الو کی نحوست کا حکم۔

۷۸۶

         کیا فرماتے ہیں علماے دین اور مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کی بابت کہ:

زید کا یہ کہنا ہے کہ اُلو منحوس پرندہ ہے، اس کو گھر پر نہیں بیٹھنے دینا چاہیے، اگر رات میں اُلو گھر میں آکر یا باہر بجلی کے تاروں پر بیٹھتا ہے؛ تو اسے بھگادینا چاہیے، جب کہ بکر یہ کہتا ہے کہ اس سے کچھ نہیں ہوتا ہے، یہ غلط مشہور ہے۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ دونوں میں سے کس کا قول صحیح ہے، اُلو اگر گھر میں آتا ہو؛ تو اسے مار دینا چاہیے یا پھر نہیں، اُلو کے گھر میں آنے سے بربادی آتی ہے یا نہیں، اس تعلق سے کوئی حدیث شریف یا بزرگان دین کے اقوال وغیرہ سے کوئی ثبوت ہو؛ تو مع دلائل جواب عنایت فرمائیں۔

سائل: محمد یونس رضوی مصباحی، راجستھان۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب اب تک میری نظر سے کوئی حدیث یا کسی بزرگ کا قول نہیں گزرا جس میں اُلوسے بدفالی یا بدشگونی لینے کی وضاحت ہو، البتہ اس کے برخلاف حدیث شریف میں عام بدفالی بلکہ خاص اُلو سے بدشگونی یا بدفالی لینے سے منع کیا گیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے: عن أَبَي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنه، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ)) (صحیح البخاری، باب الجذام، ج۷ص۱۲۶، رقم: ۵۷۰۷، ط: دار طوق النجاۃ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے: ’’(وَلَا هَامَةَ): بِتَخْفِيفِ الْمِيمِ فِي الْأُصُولِ الْمُعْتَمَدَةِ وَالنُّسَخِ الْمُصَحَّحَةِ، وَهِيَ اسْمُ طَيْرٍ يَتَشَاءَمُ بِهِ النَّاسُ وَهِيَ الصَّدَى، وَهُوَ طَيْرٌ كَبِيرٌ يَضْعُفُ بَصَرُهُ بِالنَّهَارِ، وَيَطِيرُ بِاللَّيْلِ، وَيُصَوِّتُ وَيَسْكُنُ الْخَرَابَ، وَيُقَالُ لَهُ: بُومٌ، وَقِيلَ: كَوْفٌ، وَكَانَتِ الْعَرَبُ تَزْعُمُ أَنَّ عِظَامَ الْمَيِّتِ إِذَا بَلِيَتْ وَعَدِمَتْ تَصِيرُ هَامَةً، وَتَخْرُجُ مِنَ الْقَبْرِ وَتَتَرَدَّدُ وَتَأْتِي بِأَخْبَارِ أَهْلِهِ، وَقِيلَ: كَانَتْ تَزْعُمُ أَنَّ رُوحَ الْقَتِيلِ الَّذِي لَا يُدْرَكُ بِثَأْرِهِ تَصِيرُ هَامَةً فَتَقُولُ: اسْقُونِي اسْقُونِي، فَإِنْ أُدْرِكَ بِثَأْرِهِ طَارَتْ، فَأَبْطَلَ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – هَذَا الِاعْتِقَادَ. قَالَ أَبُو دَاوُدَ فِي سُنَنِهِ، قَالَ بَقِيَّةُ: سَأَلْتُ ابْنَ رَاشِدٍ عَنْ قَوْلِهِ: ” لَا هَامَةَ ” فَقَالَ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ: لَيْسَ أَحَدٌ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ إِلَّا خَرَجَ مِنْ قَبْرِهِ هَامَةٌ.

وَقَالَ النَّوَوِيُّ هِيَ بِتَخْفِيفِ الْمِيمِ عَلَى الْمَشْهُورِ، وَقِيلَ: بِتَشْدِيدِهَا وَفِيهَا تَأْوِيلَانِ أَحَدُهُمَا: أَنَّ الْعَرَبَ كَانَتْ تَتَشَاءَمُ بِهَا وَهِيَ مِنْ طَيْرِ اللَّيْلِ، وَقِيلَ: هِيَ الْبُومَةُ. قَالُوا: كَانَتْ إِذَا سَقَطَتْ عَلَى دَارِ أَحَدِهِمْ يَرَاهَا نَاعِيَةً لَهُ نَفْسَهُ أَوْ بَعْضَ أَهْلِهِ، وَهُوَ تَفْسِيرُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. وَثَانِيهُمَا: كَانَتِ الْعَرَبُ تَزْعُمُ أَنَّ عِظَامَ الْمَيِّتِ، وَقِيلَ رُوحُهُ تَنْقَلِبُ هَامَةً تَطِيرُ، وَهَذَا تَفْسِيرُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ، وَهُوَ الْمَشْهُورُ، وَيَجُوزُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ النَّوْعَيْنِ مَعًا، فَإِنَّهُمَا بَاطِلَانِ‘‘۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، علامہ علی قاری، باب الفأل و الطیرۃ، ج۷ص۲۸۹۳، ط: دار الفکر، بیروت)

حدیث اور شرح حدیث سے واضح ہوگیا کہ زید کا اُلو کو منحوس وغیرہ بتانا غلط اور بکر کا کہنا صحیح ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اُلو کے گھر میں آنے سے نہ تو بربادی آتی ہے اور نہ بلا حاجت اسے مارنے کی اجازت ہے، زید بلکہ ہر مسلم پر لازم و ضروری ہے کہ وہ اس طرح کی خرافات سے باز آئے اور اللہ تعالی پر کامل بھروسہ رکھے؛ کیوں کہ اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ و اللہ تعالی أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۳؍ ذی القعدۃ ۱۴۴۲ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.