شہر اندور کا پہلا تین روزہ سفر!(پہلی قسط/ ابن فقیہ ملت)

محبی و مکرمی حضرت مولانا مفتی صابر علی مصباحی زید شرفہ کی دعوت پر اندور کا یہ پہلا سفر ١٣/ربیع الآخر ٤٥ھ مطابق ١٧/ اکتوبر ٢٤ء بروز جمعرات، شروع ہوکر، منگل کی صبح، سات بجے ختم ہوجاتا ہے۔

اندور کے اس پہلے سفر کے لیے، میں جمعرات کو تقریبا بارہ بجے، دیار فقیہ ملت، اوجھا گنج سے والدہ محترمہ کی دعائیں لے کر نکلا اور الحمد للہ جمعہ کے دن، نو بجے کے آس پاس، اندور ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا، سید صاحب قبلہ نے نہایت ہی متواضع عالم، مولانا عمر فاروق سعدی زید علمہ کو مجھے اسٹیشن سے لے کر، قیام گاہ پہنچانے اور دیکھ بھال کی ذمہ داری تھی، آپ ایک دو احباب کے ساتھ وقت پر اسٹیشن پہنچ گئے، سلام و دعا کے بعد، ہم تھوڑی دیر میں سعید بھائی ایڈوکیٹ کے گھر پہنچ گئے، جو جونا رسالہ میں واقع ہے، سعید بھائی، حافظ و قاری سید اختیار علی زید شرفہ، سعدی صاحب اور بعض دیگر محبین کے ساتھ پر تکلف ناشتہ کیا گیا، اسی درمیان یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ میرے ٹھہرنے کا انتظام سعید بھائی کے گھر ہے، جہاں بڑے بڑے علما، خطبا و بزرگان دین ٹھہر چکے ہیں۔ جیسے منانی میاں اور مشہور خطیب حضرت ابو الحقانی صاحب قبلہ وغیرہ۔

سفر کتنا بھی آسان ہو مگر کچھ تھکن ضرور محسوس ہوتی ہے؛ اس لیے تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد، فریش ہوا اور سعدی صاحب کے ساتھ حسب ارادہ، اندور کی جامع مسجد پہنچ گیا، مسجد میں داخل ہوتے ہی، شہزادہ مفتی اعظم مالوا محبی حضرت مولانا احمد یار خاں ازہری زید علمہ سامنے نظر آئے، مصافحہ و معانقہ کے بعد، ہم ایک ساتھ جامع مسجد کے دار الافتاء میں گئے، یہ وہی دار الافتاء ہے، جہاں مفتی اعظم مالوا مفتی حبیب یار خاں علیہ الرحمۃ فتاوی لکھا کرتے تھے اور اس وقت مفتی منظر ناز مکرانوی زید علمہ، یہ ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ کچھ گفت و شنید کے بعد، جمعہ سے پہلے میں نے “سیرت غوث اعظم اور ہمارا معاشرہ” کے موضوع پر مختصرا بیان کیا۔ پھر محترمی ازہری صاحب قبلہ کے حکم سے میں نے ہی خطبہ جمعہ پڑھا اور نماز بھی پڑھائی، نماز کے بعد، مسجد کے احاطہ میں موجود، مفتی اعظم مالوا مفتی حبیب یار خاں علیہ الرحمۃ اور دیگر بزرگان دین کی قبر مبارک پر فاتحہ پڑھ کر، تھوڑی دیر کے لیے، ہم سب دار الافتاء میں آگئے، اس بار یہاں مسجد کے صدر و سکریٹری وغیرہ سے ملاقات ہوئی، سب کے سب بڑی محبت سے پیش آئے۔ پھر ازہری صاحب قبلہ وغیرہ سے اجازت لے کر، اپنی قیام گاہ سعید بھائی کے گھر آگیا۔

کچھ وقت کے بعد، سید صاحب قبلہ کے ذریعے یہ خبر ملی کہ آپ کو رات میں امام قاری عارف زید علمہ کی مسجد، گاندھی نگر میں خطاب کرنا ہے، اور موضوع: “النبی الأمی اور طارق مسعود” ہے، میں نے قبول تو کرلیا، مگر میرا اس پر کوئی خاص مطالعہ نہیں تھا؛ اس لیے فورا سعدی صاحب کے ذریعے، تفسیر کبیر منگائی، مکتبہ شاملہ کے ذریعے، تفسیر آلوسی اور عمدۃ القاری کی طرف رجوع کیا، جس سے کافی حد تک بیان کے لیے اپنے آپ کو مطمئن پایا، پھر عشا کی نماز کے بعد، حسب ارادہ، ازہری صاحب قبلہ کی معیت میں، پہلے فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے بہت ہی قریبی فرد حافظ صدیق صاحب چوری والے کے یہاں دعوت طعام میں شرکت کے لیے پہنچا، حافظ صاحب اور آپ کے بچوں سے مل کر بڑی فرحت محسوس ہوئی، صدیق صاحب سے گفتگو کے درمیان کچھ چیزیں معلوم ہوئیں، جس سے میں کافی حد تک متاثر ہوا: (۱) آپ نے تعویذ بنانے کا کام چھوڑکر کتاب لکھنا شروع کردیا۔ (۲) حافظ صاحب کے مطابق، یہ تبدیلی حضور مفتی اعظم ہند کی کرامت اور حضرت فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کی صحبت کے نتیجے میں ہوئی۔ (۳) آپ سے بات کرنے والا اجنبیت محسوس نہیں کرتا، جیسا کہ پہلی ملاقات کے باوجود، مجھے خود اس کا احساس تک نہیں ہوا۔ بہر کیف کھانے کے بعد آپ کے بچوں نے مجھ سے کچھ مسائل پوچھے، جن کا میں نے جواب دیا اور اس کے بعد الوداعی سلام و دعا کرکے، گاندھی نگر کے لیے روانہ ہوگیا۔

گاندھی نگر کی مسجد پہنچا؛ تو بلبل باغ مدینہ محترمی حضرت مولانا موسی رضا، ساؤتھ افریقہ، بڑے ہی بہترین انداز میں نعت شریف گن گنارہے تھے، یہیں پر محترمی حضرت مولانا مفتی سید صابر علی مصباحی زید شرفہ کی زیارت ہوئی، سلام و دعا کے بعد، مولانا موسی رضا زید علمہ نے اپنی بہترین نعت خوانی مکمل کرکے، سامعین کو کچھ نصیحتیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے موضوع: “النبی الأمی اور طارق مسعود” پر مختصرا گفتگو کیا، جس کا حاصل کلام یہ تھا: (۱) فرق باطلہ سے بچ کر رہنے کی ضرورت ہے۔ (۲) امی کا ایک معنی، بے پڑھا لکھا ہے، مگر اس کا ہر گز یہ معنی نہیں کہ حضورﷺ کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا بلکہ یہ معنی ہے کہ آپ نے کسی انسان سے نہیں بلکہ اپنے رب تعالی سے پڑھنا لکھنا سیکھا اور یہ حضور ﷺ کا معجزہ ہے۔ (۳) امی کا ایک معنی اصل ہے، یعنی حضورﷺ دنیا کی تمام چیزوں کے اصل ہیں، حدیث شریف میں: لو لا محمد لما خلقت آدم۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ (المستدرك على الصحيحين) اسی کی عکاسی کرتے ہوئے، مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں/ اصل الأصول بندگی اس تاجور کی ہے۔
(٤) لنسفعا بالناصیة، قرآن پاک میں جس طرز پر لکھا ہے، وہی صحیح اور سب سے فصیح و بلیغ ہے اور اگر عرب کے استعمال کے لحاظ سے دیکھا جائے؛ تو بھی درست ہے؛ کیوں کہ اس طرح کا استعمال ان کے یہاں موجود ہے، تفسیر آلوسی میں ہے: و كتبت النون الخفيفة في قراءة الجمهور ألفا اعتبارا بحال الوقف فإنه يوقف عليها بالألف تشبيها لها بالتنوين وقاعدة الكتابة مبنية على حال الوقف والابتداء ومن ذلك قوله: و مهما تشأ منه فزارة تمنعا و قوله: يحسبه الجاهل ما لم يعلما۔ (٤) دیوبندیوں کے عالم طارق مسعود نے اس امر میں بیان کا جو طرز اختیار کیا ہے، اس میں صريح استخفاف ہے، جو بذات خود کفر ہے، اس میں تاویل مسموع نہیں۔ (٥) قرآن شریف میں اعرابی یا کسی طرح کی کوئی غلطی نہیں، غلطی کا دعوی، دیوبندی مذکور کی جہالت ہے۔

بیان کے بعد ہم سب، جان کائنات حضورﷺ کے موے مبارک کی زیارت سے مشرف ہوئے اور کچھ ہی دیر بعد، ازہری صاحب قبلہ کے ساتھ، گاندھی نگر سے واپس، جونا رسالہ آگئے، ازہری صاحب قبلہ کو الوداع کہا اور فورا نیند کی آغوش میں جانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری۔

اندور کا پہلا تین روزہ سفر!
(دوسری قسط/ ابن فقیہ ملت)

الحمد للہ، سنیچر کے دن جب صبح نیند کھلی؛ تو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد، کچھ کھاکر پانی پیا اور حسب ارادہ، محبی حضرت مولانا محمد سلمان ازہری زید علمہ، استاد جامعہ غوثیہ، کھجرانہ نے محبی حضرت مولانا تبریز عالم ازہری زید علمہ، استاد جامعہ غوثیہ کو جونا رسالہ، سعید بھائی کے یہاں مجھے لانے کے لیے بھیج دیا۔ یہ ازہری صاحب کی محبت کہ تشریف لائے، میں ازہری صاحب کے ساتھ تقریبا آدھے گھنٹے میں جامعہ غوثیہ، کھجرانہ پہنچ گیا، حضرت مولانا سلمان ازہری صاحب، دیگر اساتذہ اور بعض طلبا کے ساتھ، اپنے مہمان کا استقبال کیا، مصافحہ و معانقہ اور خیر و خیریت کے بعد، ہم مہمان خانہ پہنچے، پر تکلف ناشتہ کے بعد، حضرت مولانا سلمان ازہری صاحب اور دیگر اساتذہ نے جامعہ کی لائبریری، درس گاہ، طلبا کی رہائش گاہ اور اساتذہ کی کالونی وغیرہ دکھائی، یہ دیکھ بڑی خوشی ہوئی کہ طلبا کی بہترین تعلیم و تربیت کے ساتھ، حالات زمانہ کے اعتبار سے جامعہ تمام تر سہولیات سے مزین ہے اور جامعہ کے بیرونی و اندرونی تمام تر نظارے بڑے ہی دیدہ زیب و خوش کن ہیں۔ اس جامعہ کی بنیاد ١٩٩٦ء میں رکھی گئی، اس کے بانی محترم المقام حضرت مولانا انوار احمد قادری رضوی زید شرفہ ہیں، آپ بر وقت بغداد شریف کے سفر پر تھے؛ اس لیے آپ سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اس جامعہ میں اس وقت ڈھائی سو طلبا حفظ و قراءت اور درس نظامی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، بہت خوش کن بات یہ ہے کہ آئندہ ان شاء اللہ ان کے لیے ماڈرن ایجوکیشن کا بھی انتظام کیا جائے گا۔

جامعہ دیکھنے کے بعد، حضرت مولانا محمد سلمان ازہری صاحب کے حکم سے میں حضرت علامہ مولانا بدر الدین علیہ الرحمۃ کی طرف منسوب، جامعہ کی مسجد کی طرف متوجہ ہوا تاکہ طلبا کو کچھ اہم پیغامات دینے کی کوشش کی جائے، تھوڑی ہی دیر بعد، تمام اساتذہ و طلبا مسجد میں موجود تھے، میں نے آدھے گھنٹے کے آس پاس، مختلف نصیحتیں کیں، وہ نصیحتین یہ ہیں: نیت صالح/ سخت محنت/ وقت کی حفاظت/ اختلاف علما اور آپسی احترام/ ابتدا ہی سے منتخب موضوع کی طرف توجہ/ مقصد: صرف اسلام و مسلمانوں کی سربلندی/ اس کے لیے طریقہ کار کا تعین/ کامیابی کتنے وقت میں ملے گی؟!/ احساس ذمہ داری۔ مولانا سلمان ازہری صاحب کو ایک جگہ پروگرام میں جانا تھا اور مجھے بھی اندور کے سب سے قدیم ادارہ، دار العلوم نوری کی زیارت کرنی تھی اور وقت بھی کم تھا؛ اس لیے بیان کے فورا بعد، اساتذہ سے الواداع کہ کر، مولانا تبریز عالم ازہری صاحب کی مصاحبت میں دار العلوم نوری کی طرف متوجہ ہوگیا۔

تھوڑی ہی دیر بعد ہم اندور کے سب سے قدیم ادارہ، دار العلوم نوری میں تھے، جس کا قیام ١٩٧٣ء میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے مبارک ہاتھوں عمل میں آیا، آپ ہی نے اس کا نام دار العلوم نوری رکھا اور آپ ہی نے اس ادارے میں سب سے پہلا چندہ دیا تھا۔ آپ کی ان عنایتوں کی برکتیں آج بھی پورے اندار میں محسوس کی جارہی ہیں اور ان شاء اللہ تعالی، قیامت تک محسوس کی جاتی رہیں گی۔ یہی وہ ادارہ ہے جس نے ایسے علما و مبلغین پیدا کیے جو اندور اور بیرون اندور، ادارہ وغیرہ قائم کرکے، بہترین و معیاری دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس ادارہ میں بر وقت تقریبا تین سو بچے، ناظرہ، حفظ، قراءت اور درس نظامیہ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دار العلوم میں پہنچتے ہی دار العلوم کے روح رواں، مکرمی حضرت مولانا احمد یار خاں ازہری زید علمہ سے ایک بار پھر ملاقات کا شرف حاصل ہوا، آپ کے ساتھ، دار العلوم کی آفس میں پہنچا، یہاں حضرت مولانا مفتی نور الحق زید مجدہ، مفتی مالوہ ثالث اور دار العلوم کے بڑے سے ہال میں دیگر اساتذہ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہاں پر بھی ازہری صاحب قبلہ کے حکم پر میں نے طلبا کو سابقہ نصیحتوں سے ملتی جلتی نصیتیں کیں۔ دار العلوم نوری کی عمارت دور حاضر کے اعتبار سے اگرچہ بہت خوبصورت تو نہیں مگر جس وقت یہ بنی ہوگی، دار العلوم کی حیثیت سے اپنی مثال آپ رہی ہوگی۔ ازہری صاحب قبلہ نے بتایا کہ دار العلوم کی تین منزلہ عمارت ہے، نیچے بچے پڑھتے ہیں اور اوپر بچوں کی رہائش ہے اور دوسری جانب مسجد ہے، جس میں درسگاہ بھی لگتی ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ: اندور میں جتنے بھی اہل سنت کے ادارے ہیں، سب کے وجود کا سبب، سب سے قدیم ادارہ دار العلوم نوری ہے۔ اور یہ یقینا حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کا فیضان، مفتی اعظم مالوہ اول اور مفتی اعظم مالوہ دوم کی کاوشوں اور قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ دار العلوم نوری کے بالکل سامنے ہی ازہری صاحب قبلہ وغیرہ کی نگرانی میں ایک انگلش میڈیم اسکول بھی چلتا ہے، جس میں سینکڑوں بچیاں ماڈرن ایجوکیشن کے ساتھ، دینی تعلیم سے بھی آراستہ و پیراستہ ہورہی ہیں۔ نیز ازہری صاحب قبلہ کی نگرانی ہی میں تقریبا ڈیڑھ کروڑ کی لاگت سے ایک عظیم بلڈنگ بنائی گئی ہے، ان شاء اللہ تعالی اس میں بھی حالات کی رعایت کرتے ہوئے، عمدہ تعلیم و تربیت کا جلد ہی انتظام کیا جائے گا۔

دار العلوم نوری میں مولانا تبریز ازہری اور دار العلوم نوری کے اساتذہ کو الوداع کہ کر، میں حسب ارادہ حضرت مولانا احمد یار خاں ازہری صاحب قبلہ کے ساتھ، چندن نگر کی طرف، مکرمی حضرت مولانا شریف الحق مصباحی زید شرفہ سے ملاقات کے لیے نکل گیا، ظہر کے وقت چندن نگر پہنچ کر، ازہری صاحب قبلہ کسی کام سے نکل گئے اور میں مصباحی صاحب قبلہ کی قیام گاہ پر پہنچ گیا، مصباحی صاحب تھوڑی ہی دیر میں اپنے گھر تشریف لے آئے، ہمیشہ کی طرح آپ کا مسکراتا ہوا چہرا سامنے تھا، سلام و دعا اور مسجد غوثیہ غریب نواز میں نماز کے بعد، مصباحی صاحب کے حکم سے میں نے یہاں کے مدرسہ غوثیہ غریب نواز کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دینی و عصری تعلیم سے متعلق کچھ اہم نصیحتیں کیں اور یہ سمجھانے کی کوشش کیا کہ آپ اپنے والدین، ہمارے اور قوم مسلم کے مستقبل ہیں، آپ کو بہت محنت سے پڑھ کر، بہت کچھ بننا اور اسلام و مسلمانوں کو ترقی کی طرف گامزن کرنا ہے۔ مصباحی صاحب نے بتایا کہ مختلف اوقات میں یہاں چھوٹے بڑے، تقریبا پانچ سو بچے بچیاں پڑھتی ہیں! بیان کے بعد ہم مصباحی صاحب کی رہائش گاہ پر ایک ساتھ کھانے کے لیے بیٹھ گئے، کھانے کے مختلف اقسام پر مشتمل دستر خوان سامنے تھا، سیر ہوکر کھایا اور تھوڑی دیر قیلولہ کے لیے بستر پر چلا گیا، اٹھنے کے بعد ہم سب عصر کی نماز کے لیے مسجد میں پہنچے، وقت کی قلت کی وجہ سے تردد ہوا کہ نمازیوں کو کچھ نصیحت کی جائے یا نہیں، مگر بعد مشاورت یہ طے ہوا کہ دو چند منٹ نصیحت ہوجانی چاہئیے۔ نماز ادا کر لی گئی پھر مصباحی صاحب کے ذریعے میرا مختصر تعارف کے بعد، میں نے امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کے گمراہوں کے ساتھ طریقہ کار کی روشنی میں نمازیوں کو پیغام دیا کہ جب اتنے جلیل القدر عالم، گمراہ کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوئے؛ تو خاص کر اس سوشل میڈیا کے دور میں ہمیں خود گمراہ کی بات ہرگز نہیں سننی چاہیے اور نہ ہی اپنے بچے اور بچیوں کو سننے دینا چاہیے، ورنہ جان لیجیے کہ گمراہیت کے بعد، ارتداد کا دروازہ کھلنا آسان ہوجاتا ہے۔ نماز و بیان کے بعد ایک شخص ملا اور کہا کہ فلاں شخص کو جانتے ہیں؟ وہ قوال بھی ہیں! میں بھی سکتے میں آگیا کہ میرا اور قوال سے کیا رشتہ؟! وہ کان میں بالی پہنے ہوئے تھا، میں نے کہا اسے اتار دیجیے، یہ جائز نہیں، اس نے کہا میں نے منت مانی ہے، میں نے کہا کہ وہی منت پوری کرنا درست ہے، جس کی شرعا اجازت ہے، اتنا سنتے ہی وہ ٹھیک ہے نکال دیں گے، کہتے ہوئے دوسری طرف چلا گیا۔ پھر کالی چائے نوش کرنے کے بعد، مصباحی صاحب قبلہ نے مجھے مغرب کے وقت، سعید بھائی کے یہاں پہنچایا اور الوداع کہ کر چندن نگر واپس ہوگئے۔

اندور کا پہلا تین روزہ سفر!
(تیسری و آخری قسط/ ابن فقیہ ملت)

میں مغرب کی نماز پڑھ کر، بستر استراحت پر کچھ دیر کے لیے چلا گیا، پھر جونا رسالہ ہی میں تھوڑی دیر کے لیے جاوید بھائی کے یہاں گیا، جاوید بھائی کے ساتھ، حضرت مولانا مفتی شیر محمد مصباحی، لکھنؤ اور حضرت مولانا عابد رضا مصباحی بریلوی، پونے سے ملاقات ہوئی، چائے نوشی خیر و خیریت کے بعد، میں نے واپس آکر سعید بھائی کے یہاں کھانا کھایا اور استاذ الحفاظ حضرت حافظ وقاری سید اختیار علی صاحب قادری امام و خطیب مسجد بہشتیان، جونا رسالہ و صدر دار العلوم برکات سادات، اندور کی مسجد میں بیان کے لیے پہنچ گیا، سید صاحب کی ذات بڑی با برکت ہے، آپ نے بڑی محنت و لگن سے انجینئرنگ، ہائی اسکول اور جونیئر ہائی اسکول کے غالبا آٹھ طلبا کو بہترین حافظ بنادیا! یہ بے مثالی کام آپ ہی کا حصہ ہے۔ خیر میں نے اس مسجد میں کچھ دیر بعد تقریبا آدھا گھنٹا نماز کی اہمیت و ضرورت پر بیان کیا۔ چوں کہ رات کے وقت ہی جونا رسالہ ہی میں حضرت مولانا عمر فاروق سعدی زید علمہ نے صراط مستقیم فاؤنڈیشن کے تحت کنز الایمان ریسرچ سینٹر کا افتتاحی پروگرام رکھا تھا، اس کا افتتاح محقق مسائل جدیدہ، فقیہ عصر، سراج الفقہاء، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ و شرفہ کے ہاتھوں ہونا تھا اور مجھ فقیر کو بھی اس افتتاح میں شرکت کرنی تھی؛ اس لیے جب مجھے خبر ملی کہ فقیہ اعظم زید مجدہ تشریف لا چکے ہیں؛ تو میں پروگرام کی مجلس سے نکل کر، فقیہ اعظم زید مجدہ کے پاس آکر، ملاقات سے مشرف ہوا، چائے پانی کے بعد حضرت فقیہ اعظم زید مجدہ، بعض دیگر علما اور میں نے ایک ڈوری کھینچ کر، کنز الایمان ریسرچ سینٹر کا افتتاح کیا، پھر فقیہ اعظم زید مجدہ نے اپنے مختصر سے بیان میں کچھ اہم باتیں ارشاد فرمائیں، اس کے بعد شرح معانی الآثار کی ایک حدیث پڑھاکر سعدی صاحب کو اجازت حدیث عطا فرمائی۔ پھر میں دوبارہ پروگرام کی مجلس میں فقیہ اعظم زید مجدہ کے ساتھ پہنچ گیا۔ فقیہ اعظم زید مجدہ نے اپنے بیان میں متعدد مثالوں کے ذریعے بہت ہی عمدہ بیان فرمایا اور یہ پیغام دیا کہ قرآن و حدیث کے معانی سمجھنے میں جو گہرائی و گیرائی اہل سنت و جماعت کے اندر ہے، اس کا عشر عشیر بھی غیر کے اندر نہیں پایا جاتا، چلتے چلتے ایک مثال ذکر کر دیتا ہوں، فقیہ اعظم زید مجدہ سے کسی غیر نے سوال کیا کہ نماز شروع کرنے کے وقت سر نہ جھکانا کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے؟! آپ فرماتے ہیں: قرآن میں آیا ہے کہ نماز کے لیے کعبہ شریف کی طرف اپنا چہرا کرو، اگر سر جھکا لیا جائے؛ تو چہرا کعبہ شریف کی طرف کہاں ہوگا؟! بہر حال فقیہ اعظم زید شرفہ کی عام لب و لہجے میں بڑی علمی و اہم گفتگو ہوئی، آپ کے سادہ انداز گفتگو سے عوام و خواص، سبھی محظوظ ہوئے۔ اسی مجلس میں حضرت فقیہ اعظم زید مجدہ نے حضرت مولانا مفتی صابر علی مصباحی صاحب قبلہ کو سند افتا سے بھی نوازا۔ مجلس کے اختتام کے بعد، عوام و علما، اپنے مہمان علماے کرام سے سلام کر رہے تھے، ایک بزرگ شخص رونے کے انداز میں مجھ سے سلام کرکے کہنے لگے کہ مسجدیں ویران ہیں، نمازی نہیں رہتے، آپ نے تقریر اچھی کی، اللہ تعالی لوگوں کو ہدایت دے۔ میں نے دل میں کہا کہ اللہ تعالی تیرا شکر ہے کہ کچھ کو تو احساس ہوا ورنہ ایسی تقریریں تو سرد خانے میں چلی جاتی ہیں۔ خیر مجلس کے اختتام کے بعد، میں احباب کو شب بخیر کہ کر، سعید بھائی کے گھر، تقریبا دو بجے آرام کرنے کے لیے واپس آگیا۔

کنز الایمان ریسرچ سینٹر کا افتتاح تو فقیہ اعظم زید مجدہ کے ہاتھوں تو ہوگیا تھا، مگر ابھی اتوار کے دن کا مستقل افتتاحی پروگرام باقی تھا، یہ پروگرام تقریبا صبح گیارہ بجے شروع ہوا، علماے کرام اور مفتیان عظام نے اپنے اپنے انداز میں خطاب فرمایا اور تاثر پیش کیا، میں نے بھی دار الافتاء کی ضرورت پر مختصر سی روشنی ڈالی، اس پروگرام میں ایک نیا چہرا بھی موجود تھا، وہ حضرت مولانا مفتی قمر الدین علیمی زید شرفہ کی ذات تھی۔ مجلس کے بعد کھانا تناول کیا گیا، اس کے بعد مفتی قمر الدین صاحب سے قیام گاہ پر بعض چیزوں سے متعلق تبادلہ خیال کے بعد، میں تھوڑا آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا اور مفتی صاحب، مولانا شریف الحق مصباحی صاحب کے ساتھ، چندن نگر چلے گئے۔

اتوار کا دن گزار کر، رات میں عشا کے بعد ساگور شریف، دھار میں پروگرام تھا، جس کے انتظام کار حضرت مولانا مفتی نجم الدین امجدی زید علمہ تھے، آپ نے ساگور شریف میں دار الافتاء قائم کیا ہے اور بچیوں کی تعلیم کا بھی اچھا انتظام کر رکھا ہے۔ آپ کی محبت کہ آپ خود مجھے مغرب بعد اندور لینے آ گئے، ہم ایک ساتھ تقریبا ایک گھنٹے میں ساگور شریف پہنچ گئے، پھر ناشتہ اور کھانے کے بعد، تقریبا ایک ڈیڑھ بجے کے آس پاس دینی اور ماڈرن ایجوکیشن پر میرا مختصر بیان ہوا۔ پروگرام کے اختتام کے کچھ دیر بعد، تمام علما و احباب کو الوداع کہ کر اندور تقریبا تین بجے رات واپس آگیا۔ واپسی میں دار العلوم برکات سادات، چندن پور، بانی استاد الحفاظ حضرت سید اختیار علی زید شرفہ کے زیارت کا ارادہ تھا مگر وقت اور تھکن نے اجازت نہیں دیا۔ زندگی رہی تو ان شاء اللہ پھر کبھی زیارت ہوگی۔ خیر صبح سعید بھائی کے ساتھ ناشتہ کیا، سعید بھائی ایڈوکیٹ ہونے کے باوجود علما سے بہت محبت کرتے ہیں، تین دن تک کھانے پینے کے تعلق سے سعید بھائی اور آپ کے بچوں نے ہر آن میرا خیال رکھا، اللہ تعالی ہر آن ان کی حفاظت فرمائے۔ تقریبا ساڑھے نو بجے، سعید بھائی اور آپ کے بچوں کو الوداع کہ کر مولانا عمر فاروق سعدی زید علمہ کے ساتھ ریلوے اسٹیشن آگیا، آپ سے اسٹیشن پر فقہ و افتا کے بارے کچھ علمی گفتگو ہوتی رہی، کچھ وقت بعد ہی ٹرین کے چلنے کا وقت ہوگیا؛ تو آپ سے سلام و دعا بعد، میرا سفر دیار فقیہ ملت، اوجھاگنج کی طرف شروع ہوگیا، الحمد للہ خیر و عافیت کے ساتھ میں سات بجے کے قریب اپنے گھر پہنچ گیا۔

میں اپنے اس سفر میں اندور کے تمام مفتیان کرام، علما اور احباب کی محبتوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہو، اللہ تعالی آپ سب کے علم و عمل، عمر و وقت، رزق و تجارت میں خوب برکتیں عطا فرمائے اور تمام تر مقاصد حسنہ میں کامیابی سے ہم کنار کرے، آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔

طالب دعا: ابن فقیہ ملت غفرلہ
٢١/ربیع الآخر ٤٦ھ

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.