طلاق دے دہن اور گھر سے نکل جا کا حکم

سوال کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید نے اپنی بیوی کو غصے میں کہا: تجھے طلاق دے دوں گا، گھر سے نکال دیں گے  اور اللہ کے گھر تک دور کردیں گے، پھر کہا: طلاق دے دہن، گھر سے نکل جا۔

نیز ایک مرتبہ زید کی لڑکی رات میں غیر محرم کے ساتھ بھاک گئی، پھر آدھی رات کو زید اپنی لڑکی کو ڈھونڈکر گھر واپس لایا، اس کی وجہ سے گاؤں والوں نے زید کا سماجی بائیکاٹ کردیا، اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ بینوا و توجروا۔

المستفتی:

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب زید کا یہ جملہ ’طلاق دے دوں گا، گھر سے نکال دیں اور اللہ کے گھر تک دور کردیں گے‘‘ محض وعدہ ہے اور وعدہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’سُئِلَ نَجْمُ الدِّينِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لِامْرَأَتِهِ اذْهَبِي إلَى بَيْتِ أُمِّك فَقَالَتْ طَلَاق دَهٍ تابروم فَقَالَ تَوّ بَرْو مِنْ طَلَاقِ دُمَادِم فَرُسْتُمُ قَالَ لَا تَطْلُقُ لِأَنَّهُ وَعْدٌ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ‘‘۔ (ج۱ص۳۸۴، الفصل السابع فی الطلاق بالألفاظ الفارسیۃ، ط: دار الفکر)

البتہ زید کے اس جملہ سے ’’طلاق دے دہن، گھر سے نکل جا‘‘ زید کی بیوی پر دو طلاق بائن واقع ہوگئی۔

تنویر الأبصار میں ہے: ’’الصریح یلحق الصریح و البائن و البائق یلحق الصریح‘‘ (تنویر الأبصار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج۴ص۵۴۰)

اب زید اگر اپنی بیوی کو رکھنا چاہتا ہے اور بیوی بھی راضی ہے؛ تو اس سے جدید نکاح کرکے اسے رکھ سکتا ہے، اگر بیوی کی رضا یا جدید نکاح کے بغیر بیوی کو رکھا؛ تو سخت گنہ گار اور مستحق عذاب نار ہوگا۔

اور زید کی لڑکی غیر محرم کے ساتھ بھاگنے کی وجہ سے سخت گنہ گار ہوئی اور والدین بھی لاپرواہی کرنے کی وجہ سے گنہ گار ہوئے۔

گاؤں پر لازم ہے کہ گاؤں کی عورتوں کی عورتوں کو جمع کریں، زید کی لڑکی ان عورتوں کے سامنے اپنے گناہ سے توبہ کرے، شرمندہ ہو اور آئندہ اس طرح کی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کرے اور ایک گھنٹہ قرآن پاک اپنے سر پر رکھ کر ان کے سامنے کھڑی رہے، نیز لڑکی کے والدین بھی اپنی لاپرواہی سے توبہ کریں۔

حدیث شریف میں ہے: ((التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ)) (سنن ابن ماجہ، رقم: ۴۲۵۰، ط:دار إحیاء الکتب العربیۃ)

اگر لڑکی اور اس کے والدین توبہ کرلیں؛ تو انہیں نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور مسجد میں چٹائی وغیرہ دینے کی ترغیب دلائی جائے؛ کیوں کہ نیک کام برائی کو ختم کرنے والا ہے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ﴾ (ھود:۱۱، آیت:۱۱۴)

لیکن اگر توبہ نہ کریں؛ تو گاؤں والوں پر لازم ہے کہ ان کا یوں ہی سماجی بائیکاٹ باقی رکھیں۔ و اللہ تعالی أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.