بلا اضافت غصہ سے ایک دو تین کہنے کا حکم

کیا فرماتے ہیں علماے دین، مفتیان شرح متین کہ:

قاسم نے زید سے یہ سوال کیا: کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع مسئلہ ذیل میں کہ: میاں بیوی میں کسی بات پر جھگڑا ہوا، شوہر نے اسی وقت غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو کئی لوگوں کے سامنے ایک، دو، تین کہ دیا۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں۔

زید نے اس کے جواب میں لکھا: صورت مسؤلہ میں بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی۔ غصہ کی حالت قرینہ ہے اس بات پر کہ اس کی مراد ایک دو تین سے طلاق ہے، بہار شریعت جلد ہشتم، صفحہ ۱۲۱ میں ہے: کنایہ سے طلاق ہونے میں شرط یہ ہے کہ نیت طلاق ہو یا حالت بنتی ہو کہ طلاق مراد ہے یعنی پیشتر طلاق کا ذکر تھا یا غصہ میں کہا‘‘۔ اب بغیر حلالہ وہ اپنے شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی۔

قاسم کو زید کے مذکورہ بالا جواب سے تشفی نہیں ہوئی اور اس نے خالد کو لکھا کہ: حضور والا سے گزارش ہے کہ جامعہ ۔۔۔۔۔۔۔کا مذکورہ جواب درست ہے یا نہیں؟ بعض علما کہتے ہیں کہ صحیح نہیں۔

اس کے جواب میں خالد نے لکھا: ھذا الجواب لیس بصحیح، وقوع طلاق کے لیے لفظا یا نیۃ اضافت ضروری ہے، صورت مسؤلہ میں اضافت نہیں؛ اس لیے طلاق واقع نہیں ہوئی؛ إذ لا طلاق إلا بالإیقاع و لا إیقاع إلا بإحداث تعلق الطلاق بالمرء و لیس ذلك إلا بالإضافة، ھکذا في الفتاوی الرضویة في الجزء الخامس، ص۴۰۹۔ (تمت الجواب)

المستفتی: عبد المصطفی قادری، ممبئی۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب زید کا جواب درست نہیں اور خالد کا جواب درست ہے مگر خالد کی جانب سے صورت مسئلہ کی جواب میں مزید وضاحت ہونی چاہیے۔

زید کا جواب درست نہیں؛ کیوں کہ جھگڑا کی حالت میں محض ایک دو تین کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ اس صورت میں مذاکرہ طلاق کا قرینہ یعنی طلاق کا ذکر ہونا ضروری ہے یا پھر اس سے طلاق کی نیت ہو؛ تو اس صورت میں طلاق کا حکم دیا جائے گا ورنہ نہیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَاحِدَةً أَوْ ثِنْتَيْنِ فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ أُمُّ امْرَأَتِهِ فَقَالَتْ طَلَّقْتهَا وَلَمْ تَحْفَظْ حَقَّ أَبِيهَا وَعَاتَبَتْهُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ الزَّوْجُ هَذِهِ ثَانِيَةٌ أَوْ قَالَ الزَّوْجُ هَذِهِ ثَالِثَةٌ تَقَعُ أُخْرَى وَلَوْ عَاتَبَتْهُ وَلَمْ تَذْكُرْ الطَّلَاقَ فَقَالَ الزَّوْجُ هَذِهِ الْمَقَالَةُ لَا تَقَعُ الزِّيَادَةُ إلَّا بِالنِّيَّةِ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ‘‘۔ (الفتاوی الھندیۃ، الفصل الأول فی الطلاق الصریح، ج۱ص۳۵۲، ط: دار الفکر، بیروت)

جامع الفصولین میں ہے: ’’برمز فشین لفوائد شیخ الإسلام برھان الدین، قال: ترا یک طلاق؛ فلاموہ، گفت: دیگر دادم، یقع آخر؛ لأنه جواب لذلك و بناء علیه‘‘۔ (جامع الفصولین، الفصل الثانی و العشرون فی مسائل الخلع إلخ، ج۱ص۲۹۰)

فتاوی رضویہ میں ان عبارات کے تحت ہے: ’’قلت یعني إذا ذکروا في الملامة طلاق المرأۃ کی یکون معادا في الجواب و إلا لم یقع بدون النیة کما سمعت من الخانیة و إنما لم یذکرہ فشین؛ لأن العادۃ ذکر مایلام علیه في الملامة کما لایخفی‘‘۔ (فتاوی رضویہ، مجدد دین و ملت، کتاب الطلاق، ج۱۰ص۳۸، ط جدید: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)

مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوگیا کہ مذکورہ صورت میں محض جھگڑا کی بنیاد پر طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ وقوع طلاق کے لیے مذاکرہ طلاق یا پھر نیت کا ہونا ضروری ہے۔

اور زید کا بہار شریعت کی اس عبارت سے ’’کنایہ سے طلاق ہونے میں شرط ہے یہ ہے کہ نیت طلاق ہو یا حالت بنتی ہو کہ طلاق مراد ہے یعنی پیشتر طلاق کا ذکر تھا یا غصہ میں کہا‘‘۔ استدلال کرنا درست نہیں؛ کیوں کہ اس عبارت کے بعد حضور صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ نے کنایہ کے الفاظ کی تین قسمیں کی ہیں اور قدر تفصیل سے ہر ایک کا الگ الگ حکم بتایا ہے، مندرجہ بالا عبارت سے اس تفصیل کی روشنی میں ہی طلاق کے واقع ہونے اور نہ ہونے کا حکم بیان کیا جائے گا، اس کے بغیر نہیں۔

خالد کو مذکورہ صورت میں مطلقا طلاق کے واقع نہ ہونے کا حکم نہیں دینا چاہیے بلکہ اس طرح لکھنا چاہیے کہ مذکورہ صورت میں اضافت نہ ہونے کی وجہ سے طلاق واقع ہونے کا حکم نہ دیں گے، البتہ اگر شوہر نے اپنے اس جملے سے طلاق کی نیت کی ہے؛ تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی ورنہ نہیں۔ و اللہ تعالی أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۲۷؍ ربیع الآخر ۱۴۴۲ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.