نامرد کی طلاق اور عدت کا حکم

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرح متین مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے  میں کہ:

میری بہن کا نکاح ’عتیق احمد‘ الہ آباد کے ساتھ ۲۵؍۲؍۲۰۱۳ءکو بمطابق شریعت مطہرہ ہوا تھا، آج تقریبا سات سال گزرنے کے بعد والدین کو بچہ نہ ہونے کی وجہ سے فکر لاحق ہوئی؛ تو تفتیش کی گئی؛ تو معلوم ہوا کہ لڑکا ازدواجی تعلق قائم کرنے کے لائق نہیں (نامرد) ہے اور لڑکی شرم و حیا کی بنا پر اہل خانہ کو نہ بتاسکی، نیز لڑکا اپنے علاج و معالجہ کا بہانہ بناکر لڑکی کو بہلاتا رہا، لڑکے نے خلاصہ ہونے پر اپنی غلطی کا اقرار کیا اور لڑکی کو بخوشی طلاق دے کر رخصت کیااور موبائل پر بھی کئی مرتبہ طلاق دے کر دوسری شادی کرنے کو کہا جس کو ہم سبھی نے بھی اپنے کانوں سے سنا،لیکن اب لڑکا تحریری طور پر طلاق دینے سے انکار کر رہا ہے؛ تو ایسی صورت میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے، کیا لڑکی دوسرا نکاح کرسکتی ہے، قرآن وحدیث و سنت کی روشنی میں جلد از جلد جواب عنایت فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔

المستفتی: محمد شمیم بن امام بخش، گرام بھٹولی، پوسٹ رورا، ضلع کانپور دیہات، پن: ۲۰۹۳۰۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب فون پر طلاق دینے کا اعتبار نہیں، البتہ اگر شوہر نے واقعی طلاق دے کر رخصت کیا یا زبانی طور پر طلاق دینے کا اقرار کرتا ہے اگرچہ تحریری طورپر طلاق نہ دے؛ تو جتنی طلاق دیا یا جتنی طلاق دینے کا اقرار کرتا ہے، اتنی طلاق واقع ہوگئی۔

اس صورت میں اگر واقعی لڑکا اس قدر نامرد ہے کہ بالکل جماع پر قدرت ہی نہیں رکھتا؛ تو لڑکی عدت گزارے بغیر دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے ورنہ عدت گزارے، پھر نکاح کرے۔ عدت کی صورت میں طلاق اگر رخصتی کے وقت سے ثابت ہوجائے؛ تو اسی وقت سے عدت ہے ورنہ جس وقت طلاق کا اقرار کیا، اس وقت سے عدت گزارے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:’’إذَا أَقَرَّ الرَّجُلُ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ مُنْذُ كَذَا صَدَّقَتْهُ الْمَرْأَةُ فِي الْإِسْنَادِ أَوْ كَذَّبَتْهُ أَوْ قَالَتْ: لَا أَدْرِي فَالْعِدَّةُ مِنْ وَقْتِ الْإِقْرَارِ وَلَا يُصَدَّقُ فِي الْإِسْنَادِ هُوَ الْمُخْتَارُ‘‘۔ (کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر فی العدۃ، ج۱ص۵۳۲، ،ط: دار الفکر، بیروت)

جد الممتار میں ہے: ’’فالذي یظھر أن کل خلوۃ یمکن فیھا الإیلاج و لو کان ثم مانع شرعي کالصوم أو حسي کمرض یزید بالجماع فھي توجب العدۃ، و کل مانع لایمکن ھو (أي: معه) الشغل کصغرہ أو صغرھا أو رتقھا أو مرض فیھا لایستطیع معه الجماع أصلا لایجب فیھا العدۃ‘‘۔ (جد الممتار، محدث بریلوی، باب العدۃ، ج۵ص۱۸۱، رقم: ۳۰۹۴، ط: مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’(وَأَمَّا حُكْمُهُ) فَوُقُوعُ الْفُرْقَةِ بِانْقِضَاءِ الْعِدَّةِ فِي الرَّجْعِيِّ وَبِدُونِهِ فِي الْبَائِنِ كَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ. وَزَوَالُ حِلِّ الْمُنَاكَحَةِ مَتَى تَمَّ ثَلَاثًا كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ‘‘۔ (کتاب الطلاق، الباب الأول فی تفسیرہ، ج۱ص۳۴۸) و اللہ تعالی أعلم———————-

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

     ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

      خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

  ۲؍صفر المظفر ۱۴۴۲ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.