ملفوظات خواجہ خواجگاں کی جلوہ باریاں

ملفوظات خواجہ خواجگاں کی جلوہ باریاں

ساتوی و آٹھویں مجلس کی روشنی میں

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

         اردو دینی کتابوں کی دنیا سے شغف رکھنے والا ہر شخص تقریبا یہ بات جانتا ہے کہ اپنے وقت کی مایہ ناز کتاب دلیل العارفین،سیدی و سندی حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ و الرضوان کے ملفوظات پر مشتمل ہے، جنہیں آقائی و مولائی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ و الرضوان نے اس کتاب میں بہترین انداز میں جمع کیا، یہ کتاب اور بلفظ دگر ملفوظات،  بارہ مجالس پر محیط ہیں۔حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ و الرضوان نے ان مجالس میں علم و حکمت کے موتی بکھیرے ہیں، وہ علم و حکمت جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امیر المؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ، امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ، امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ، آپ کے جد امجد امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم اور دیگر صحابہ کرام و علماے عظام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سینہ بسینہ آپ تک پہنچا، اسی علم و حکمت کی روشنی میں آپ نے وضو کے فوائد، جنابت و طہارت، شریعت و طریقت، نماز، محبت، والدین کی عظمت، قدرت باری تعالی، سورہ فاتحہ کی فضیلت، اوراد و ظائف اور سلوک کے درجے وغیرہ جیسے اہم مباحث کے فوائد و احکام پر بہترین گفتگو فرمائی ہے، ان فوائد و احکام پر عمل کرنے کی افادیت  کیا ہے اور ترک کرنے والے کے نقصانات کیا ہیں، بڑے ہی صاف و واضح الفاظ میں بیان فرمادیا ہے، بعض مقامات پر اگرچہ ملفوظات مختصر ہیں اور عموما ملفوظات مختصر ہی ہوتے ہیں، مگر ان کے  اندر بڑی جامعیت پائی جاتی ہے؛ کیوں کہ ان کے مآخد قرآن پاک، احادیث نبویہ، اقوال صحابہ اور سلف صالحین کے عادات و اطور ہی ہوتے ہیں،ان ملفوظات کی اہمیت و جامعیت کو احکام شریعت سے دلچسپی اور ان سے دلی لگاؤ رکھنے والے، بخوبی محسوس کرسکتے ہیں، آج کی اس محفل میں ان شاء اللہ میں ساتویں اور آٹھویں مجلس کے تحت مندرج ملفوظات کی روشنی میں گفتگو کرنے کی کوشش کروں گا، وما توفیقی إلا باللہ علیه توکلت إلیه أنیب۔

ساتویں مجلس

         حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ و الرضوان نے ساتویں مجلس کے تحت احادیث کی روشنی میں سورہ فاتحہ سے متعلق، قدر تفصیل سے کلام فرمایا ہے، اس کی فضیلت، عظمت،  فوائد اور اس کے اسرار و رموز پر عمدہ روشنی ڈالی ہے، اس کی بعض جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:

         دلیل العارفین میں ہے: ’’حدیث میں ہے کہ جسے کوئی مشکل پیش آجائے، وہ حسب ذیل طریق سے سورہ فاتحہ پڑھے، بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد للہ یعنی رحیم کی میم کو الحمد کے لام سے ملائے اور آمین کے وقت تین مرتبہ آمین کہے۔ اللہ تعالی اس کی مشکل کو حل کردے گا‘‘۔ (مجلس ۷، ص۲۶، ط: شبیر برادرز، لاہور)

         نیز اسی میں ہے: ’’بعد ازاں فرمایا کہ: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے تھے اور یار آں، حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے گردا گرد بیٹھے تھے۔ فرمایا کہ: مجھے اللہ تعالی نے بہت سی کرامتیں عنایت فرمائی ہیں کہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آکر کہا کہ: حکم الہی ہے کہ میں نے تیرے پاس جو کتاب بھیجی ہے، اس میں ایک ایسی سورہ ہے کہ اگر وہ تورات میں ہوتی؛ تو موسی علیہ السلام کی امت سے کوئی شخص یہود نہ ہوتا۔ اگر انجیل میں ہوتی؛ تو کوئی عیسائی بت پرست نہ ہوتا۔ اگر زبور میں ہوتی؛ تو کوئی شخص داؤد علیہ السلام کی امت سے مغ (آتش پرست) نہ بنتا۔ اس واسطے یہ بھیجی گئی ہے تاکہ اس کی برکت کے بعد تیری امت اللہ تعالی سے مدد حاصل کرے اور قیامت کے دن دوزخ کے عذاب سے خلاصی پاوے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کون سی سورہ ہے، فرمایا کہ: وہ سورہ فاتحہ ہے۔ پھر جبرائیل امین علیہ السلام نے کہا: مجھے اس خدا کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیغمبر بناکر بھیجا، اگر روے زمین کے دریا سیاہی اور تمام درخت قلم بن جائیں اور ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں کاغذ ہوجائیں اور ابتداے عالم سے لے کر، سب فرشتے اور آدمی اس کے فضائل لکھتے رہیں؛ تو اس کی فضیلت بھی نہ لکھ سکیں‘‘۔ (مجلس ۷، ص۲۷، ط: شبیر برادرز، لاہور)

         یقینا سورہ فاتحہ کے فضائل اور اس کے اسرار و رموز بے شمار ہیں، ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، مگر حضرت خواجہ غریب علیہ الرحمۃ و الرضوان نے جب بزم اس کے ذکر کی سجائی ہے؛ تو مناسب ہے کہ مزید احادیث طیبہ کی روشنی میں اس کی عظمت و رفعت کو واضح کردیا جائے، ملاحظہ فرمائیں:

         حدیث پاک میں ہے: عن أبي سعید بن المعلی رضی اللہ عنه، قال رسول اللہ صلی اللہ علیه  وسلم:((ألا أعلِّمُك أعظمَ سورةٍ في القرآنِ قبل أن تخرج من المسجدِ)) فأخذ بيديَّ، فلما أردْنا أن نخرج، قلتُ: يا رسولَ اللهِ، إنك قلتَ: ((لأعلِّمنَّك أعظمَ سورةٍ من القرآن)) قال: (({الحمْدُ للهِ رَبِّ العَالمِينَ} هي السبعُ المثاني، والقرآنُ العظيمُ الذي أوتيتُه))(صحيح البخاری، باب ماجاء فی فاتحۃ الکتاب، ج۶ص۱۷، رقم: ۴۴۷۴، ط: دار طوق النجاۃ)

         ترجمہ:حضرت ابو سعید بن المعلی رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تمہیں اجر کے اعتبار سے قرآن شریف کی سب سے بڑی سورہ نہ بتادوں؛ تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، پھر جب ہم نے مسجد سے نکلنے کا ارادہ کیا؛ تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا: میں تمھیں قرآن کی سب بڑی سورہ سکھاؤں گا، حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا: یہ سورہ فاتحہ {الحمْدُ للهِ رَبِّ العَالمِينَ} یہی سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم جو مجھے دیا گیا۔

         دوسری حدیث پاک میں ہے:عن ابنِ عباسٍ رضی اللہ تعالی عنھما، قال: بينما جبريلُ قاعدٌ عند النبيِّ صلى اللهُ عليهِ وسلمَ. سمع نقيضًا من فوقِه. فرفع رأسَه. فقال: ((هذا بابٌ من السماءِ فُتِحَ اليومَ. لم يُفتَح قط إلا اليومَ. فنزل منهُ ملكٌ)) فقال: ((هذا ملكٌ نزل إلى الأرضِ. لم ينزل قط إلا اليومَ. فسلَّم وقال: أبشِرْ بنوريٍنِ أوتيتهما لم يؤتهما نبيٌّ قبلك. فاتحةُ الكتابِ وخواتيمُ سورةِ البقرةِ. لن تقرأَ بحرفٍ منهما إلا أُعطيتَه))(صحيح مسلم، باب فضل الفاتحۃ، ج۱ص۵۵۴، رقم: ۲۵۴، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)

         ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں: حضرت حبریل علیہ السلام، حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے پاس بیٹھے تھے، اسی درمیان آپ نے اپنے اوپر سےایک آواز سنی؛ تو آپ  نے اپنا سر اوپر کی جانب اٹھایا اور فرمایا: یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جسے آج کھولا گیا، آج کے سوا اسے کبھی نہیں کھولا گیا، اس سے ایک فرشتہ اترا۔ پھر فرمایا: یہ فرشتہ زمین پر اترا، آج سے پہلے کبھی نہیں اترا، اس نے سلام کیا اور عرض کیا: آپ کو دو نور کی بشارت ہو، جنہیں آپ کو دیا گیا، اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا، سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آتیں، آپ ان میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے، آپ کو عطا کیا جائے گا۔

         تیسری حدیث پاک میں ہے:أن رهطًا من أصحاب رسول الله صلى اللهُ عليه وسلم انطلقوا في سفرة سافروها، حتى نزلوا بحي من أحياء العرب، فاستضافوهم فأبوا أن يضيفوهم، فلُدِغ سيد ذلك الحي، فسعوا له بكل شيء لا ينفعه شيء، فقال بعضهم: لو أتيتم هؤلاء الرهط الذين قد نزلوا بكم، لعله أن يكون عِندَ بعضهم شيء، فأتوهم فقالوا: يا أيها الرهط، إن سيدنا لُدِغ، فسعينا له بكل شيء لا ينفعه شيء، فهل عِندَ أحدٍ منكم شيء؟ فقال بعضهم: نعم، والله إني لراقٍ، ولكن والله لقد استضفناكم فلم تضيفونا، فما أنا براقٍ لكم حتى تجعلوا لنا جعلًا، فصالحوهم على قطيع من الغنم، فانطلق فجعل يتفل ويقرأ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} حتى لكأنما نشط من عقال، فانطلق يمشي ما به قُلْبة، قال: فأوفوهم جعلهم الذي صالحوهم عليه، فقال بعضهم: اقسموا، فقال الذي رقى: لا تفعلوا حتى نأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فنذكر له الذي كان، فننظر ما يأمرنا، فقدِموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا له، فقال: ((وما يدريك أنها رقية؟ أصبتم، اقسموا واضربوا لي معكم بسهم))(صحيح البخاري، باب مایعطی فی الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب، ج۳ص۹۲، رقم: ۲۲۷۶، ط: دار طوق النجاۃ)

         ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے اصحاب کی ایک جماعت سفر میں تھی، وہ عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلہ کے پاس رکے، انہوں نے ان سے ضیافت چاہی؛ تو ان لوگوں نے ضیافت سے انکار کردیا، پھر اس قبیلہ کے سردار کو سانپ یا بچھو نے ڈس لیا، انہوں نے ہر طرح سے اس کے علاج کی کوشش کی مگر اسے کچھ فائدہ نہیں ہوا، ان میں سے بعض نے کہا: تمہیں اس جماعت کے پاس جانا چاہیے جو تمہارے پاس رکے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس اس کا کچھ علاج ہو، وہ لوگ ان کے پاس آئے اور کہا: اے لوگو! ہمارا سردار ڈس لیا گیا ہے، ہم نے اس کے علاج کی بہت کوشش کی مگر اسے کچھ فائدہ نہیں پہنچا، کیا تم میں سے کسی کے پاس اس کا علاج ہے؟ اصحاب میں سے ایک نے فرمایا: ہاں، خدا کی قسم میں اس کا علاج کروں گا، لیکن و اللہ ہم نے تم سے ضیافت طلب کی اور تم نے ہماری ضیافت قبول نہیں کی؛ لہذا میں علاج اسی وقت کروں گا جب تم مجھے اس علاج کی اجرت دو، پھر اجرت کے طور پر بکریوں کی ایک جماعت پر مصالحت ہوگئی، پھر وہ صحابی مریض کے پاس گئے اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے لگے،  یہاں تک کہ وہ نشاط پاگیا اور چلنے لگا، گویا کہ اس کو کوئی بیماری ہی نہ تھی، راوی کہتے ہیں: ان سے جس اجرت پر مصالحت ہوئی تھی انہوں نے اسے پورا کیا، بعض اصحاب نے فرمایا: انہیں تقسیم کردو؛ تو جس نے علاج کیا تھا، انہوں نے فرمایا: ایسا نہ کرویہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور جو معاملہ ہوا، اسے پیش کردیں، پھر دیکھیں کہ کیا حکم فرماتے ہیں، پھر وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور معاملہ عرض کیا؛ تو آپ نے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس سے علاج کیا جاتا ہے؟ تم ٹھیک کیا، آپس میں تقسیم کرلو اور مجھے بھی ایک حصہ دو۔

        چوتھی حدیث پاک میں ہے: ((إذا وضعت جنبك على الفراش وقرأت بفاتحة الكتاب: و{قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} فقد أمنت من كل شيء إلا الموت))(الجامع الصغير، امام سیوطی علیہ الرحمۃ،  رقم: ۱۷۳۵)

         ترجمہ: جب تم بستر پر گئے اور تم نے سورہ فاتحہ اور {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ}پڑھ لیا؛ تو تم موت کے سوا ہر چیز سے مجفوظ ہوگئے۔

         پانچویں حدیث پاک میں ہے:((فاتحة الكتاب وآية الكرسي لا يقرؤهما عبد في دار فيصيبهم ذلك اليوم عين إنس أو جِنّ))(الجامع الصغير، امام سیوطی علیہ الرحمۃ، رقم: ۸۳۸۶)

ترجمہ: اگر کوئی بندہ سورہ فاتحہ اور آیۃ الکرسی کسی گھر میں پڑھ لیتا ہے؛ تو اس دن اسے انس و جن میں سے کسی کی نظر نہیں لگتی۔

آٹھویں مجلس

اس میں کوئی شک نہیں کہ آیات قرآنیہ اور احادیث طیبہ میں وارد  اوراد و وظائف اور عبادات اپنی مثال آپ ہیں اور اسی طرح ان سے اخذ کرنے کے بعد علماے کرام و اولیاے عظامکے فیض ترجمان سے صادر ہونے والے اوراد و ظائف اور معمولات بھی بڑی اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں،اگر ان عبادات اور اوراد و ظائف و معمولات کا اہتمام کیا جائے اور اس پر استقامت برتی جائے؛ تو ایک انسان پر اللہ تعالی کی جانب سے طرح طرح کے اسرار و رموز کھل کر سامنے آتے ہیں اور فرائض و واجبات کے ساتھ ان اوراد و ظائف کا التزام کرنے اوراستقامت کے ساتھ  نوافل کی صورت میں عبادت و ریاضت کرنے والے کو  اللہ تعالی کا اپنا قرب خاص عطا فرماتا ہے، لیکن اگر اس پر دوام نہ برتا جائے  اور اس کے اہتمام حق نہ ادا کیا جائے؛ تو اس کا نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

دلیل العارفین میں ہے: ’’زبان مبارک سے فرمایا کہ: جو شخص ورد مقرر کرے، اسے روزانہ پڑھنا چاہیے اور دن کو اگر نہ پڑھ سکے؛ تو رات کو ضرور پڑھے، لیکن پڑھے ضرور۔ بعد ازاں کسی اور کام میں مشغول ہوئے؛ کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ: ورد کا تارک لعنتی ہے۔ بعد ازاں اسی موقع کے مناسب فرمایا کہ: ایک دفعہ مولانا رضی الدین علیہ الرحمۃ گھوڑے پر سے گر پڑے، جس سے پاؤں میں چوٹ آگئی، جب گھر آئے؛ تو سوچا کہ یہ بلا مجھ پر کہاں سے آئی، یاد آیا کہ صبح کی نماز کے بعد سورہ یٰس پڑھا کرتا تھا، وہ آج نہیں پڑھا۔

پھر اسی موقع کے مناسب یہ حکایت بیان فرمائی کہ: ایک بزرگ دین خواجہ عبد اللہ مبارک نام سے ایک مرتبہ وظیفہ نہ ہوسکا، اسی وقت غیب سے آواز آئی کہ: اے عبد اللہ جو عہد تونے ہم سے کیا تھا، شاید تو بھول گیا ہے، یعنی وظیفہ تونے آج نہیں پڑھا۔

پھر فرمایا کہ: انبیا اور اولیا مشائخ اور مردان خدا رحمۃ اللہ علیہم کا وظیفہ جو ہوتا ہے، وہ برابر پڑھتے ہیں اور جو کچھ اپنے پیروں سے سنتے ہیں، بجالاتے ہیں۔ بعد ازاں فرمایا کہ: جو ورد ہمارے خواجگان سے منقول ہیں، وہ ہم پڑھتے ہیں، تم بھی پڑھا کرو تاکہ وظیفے ناغہ نہ ہو‘‘۔(مجلس ۸، ص۲۸، ۲۹، شبیر برادرز، لاہور)

حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ و الرضوان کے ان ملفوظات سے روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ عبادات، اوراد و وظائف پر دوام برتنا چاہیے اور استقامت سے کام لینا چاہیے اور بلا مجبوری ترک کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے؛ کیوں کہ دوام میں اطمینان و سکون ہے اور ترک میں اضطراب اور پریشانی۔ قرآن پاک اور احادیث طیبہ میں بھی اسی دوام و استقامت کی تاکید کی گئی ہے۔

         اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾(ھود:۱۱، آیت:۱۱۲)

         ترجمہ: تو قائم رہو جیسا تمہیں حکم ہے اور جو تمہارے ساتھ رجوع لایا ہے،  اور اے لوگو سرکشی نہ کرو، بے شک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (کنز الإیمان)

         عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ تعالی عنھا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَاعْلَمُوا أَنْ لَنْ يُدْخِلَ أَحَدَكُمْ عَمَلُهُ الجَنَّةَ، وَأَنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ)) (صحیح البخاری، باب القصد و المداومۃ علی العمل، ج۸ص۹۸، رقم: ۶۴۶۴، ط: دار طوق النجاۃ)

         ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا: (( استقامت سے کام لو اور استقامت کے قریب رہو اور جان لو کہ تم میں سے کسی کو اس کا عمل ہر گز جنت میں داخل نہیں کرے گا اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل ہمیشگی والا ہے اگرچہ تھوڑا ہو))

         عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ تعالی عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ………)) (صحیح البخاری، باب التواضع، ج۸ص۱۰۵، رقم: ۶۵۰۲، ط: دار طوق النجاۃ)

         ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی نے فرمایا: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی، میں نے اس سے جنگ کا اعلان کیا، اور میرے نزدیک فرض سے زیادہ محبوب کسی چیز سے بندہ نے میری قربت حاصل نہیں کی، پھر بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں، پھر جب میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں؛ تو میں اس کا کان ہوجاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پیر ہوجاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے، اگر کوئی چیز مجھ سے مانگے؛ تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور اگر مجھ سے پناہ مانگے؛ تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں……….۔

         یعنی اللہ تعالی اپنی قدرت سے فرائض و نوافل کا التزام کرنے والے  بندے کے کام کو بہت آسان فرمادیتا ہے، جو بات عام آدمی نہیں سن سکتا، وہ بات اللہ تعالی کا نیک بندہ با آسانی سن لیتا ہے، دیگر امور بھی اسی طرح بسہولت انجام پاتے ہیں۔

         مندرجہ بالا بعض قرآنی آیات، احادیث طیبہ اور ان سے ماخوذ خواجہ خواجگاں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری علیہ الرحمۃ و الرضوان کے ملفوظات سے واضح ہوجاتا ہے کہ سورہ فاتحہ کی بہت زیادہ فضیلت ہے اور اس کے پڑھنے کے فوائد بھی بہت زیادہ ہے اور اسی طرح سے دوام و ہمیشگی کی عبادت و عمل زیادہ کار گر ہیں اور یہی علماے کرام اور اولیاے عظام کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ جو عبادت و ورد کرتے، اس میں ہمیشگی فرماتے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے حبیب پاک کے صدقہ طفیل قرآن و حدیث اور علماے کرام و اولیاے عظام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم۔

یکے از سگان خواجہ غریب نواز:

ابو عاتکہ ازہاار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا  و خانقاہ امجدیہ و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی، یوپی۔

۱۷؍رمضان المبارک ۴۳ھ مطابق ۱۹؍اپریل ۲۰۲۲ء

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.