جنون کی حالت میں اور بے اضافت طلاق کا حکم

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین حسب ذیل مسئلہ میں ایک آدمی پاگل ہوگیا تھا لیکن علاج سے کنٹرول ہوگیا ہے، اب وہ اپنے تمام کام سلیقہ سے انجام دیتا ہے، پھر بھی یہ کمزوری باقی ہے کہ بعض اوقات خلاف مزاج باتوں پر اس کا دماغ بگڑ جاتا ہے اور دماغ اور زبان پر کنٹروال نہیں رہتا؛ اسی وجہ سے اب بھی اس کا علاج چل رہا ہے اور بقول ڈاکٹر تا حیات چلتا رہے گا، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اس کی اپنے والد صاحب گھریلو معاملہ کے سسلسلہ میں گفتگو چل رہی تھی، اسی دوران اس کا دماغ اور زبان کنٹروال سے باہر ہوگئی اور اس کی زبان سے کچھ نامناسب نکل گئیں، اب اس کے والد صاحب کا کی اس حالت میں اس کی زبان سے طلاق کا لفظ بھی نکلا ہے لیکن اس کا کہنا یہ ہے کہ مجھ کو ہوش نہیں ہے اور نہ ہی مجھے کچھ یاد ہے کہ میری زبان سے طلاق کا لفظ نکلا ہے اور وہ صاف انکار کر رہا ہے، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ایسی صورت میں کسی کی بات مانی جائے گی اور طلاق واقع ہوگی یانہیں، جو حکم شرعی ہو، بیان فرماکر ثواب دارین حاصل کریں۔

المستفتی: صغیر احمد

موبائل نمبر: 9919933249

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب گھریلو گفتگو کے دوران اگر واقعی اس آدمی کی عقل پاگل پن کی وجہ سے بالکل زائل ہوگئی تھی اور وہ قسم کھاکر اس وقت اس حالت کے پیدا ہونے کا اقرار کرے؛ تو مطلقا طلاق واقع ہونے کا حکم نہیں دیں گے اور اگر عقل زائل نہیں ہوئی تھی مگر زبان پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے اس نے لفظ طلاق بولا مگر اضافت کا کوئی لفظ عورت کی طرف نہ کیا؛ تو اس صورت میں زید سے قسم لی جائے، اگر وہ قسم کھالے کہ اس نے اس لفظ سے اپنی زوجہ مراد نہ لی تھی؛ تو طلاق کے وقوع کا حکم نہیں دیا جائے گا۔

اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’مگر جب کہ گواہان عادل شرعی سے ثابت ہو کہ واقعی وہ اس وقت حالت جنون میں تھا یا یہ معلوم و مشہور ہو کہ اسے جب غصہ آتا ہے؛ تو عقل سے باہر ہوجاتا ہے اور حرکات مجنونانہ اس سے صادر ہوتی ہے،اس حالت میں اگر وہ قسم کھاکر کہ دے گا کہ اس وقت میرا یہی حال تھا اور میں عقل سے بالکل خالی تھا؛ تو قبول کرلیں گے اور حکم طلاق نہ دیں گے، اگر جھوٹا حلف کرے گا، وبال اس پر ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، اعلی حضرت محدث بریلی، کتاب الطلاق، ج۱۰ص۶۴، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)

فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’وَلَا يَقَعُ طَلَاقُ الصَّبِيِّ وَإِنْ كَانَ يَعْقِلُ وَالْمَجْنُونُ وَالنَّائِمِ وَالْمُبَرْسَمُ وَالْمُغْمَى عَلَيْهِ وَالْمَدْهُوشُ هَكَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق، الباب الأول فی تفسیرہ، ج۱ص۳۵۳، ط: دار الفکر، بیروت)

نیز فرماتے ہیں:’’کوئی لفظ عورت کی طرف اضافت کا نہ کہا تھا، نہ نام نہ نسب، نہ وصف نہ لقب، نہ اشارہ مثلا فلاں عورت یا فلاں کی بیٹی یا اپنی زوجہ کو یا اس کو وغیرہ وغیرہ کوئی لفظ اس قسم نہ تھا، نہ یہ کلام کسی سوال کے جواب میں تھا جس سے اضافت پیدا ہو بلکہ ابتداءً یہی الفاظ اس نے مکرر کہے، اس صورت میں زید سے قسم لی جائے اگر وہ حلف کرے کہ ان الفاظ سے اپنی زوجہ مراد نہ تھی؛ تو حکم طلاق نہ دیا جائے گا‘‘۔ (فتاوی رضویہ، اعلی حضرت محدث بریلوی، کتاب الطلاق، ج۱۰ص۴۷، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)

فتاوی ہندیہ میں ہے: ’’لَا يَقَعُ فِي جِنْسِ الْإِضَافَةِ إذَا لَمْ يَنْوِ لِعَدَمِ الْإِضَافَةِ إلَيْهَا‘‘۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الطلاق، الفصل السابع فی الطلاق بالألفاظ،  ج۱ص۳۸۲، ط: دار الفکر، بیروت) و اللہ تعالی أعلمــــــ

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

       ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

      خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

    ۳؍ ذی الحجۃ ۱۴۴۱ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.