آن لائن فتاوی اور اس کی اہمیت و افادیت۔
مرکز الثقافۃ السنیۃ، کالی کٹ، کیرالا کے زیر انتظام، آل انڈیا فتوی کانفرنس میں ‘آن لائن فتاوی کی اہمیت و افادیت’ کے موضوع پر بولنے کے لیے، کچھ باتیں نوٹ کیا تھا، انھیں تھوڑا سنوار کر، قارئین کے نظر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، امید ہے کہ یہ باتیں قارئین کرام کے لیے مفید ہوں گی۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ((فاسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون)) حضور ﷺ فرماتے ہیں: ((بلغوا عني و لو آية))
اس آیت و حدیث سے سائل کی ضرورت اور مسؤل کی ذمہ داری پورے طور سے واضح ہو جاتی ہے، عموما ایک زمانہ تک یہ ضرورت و ذمہ داری آف لائن کی صورت میں پوری کی جاتی رہی مگر آج کا دور، آف لائن نہیں بلکہ آن لائن کا دور ہے؛ اس لیے استفتا و فتاوی کی شکل میں، سائل کی ضورت اور مسؤل کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے، آن لائن فتاوی کی اہمیت و افادیت دو اور دو، چار کی طرح بالکل واضح ہے۔
آپ ذرا غور کریں:
آف لائن: (۱) ایک دور تھا کہ لوگ خود جاکر زبانی سوال کرتے یا کاغذ پر لکھ کر جواب حاصل کرتے تھے (۲) پھر ترقی ہوئی؛ تو ڈاک کے ذریعے استفتا بھیج کر جواب حاصل کیا جانے لگا۔ اس زمانہ میں لوگوں کی بہت زیادہ مصروفیت نہیں تھی: خود وقت دے لیتے تھے/ زیادہ وقت لگنے کی وجہ سے گھبراتے نہیں تھے۔
آن لائن: (۱) مزید ترقی ہوئی؛ تو ای میل اور موبائل کال کے ذریعے سوالات کے جوابات حاصل کیے جانے لگے (۲) اس پر مزید ترقی ہوئی؛ تو لوگ ویب سائٹ، واٹسیپ، ٹیلی گرام اور ایپ وغیرہ کے ذریعے، جواب حاصل کرنے میں دلچسپی رکھنے لگے۔ آج لوگوں کی مصروفیات بڑھ چکی ہیں: خود آکر وقت نہیں دینا چاہتے/ سوال پہنچنے اور جواب واپس آنے کے لیے انتظار سے گھبراتے ہیں۔ اس لیے وقت کے لحاظ سے آن لائن کے تقاضے کو پورا کرنا ضروری ہے۔
میں آف لائن و آن لائن فتاوی سے متعلق بطور مثال صرف، منفرد مفتی ساز ادارہ، مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی کی بات کروں؛ تو فقیہ ملت حافظ و قاری مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ نے، جب اسے قائم کیا تھا، اس وقت لوگ خود آکر یا خط و کتابت کے ذریعے کثرت سے سوال کرتے تھے، مگر آج کیفیت یہ ہے کہ لوگ بہت مجبوری ہی میں مرکز آتے ہیں یا سال میں کہیں چار پانچ خط کے ذریعے، استفتا پہنچتے ہیں اور واٹسیپ و ٹیلی گرام کے ذریعے سیکڑوں سوالات آتے رہتے ہیں اور مستقل دس بارہ لوگوں کے جوابات لکھنے کے باوجود، عموما چالیس پچاس سوالات انتظار میں رہتے ہیں۔
اتنی وضاحت سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ اس دور میں آن لائن فتاوی کی اہمیت و افادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ اگر اس کی طرف تقاضے کے مطابق کام نہ کیا گیا؛ تو بہت نقصان ہوگا۔
اس جہت سے مزید اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ پہلے لوگ کئی کلو میٹر جاکر، کچھ سنتے پھر گمراہ ہوتے یا کوئی انھیں بلاکر لے جاتا پھر گمراہ کرتا تھا، مگر آج ہر فرد کے ہاتھ میں انڈرائیڈ موبائل ہے، اور اہل سنت و جماعت کے مد مقابل جتنے فرقے ہیں، تقریبا سبھی کے مواد: فتاوی، کتاب اور بیان وغیرہ کی صورت میں کثرت سے موجود ہیں، آپ سرچ کریں، سب سے پہلے انھیں غیروں کے مواد ہی آپ کو سر فہرست ملیں گے، جس کی وجہ سے اہل سنت و جماعت کے عوام کی گمراہیت مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ اور دو چند جیسے دعوت اسلامی اور مرکز الثقافۃ السنیۃ وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے؛ تو
اس میدان میں اہل سنت و جماعت کے لوگ بہت ہی پیچھے ہیں؛ کیوں کہ عموما انھیں، جلسہ جلوس، دعا تعویذ اور پیری مریدی وغیرہ سے ہی فرصت نہیں ملتی، میں انھیں برا نہیں کہتا مگر اسی میں مست رہنا اور وقت کے تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش نہ کرنا یا اس کی طرف سے عموما نظر پھیر لینا، ضرور محل نظر ہے۔
اس لیے ترجیحات میں ترمیم، وقت کا جبری تقاضا ہے۔ اسی لیے مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ نے فاتحہ کرکے کھلانے پر دینی طالب پر خرچ کرنے کو ترجیح دی۔ نیز راجح پر عمل کرنا زیادہ ثواب کا باعث بھی ہے۔
ویسے اہل سنت و جماعت کی توجہ پہلے کی بنسبت فتاوی و کتب وغیرہ کی طرف، ضرور بڑ ھی ہوئی ہے مگر دوسروں کے بالمقابل محدود ہونے کے ساتھ، عموما نا اہل لوگ اس میں زیادہ پیش پیش ہیں، تدریب کے بغیر ہر تیسرا عالم یا مولوی مفتی، بنا پھر رہا ہے اور آن لائن واٹسیپ و ٹیلی گرام وغیرہ کے ذریعے فتاوی جاری کر رہا ہے، جس کی وجہ سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔
بہر کیف آن لائن فتاوی کی اہمیت و افادیت بالکل نصف النھار کے سورج کی طرح واضح ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے چھوٹے سبھی ذمہ دار حضرات، جلسہ جلوس، دعا تعویذ اور پیری مریدی اور اپنے مریدین سے تھوڑا باہر نکل کر، باہر کی بھی دنیا دیکھیں اور وقت کے تقاضے کے پیش نظر، فتاوی کے تعلق سے ایک مکمل مضبوط سسٹم بنائیں، جہاں سے آن لائن، ویب سائٹ، ٹیلی گرام، واٹسیپ اور ایپ وغیرہ کے ذریعے چوبیس گھنٹے، اردو کے ساتھ، عربی اور دیگر مشہور زبانوں میں علمی جوابات دئے جائیں۔ دیگر امور کے ساتھ آن لائن فتاوی کے سسٹم کو مضبوط بنانا، وقت کا جبری تقاضا ہے، پورا کیا تو ان شاء اللہ تعالی کامیابی مقدر ہوگی اور نہیں پورا کیا تو خسارہ ہی ہاتھ آئے گا۔
اور میں یہ بات کہنے میں بالکل باک محسوس نہیں کرتا کہ اہل مدارس ہوں یا مساجد، اہل خانقاہ ہوں یا ادارے، اگر اپنی بساط کے مطابق، اس وقت کی ضرورت کو پوری نہ کریں گے اور استطاعت ہونے کے باوجود، طرح طرح کے بہانے بنائیں گے؛ تو لوگ بھی قوم کی گمراہیت کے ذمہ دار اور آخرت میں جواب دہ ضرور ہوں گے۔
اللہ تعالی ہم سب کو عقل سلیم دے اور اپنی، قوت، روپیے اور اپنے اوقات، پائدار کاموں میں زیادہ سے زیادہ لگانے کی توفیق سے نوازے، آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔
طالب دعا: #ابنفقیہملت
٣/شعبان المعظم ٤٦ھ