر عام اس کی توہین نہ کرے، عوام کالأنعام کو اس اختلاف میں شامل نہ کرے، جھوٹا الزام نہ لگائے کہ اس نے پیسے لے کر، فتوی دیا ہے، اس اختلاف کی وجہ سے اس کے ایمان پر سوالیہ نشان قائم نہ کرے۔
مگر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہر کس و ناکس کو مسائل میں اختلاف کرنے کی اجازت بھی نہیں، عموما لوگوں کو تقلید ہی کا حکم ہے، البتہ اگر کوئی عالم و مفتی، فقاہت میں مہارت رکھتا ہے، اصول و ضوابط پیش نظر ہیں؛ تو اس کے لیے اختلاف کی گنجائش نکل سکتی ہے، مگر یہ اختلاف دلائل کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور بس۔
اختلاف کے باوجود حدود شرع میں نہ رہنا!
اگر کوئی بھی شخص، حقیقیت میں عالم یا مفتی ہوگا؛ تو وہ لاکھ فروعی مسائل میں اختلاف کے باوجود، حدود شرع سے کبھی باہر نہیں ہوگا اور اگر خدا نہ نخواستہ کبھی ہوا؛ تو فورا اپنی اصلاح کرےگا، مگر افسوس کہ آج ایسے عالم یا مفتی کہلانے والے بھی پائے جاتے ہیں، جو عالم یا مفتی کہلانے کے باوجود، اختلاف کی صورت میں حدود شرع سے باہر ہوتے ہیں اور رجوع و احساس زیاں کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ کوئی سیکڑوں گالیاں دینے کے بعد بھی بڑے پیار سے کہتا ہے کہ فلاں کا لڑکا ہونے کی وجہ سے انھیں گالیوں پر اکتفا کرلیا گیا! کوئی گروپ بندی یا عقیدت یا فروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے رشتوں کو تار تار کرنے کی دھمکی دینے جیسی مذموم حرکت اور الزام تراشی سے بھی باز نہیں آتا، پھر عالم یا مفتی کا چولا پہن کر، اسی رشتے کو بھاری بھرکم، القاب دےکر، رحم دلی کا اظہار کرنےکی مذموم کوشش کرتا ہے۔ کوئی کان کا اتنا کچا ہوتا ہے کہ خبر کی تصدیق کیے بغیر، واویلا مچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا اور خبر کی تفتیش کے بعد بھی جب حقیقت، خبر کے خلاف ہوتی ہے؛ تو شرم تو دور کی بات، اس کے ارد گرد، انانیت، خود سری اور تکبر کا پہرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو خاص کر، آج کے اس نازک دور میں اپنی اصلاح جلد از جلد کرلینی چاہیے اور عقیدت یا فروعی اختلاف کی صورت میں، ایسی حرکت قطعا نہیں کرنی چاہیے، جس کی شریعت قطعی اجازت نہیں دیتی بلکہ ایسی حرکت کو قبیح تر قرار دیتی ہے۔ اگر حدود شرع میں رہ کر، اختلاف کی خو بو سامنے آئے؛ تو اہل سنت و جماعت کے درمیان سے دوریاں ختم ہوجائیں اور اتحاد کی فزا قائم ہونے کے لیے زمین، کافی حد تک ہموار ہوسکتی ہے۔
غیروں کے لیے بھی تاویل نہ ڈھونڈنا!
درست بات تو یہی ہے کہ اپنے ہوں یا غیر، اگر شرعا تاویل کی گنجائش ہے؛ تو ہونی ہی چاہیے اور اہل سنت و جماعت کے لوگ ہوں؛ تو بدرجہ اولی تاویل ہونی چاہیے؛ کیوں کہ اہل سنت و جماعت، سب اپنے ہی ہیں، مگر آج کے اس پر فتن دور میں بھی ہم نے بعض فروعی مسائل یا آپسی رنجش وغیرہ کی بنیاد پر، اہل سنت و جماعت کی تقسیم در تقسیم کر رکھی ہے، اب اس تقسیم کی بنیاد پر اگر اپنا ہے؛ تو اس کے ہزار خون معاف، اس کے اقوال کی ہزار تاویلات موجود بلکہ بعض معاملات میں صریح خطا کی کے باوجود، خاموشی و جمود اور اگر اپنے خود ساختہ اور تقسیم در تقسیم کی بنیاد پر اپنا نہیں ہے؛ تو نہ اس کے لیے کوئی شرعا تاویل ہےاور نہ توجیہ بلکہ اسے اہل سنت و جماعت سے ہی خارج کردیا جائےگا یا پھر ایسا سلوک پیش کیا جائےگا، گویا کہ وہ اہل سنت و جماعت سے ہی خارج ہے،حتی کہ بعض اہل سنت و جماعت کے ہی لوگ، اہل سنت و جماعت کے لوگوں کے پروگرام نہیں ہونے دیتے یا پروگرام ہونے والا ہے؛ تو اس کو ملتوی کرادیتے ہیں اور اپنے و غیر کی بنیاد پر ہر جگہ، قاضی متعین ہوتے ہیں بلکہ بعض جگہ موجودہ قاضی کے عہدہ کو چھیننے کی بھی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے جب اس طرح کی تفریق رہےگی؛ تو اہل سنت و جماعت کے درمیان ہی، انتشار و اختلاف ہونا لازمی ہے، جب کہ بعض استثنائی صورت کے علاوہ، شرعی احکام میں یہ تفریق، نہ تو کل قابل قبول تھی، نہ آج ہے اور نہ ہی کبھی قابل قبول ہوگی؛ اگر وقت رہتے، اہل سنت و جماعت کے لوگ، یہ بے جا آپسی تناؤ، دور کرلیں؛ تو اہل سنت و جماعت کے لوگ، کافی سکون محسوس کرسکتے ہیں، ورنہ اہل سنت و جماعت کا تو اللہ تعالی ہی محافظ ہے۔
صلاحیت کی بنیاد پر عہدہ نہ دینا
اہل سنت و جماعت کے درمیان، اختلاف کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عموما بہت سارے معاملات میں، اہل سنت و جماعت کے افراد کو خالص علمی عہدے بھی، صلاحیت و کام کی بنیاد پر نہیں دئے جاتے بلکہ کسی عالم یا پیر، کسی مفتی یا فقیہ کا لڑکا ہے؛ تو علمی عہدہ بھی اسی کے پاس رہےگا، اگرچہ وہ مفتی یا عالم نہ ہو اور دوسرا اگرچہ کتنا ہی بڑا عالم اور کتنا بھی بڑا مفتی و فقیہ ہو، اسے وہ علمی عہدہ بھی نہیں ملےگا، جب کہ یہ علمی عہدے خالص امانت ہیں، یہ انھیں کو ملنا چاہیے، جو اس کے حقدار ہیں اور نااہل کو ان عہدوں سے دور رکھنا چاہیے؛ کیوں کہ اس سے اہل سنت و جماعت کا جتنا فائدہ نہیں ہوگا، اس سے کہیں زیادہ نقصان ہوگا، مگر صادق و مصدوق صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کی بیان کردہ، قیامت کی نشانیاں بھی تو وجود پذیر ہونی ہیں، مگر پڑھے لکھے لوگوں کے ذریعے، ان نشانیوں کا وجود میں آنا، بڑا تعجب خیز معلوم ہوتا ہے، اگر اس پر بھی اہل سنت و جماعت کے لوگ، کنٹرول رکھیں؛ تو اہل سنت و جماعت کے درمیان، آپسی اختلاف میں کمی آسکتی ہے۔
شرعی اصول کی جگہ، انانیت اور میں میں کا ہونا
دور حاضر میں عوما اہل سنت و جماعت کے درمیان، انانیت اور میں میں اپنے عروج پر ہے، جب کہ اہل سنت و جماعت کے لیے، عاجزی و انکساری ہی سب سے بہترین زیور ہے، مگر عام طور سے اہل سنت وجماعت کے لوگ، اس سے خالی و عاری ہوتے ہیں؛ جس کی بنیاد پر اہل سنت و جماعت کے درمیان، اختلاف و انتشار مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے، یہ انانیت و میں میں، وہاں زیادہ پھڑکتی ہے، جب چھوٹا، برحق اور بڑا غلطی پر ہو، مثلا چھوٹے کے خلاف کسی بات کا دعوی کیا گیا، ثبوت مانگا گیا، مگر ندارد؛ تو اب چھوٹے کے خلاف جو دعوی ہے، اسے خارج ہونا چاہیے مگرنہیں، میں بڑا ہوں، میں نے دعوی کردیا ہے؛ تو اب چاہے، شریعت پر عمل ہو کہ نہ ہو، انتشار پھیلے یا نہ پھیلے، علما کی پگڑیاں سلامت رہیں یا نہیں رہیں، اس چھوٹے کو وہ دعوی ماننا ہی پڑےگا، نہیں مانے گا؛ تو اس کا جینا حرام کرنے کی کوشش کی جائےگی، ایسی سوچ و فکر پر اف و تف ہے، انھیں شاید یہ نہیں معلوم کہ عزت و ذلت اور خوشی و غم، ہر چیز، اللہ تعالی کے دست قدرت میں ہے، اگر وہ کسی کو خوش حال رکھنا چاہتا ہے؛ تو کوئی اسے غم زدہ نہیں رکھ سکتا اوراگر وہ اسے غم زدہ رکھنا چاہتا ہے؛ تو کوئی اسے خوش حال نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح علم و عہدہ میں عموما بڑا چاہتا ہے کہ جو چھوٹا ہے، وہ ہمیشہ چھوٹا ہی رہے اور اس میں بھی انانیت و میں میں کا شکار ہوجاتا ہے، جب کہ علم ایک نور ہے، وہ چھوٹا و بڑا دیکھ کر نہیں آتا بلکہ اللہ تعالی جسے توفیق دیتا ہے، وہ خود علم کے نور سے روشن ہوتا ہے اور پوری دنیا اس کے علم سے روشنی حاصل کرتی ہے، اگرچہ وہ چھوٹا ہو اور بہتیرے بڑے ایسے ہوتے ہیں، جن کے علم کی روشنی ، خود انھیں کو ہی نہیں روشن کرپاتی، چہ جائے کہ اس سے دوسرے روشنی حاصل کریں اور بہت سارے بڑے ایسے ہوتے ہیں، جن کے علم کی روشنی، مشکل سے اپنے گاؤں و علاقے تک ہی پہنچ پاتی ہے؛ تو کہاں سے اس کے علم کی روشنی پوری دنیا میں پھیلے گی؟! اللہ تعالی نے نظام عالم ایسے ہی بنایا ہے، جسے چاہتا ہے، نوازتا ہے اور جس سے چاہتا ہے، روک لیتا ہے؛ اس لیے میں میں و انانیت سے اہل سنت و جماعت کو باہر آنا چاہیے اور شریعت غرا کے سامنے اپنے سر جھکا دینا چاہیے، سامنے بڑا ہو یا چھوٹا، اس کا بار محسوس نہیں کرنا چاہیے، اسی میں کامبیابی اور اسی میں اہل سنت و جماعت کی سلامتی اور انتشار سے حفاظت ہے۔
پیری مریدی کی بنیاد پر بٹوارہ ہونا
پیری مریدی کی بنیاد پر بھی اختلاف رہا ہے اور رہے گا، مگر اس کے باوجود، پیری مریدی اپنے حقیقی اعتبار سے کوئی بری چیز نہیں؛ کیوں کہ اس کا اصل مقصد، بہکے ہوئے لوگوں کو درست راستہ دکھانا، جاہل و غیر مہذب لوگوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا، عمدہ اخلاق و کردار سے سنوارنا اور اہل سنت جماعت کے تمام افراد، عالم ہوں کہ مفتی، پیر ہوں کہ فقیر، خاص ہوں کہ عام، سب کی عزت، سب کو اس کی حیثیت کے مطابق عزت دینا وغیرہ ہے، مگر آج کے اس دور میں عموما پیری مریدی کا اصل مقصد، اس طرح کے کام نہیں بلکہ شہرت حاصل کرنا، مال و دولت جمع کرنا، میرے اور تیرے پیر کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ ہوجانا، میرے اور تیرے پیر کے سبب، ایک دوسرے کے پیر کو برداشت نہ کرنا، اسی بنا پر ایک دوسرے کے پیر کو نیچا دکھانا اور اسی کے پیش نظر پیروں اور مریدوں کا ایسا بٹوارا کرنا کہ میرا پیر سب سے اچھا ہے اور تمھارا پیر، سب سے خراب ہے، اپنے پیر کو عرش معلی پر بیٹھانا اور دوسرے کے پیر کو تحت السری میں دفنانے کی کوشش کرنا، گویا کہ جو بٹوارا ہماری پہچان کے لیے تھا، اسے ہم نے لڑائی اور طعن و تشنیع کا ذریعہ بنادیا، آج ہمیں اپنی اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اس فکر کو رائج و عام کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ آپ کا پیر آپ کے نزدیک بہت اچھا، مگر دوسرے کا پیر بھی کم از کم آپ کے نزدیک بھی اچھا ضرور ہونا چاہیے، اس کا بھی احترام لازمی کرنا چاہیے، نہ کہ اس کی ہتک عزت اور رات دن اس کی برائی کرنے کی حماقت کرنی چاہیے۔ اگر عموما پیر حضرات، اپنے رویے میں نرمی لائیں اور شرعی خرافات سے بچ کر، اپنے آپ اور اپنے مریدین کو وسیع الظرف بنائیں؛ تو اہل سنت و جماعت کے درمیان، انتشار و اختلاف کی فزا مزید کم ہوسکتی ہے۔
اہل سنت و جماعت کے درمیان، اختلاف و انتشار کے اسباب، ان کے علاوہ بھی بہت سارے ہیں، مثلا عموما کاسہ لیسوں سے دور نہ رہنا اور پڑھے لکھے، کام کے لوگوں سے دوری بنائے رکھنا وغیرہ، مگر اسی پر بس کرتا ہوں۔
اتحاد کا محور اہل سنت و جماعت کا عقیدہ؟!
اب اہل سنت و جماعت کے درمیان، سد باب کی صورت کی طرف آتے ہیں، اس بارے میں اگر غور کیا جائے؛ تو دل لگتی بات یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت کے درمیان، اختلاف کے سد باب کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت کا ہر فرد، اتحاد کے محور، عقیدہ اہل سنت کو مطمح نظر رکھے، اس کے پیش نظر، آج مفتیان کرام، علما، خطبا اور پیران عظام کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ ترویج و اشاعت کرکے، اہل سنت و جماعت کے ہر فرد کے ذہن میں یہ ذہن نشیں کرانا ضروری ہے کہ ہمارا نقطہ اتحاد، عقائد اہل سنت و جماعت ہے؛ اہل سنت و جماعت کے ہر فرد کو یہ بات سمجھنا اور اس کو عمل میں لانا، وقت کی اہم ضرورت ہے، اس لحاظ سے جو اس پر کھرا اترا، وہ اپنا ہے اور جو اس سے بے گانہ ہوا، وہ اپنا نہیں؛ لہذا اہل سنت و جماعت کے اتحاد کا محور، کوئی پیر، کوئی عالم، کوئی مفتی، کوئی شخصیت، کسی طرح کی گروپ بندی، ہرگز نہیں۔ اسی طرح اہل سنت و جماعت کے اتحاد کا محور، وہابی، دیوبندی، قادیانی، رافضی وغیرہ کو ہرگزشامل نہیں، مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اہل سنت و جماعت کے کے لوگوں کی فکر اس قدر زوال پذیر ہوگئی ہے کہ اب ان کے درمیان، اتحاد کا محو، کوئی پیر ہے یا کوئی عالم، کوئی مفتی ہے یا پھر کوئی شخصیت یا پھر گروپ بندی، اگر فلاں پیر یا عالم کی ہر بات ماننے والا ہے؛ تو ہمارا ہے ورنہ نہیں، فلاں مفتی یا شخصیت کے سامنے ہمہ وقت آمنا و صدقنا کہنے والا ہے؛ تو ہمارا ہے ورنہ نہیں، فلاں گروپ کا ہے تو ہمارا ہے ورنہ نہیں! افسوس کہ اب یہی ہمارے اتحاد کا محور ہے! اسی طرح بہت سارے آزاد خیال لوگ، اپنے اتحاد کا محور، بنام مسلمان، رکھتے ہیں اور اس میں وہابی، دیوبندی، قادیانی اور رافضی وغیرہ، سب کو شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں! نہ پہلا طریقہ محمود ہے اور نہ ہی دوسرا طریقہ قابل التفات ؛ اس لیے آج کے اس دور میں حفاظ، مولوی، پیر، علما، مفتی حضرات کے ذریعے، اس فکر کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اتحاد کا محور، عقائد اہل سنت و جماعت ہے، جو اس دائرے میں ہے، وہ ہمارا ہے، چاہے وہ کسی بھی پیر، فقیر کو ماننے والا ہو، چاہے وہ کسی بھی عالم و مفتی سے عقیدت رکھنے والا ہو، چاہے وہ کسی بھی گروپ اور شخصیت کے سامنے اپنی پلکیں بچھانے والا ہو۔ اور جو اس دائرے سے باہر ہے، وہ ہمارا نہیں، چاہے وہ وہابی ہو یا دیوبندی، قادیانی ہو یا رافضی، کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، وہ ہمارا نہیں اور نہ ہی اہل سنت و جماعت کا اس سے اتحاد ہوسکتا ہے۔
اتنی وضاحت کے بعد، قاری اس نتیجہ پر آسانی سے پہنچ سکتا ہے کہ اہل سنت و جماعت کے درمیان، اتحاد و اتفاق کی فزا قائم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت کے حفاظ و مولوی حضرات، پیران عظام، علما اور مفتیان کرام، یہ طے کرلیں کہ اگر آپسی اختلاف، مسائل تک رہا؛ تو آپس میں انتشار نہیں کریں گے، مذموم گروپ بندی کو جگہ نہیں دیں گے، علما کی توہین نہیں کریں گے، برسرعام رد و ابطال سے بچیں گے، ایمان پر قدغن لگانے کی مخدوش کوشش نہیں کریں گے، حسب و نسب پر انگلیاں نہیں اٹھائیں گے، سازشیں نہیں کریں گے، رشتوں کو تار تار کرنے کی سعی مردود نہیں کریں گے بلکہ ہر اس مذموم حرکت سے بچیں گے، جو اہل سنت و جماعت کے درمیان، اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرے۔ یوں ہی اگر اہل سنت و جماعت کا کوئی فرد، مسائل کے اختلاف سے نکل کر، عقائد میں اختلاف کی گنجائش نکالے یا ان میں اختلاف کرے؛ تو یہ مدعی اہل سنت و جماعت تو ہے، مگر حقیقت میں اہل سنت و جماعت سے نہیں؛ لہذا اہل سنت و جماعت کے حفاظ و مولوی حضرات، پیران عظام، علما اور مفتیان کرام، ایسے فرد کے بارے میں یہ فیصلہ کرلیں کہ پہلے اس کی تفہیم کریں گے، کم از کم، دو سے تین بار، اسے سمجھانے کی کوشش کریں گے، سمجھ گیا؛ تو ٹھیک اور نہیں سمجھا؛ تو اب اسے اپنے سے الگ کردیں گے، اہل سنت و جماعت کو اس کے عقائد باطلہ کی زد میں آنے سے بچانے کی پوری کوشش کریں گے، اس سے اتحاد و مودت قائم نہیں کریں گے، ضرورت کے مطابق اس کے عقائد باطلہ کا رد بھی کریں گے، اس کے عقائد کی خرابی، قطعی کفر تک پہنچا؛ تو اس کی تکفیر بھی کریں گے اور پھر دین کے معاملہ میں توبہ سے پہلے، اس سے کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔
مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات نصف النہار کی طرح عیاں ہوگئی کہ اہل سنت و جماعت کے درمیان، مسائل یا اس جیسے دوسرے معاملات میں اختلاف کے ساتھ ہی اتحاد ہوسکتا ہے، اس کو ختم کرکے، اتحاد کی تلاش و جستجو، سراب کے سوا کچھ نہیں، ہاں اسے کم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اوریہ بہتر ین اقدام بھی ہے مگر چوں کہ اس کا ختم ہونا، ممکن نہیں؛ اس لیے اس کے ختم کرنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنے کا کوئی مطلب نہیں۔
وسعت قلبی کے ساتھ اگر اہل سنت و جماعت کے درمیان مذکورہ بالا اسلامی افکار و نظریات، عام ہوجائیں اور تمام اہل سنت و جماعت (اہل مسلک اعلی حضرت) کی جانب سے، اسی محور کے ارد گرد چلنے کی کوشش کی جائے؛ تو اہل سنت و جماعت کے درمیان، انتشار ختم نہ سہی مگر کافی کم ضرور ہوسکتا ہے۔
گفتگو کس پر ہونی چاہیے؟!
مندرجہ بالا تمام اسباب، بالخصوص، مسائل اور پیری مریدی میں اختلاف کا سبب، اس بات پر واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ اہل سنت و جماعت کے درمیان بھی کم یا زیادہ، ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا، اسے ختم کیا جانا، محال نہ سہی مگر ناممکن ضرور ہے؛ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ عموما اس موضوع پر بات کم ہی ہونی چاہیے کہ اہل سنت و جماعت کے درمیان، ان معاملات کو لے کر، اختلاف کیسے ختم کیا جائے بلکہ گفتگو اس موضوع پر ہونی چاہیے کہ کن اختلافات کے باوجود، اہل سنت و جماعت کے درمیان انتشار نہیں ہونا چاہیے، کن اختلافات کے باوجود، اہل سنت و جماعت کے درمیان، اتحاد کی فزا قائم رہنی چاہیے، کن اختلافات کے باوجود، آپس میں رنجش نہیں ہونی چاہیے، کن اختلافات کے باوجود، آپس میں دوریاں نہیں بنانی چاہیے، کن اختلافات کے باوجود، سلام و کلام بند نہیں ہونا چاہیے، کن اختلافات کے باوجود، مذموم، گروپ بندی نہیں ہونی چاہے، کن اختلافات کے باوجود، ایک ساتھ بیٹھنے کو ہی ترجیح دینا چاہیے، کن اختلافات کے باوجود، علما کو علما ہی کی برسر عام، تضحیک نہیں کرنی چاہیے، کن اختلافات کے باوجود، سنیت پر سوالیہ نشان قائم نہیں کرنا چاہیے، کن اختلافات کے باوجود، ایمان پر شک و شبہ کا دائرہ وسیع نہیں کرنا چاہیے، کن اختلافات کے باوجود، ایک دوسرے کے خلاف، برسر عام یا اندرون خانہ، سازش نہیں کرنی چاہیے۔
اسی طرح اس موضوع پر بات ہونی چاہیے کہ کن اختلافات کی بنیاد پر، مدعی اہل سنت و جماعت کے ساتھ، اتحاد برقرار نہیں رکھا جاسکتا، کن اختلافات کی بنیاد پر مدعی اہل سنت کے ساتھ بیٹھنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی، کن اختلافات کی بنیاد پر اور کب، برسر عام ، مدعی اہل سنت کا رد کرنا ضروری ہوجاتا ہے، کن اختلافات کی بنیاد پر مدعی اہل سنت کی بھی تکفیر ضروری ہوجاتی ہے، کن اختلافات کی بنیاد پرمدعی اہل سنت سے بھی سلام و کلام بند کرنا لازم ہوجاتا ہے، کن اختلافات کی بنیاد پر مدعی اہل سنت کی نکیل کسنی ضروری ہوجاتی ہے۔
یہ باتیں سمجھنے کے لیے، عقل و شعور میں یہ آنا ضروری ہے کہ اختلاف دو طرح کا ہوتا ہے، ایک اختلاف ایسا ہے کہ وہ کم ہو یا زیادہ، وہ ہمیشہ رہے گا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی آپس میں اتحاد و اتفاق کی فزا قائم رہتی ہے، جیسے باپ، باعتبار فکر، بیٹے سے اختلاف رکھتا ہے، مگر دونوں ایک ساتھ رہتے اور کھاتے پیتے ہیں، اسی طرح شوہر، بیوی سے اختلاف رکھتا ہے، مگر ایک چھت کے نیچے، زندگی بسر کرتے ہیں؛ کیوں کہ یہ ایسے اختلافات ہوتے ہیں، جنھیں نظر انداز کرکے، ایک ساتھ زندگی گزارنا ہی عقل مندی و دانائی کہلاتی ہے۔ دوسرا اختلاف ایسا ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے، اتحاد و اتفاق کی فزا قائم نہیں رہ سکتی، جیسے بیٹا، باپ کو مارنے کی جسارت کرے یا شوہر بیوی کے بنیادی حقوق ادا نہ کرے۔ اسی گھریلو مثال کی طرح، اہل سنت و جماعت کے درمیان اختلاف کو بھی بڑی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کے درمیان بھی جب تک، اختلافات ایسے ہوں، جنھیں برداشت کیا جاسکتا ہے، جیسے فروعی مسائل یا پیری مریدی جیسے اختلاف؛ تو اس کے ہوتے ہوئے بھی، ان کے درمیان، انتشار نہیں ہونا چاہیے، اس اختلاف کی وجہ سے آپسی رسہ کشی نہیں ہونی چاہیے، اس اختلاف کی وجہ سے ایمان پر سوالیہ نشان قائم نہیں کرنا چاہیے، اس اختلاف کی وجہ سے سازش نہیں کرنا چاہیے، اس اختلاف کی وجہ سے بر سرعام رد و ابطال نہیں کرنا چاہیے، اس اختلاف کی بنیاد پر آپسی اتحاد کو پارہ پارہ نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ اگر فروعی مسائل یا پیری مریدی جیسے اختلاف سے نکل کر، معاملہ، عقائد کے اختلاف تک پہنچ گیا ہو؛ تو اب اس کے ہوتے ہوئے، ایسے مدعی اہل سنت کے ساتھ، اتحاد نہیں ہوسکتا، ضرورت کے مطابق، ایسے مدعی اہل سنت کا برسرعام، رد بھی کیا جائےگا اور اگر اس کا معاملہ صریح کفر تک پہنچ گیا ہے؛ تو اس کی تکفیر بھی کی جائےگی، اس کے ایمان پر سوالیہ نشان بھی قائم کیا جائےگا۔ اگر اہل سنت و جماعت کے لوگ، اس طریقہ کار کو اپنا لیں؛ تو آج بھی ان کے درمیان، اتحاد کی فزا قائم ہوسکتی ہے۔
اللہ تعالی، اہل سنت و جماعت کو اپنی توفیقات سے نوازکر، انھیں متحد ہونے کی قوت عطا فرمائے اور انھیں مزید، بے جا اختلاف و انتشار سے محفوظ و مامون رکھے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم۔
طالب دعا:
ابن فقیہ ملت غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی، یو پی۔
۱؍ربیع الأول شریف ۴۷ھ
Lorem Ipsum
About Author:
Azhar@Falahemillattrust
Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.