حدیث: ((أبو بكر وعمر وعثمان وعائشة آلُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وعلي وفاطمة والحسن والحسين آلي)) کی تحقیق
صاحبزادہ و جانشین فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری حفظہ للہ
مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
جناب ازہر اسماعیلی صاحب نے ناگ پور سے حدیث: ((أبو بكر وعمر وعثمان وعائشة آلُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وعلي وفاطمة والحسن والحسين آلي، وسيجمع الله بين آله وآلي في روضة مِن رياض الجنة)) کے بارے میں ۲۶؍جنوری ۲۰۲۳ء کو رہنمائی چاہی تھی، مگر مصروفیات کی بنیاد پر تحقیق کے لیے مستقل وقت نہیں دے سکا، اگر ایک دو کتاب کا حوالہ دےکر، فرصت لینی ہوتی؛ تو فورا کام ہوسکتا تھا، مگر میری خواہش تھی کہ اس حدیث سے متعلق حتی الامکان پوری تحقیق ہوجائے؛ جس کی وجہ سے کافی تاخیر ہوئی، بہر کیف، میں نے وقت بے وقت تھوڑا تھوڑا کرکے، اس حدیث کے بارے میں تحقیق کرنے کی کوشش کی ہے،اب تحقیق کے بعد، جس نتیجہ پر پہنچا ہوں، قارئین کرام کے حوالے کرنے کی کوشش کرتا ہوں، امید ہے کہ مستفید ہوں گے۔ وما توفیقي إلا باللہ، علیه توکلت و إلیه أنیب۔
الزیادات علی الموضوعات میں ہے: قال ابن النجار: قرأتُ على أبي العباس أحمد بن محمود الصالحاني عن أم البهاء فاطمة بنت محمَّد بن أحمد أخبرنا أبو بكر أحمد بن الفضل الباطِرقاني إذنًا أخبرنا أبو العباس أحمد بن محمَّد بن زكريا النسوي أخبرنا أبو الفرج عبيد الله بن أحمد الرقي حدثنا أبو الحسن علي بن محمَّد بن إبراهيم بن الجلاء البغدادي حدثنا أبو محمَّد جعفر مؤذِّن المقتدر حدثنا أبو الحسن علي بن جعفر بن الحسن العلوي حدثنا أبي حدثنا مكرم بن محرز حدثنا حزام بن هشام عن جده حُبيش بن خالد – وكانت له صحبة -: سمعتُ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يقول: ((أبو بكر وعمر وعثمان وعائشة آلُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وعلي وفاطمة والحسن والحسين آلي، وسيجمع الله بين آله وآلي في روضة مِن رياض الجنة)) (الزیادات علی الموضوعات، خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی، کتاب المناقب، ج۱ص۲۲۴، رقم: ۲۵۷، تحقیق: رامض خالد، ط:مکتبۃ المعارف، الریاض)
حضرت حبیش بن خالد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((ابو بکر، عمر، عثمان اور عائشہ، اللہ عز وجل کی آل ہیں اور علی ، فاطمہ، حسن اور حسین میری آل ہیں، عنقریب اللہ تعالی اپنی آل اور میری آل کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے، ایک باغ میں جمع فرمائےگا۔
امام ابن عراق فرماتے ہیں: امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کو ’الزیادات علی الموضوعات‘ میں ذکر کرنے کی علت نہیں بیان کی ، اس میں حزام بن ہشام اور مکرم بن محرز وغیرہ ہیں، جنھیں میں نہیں جانتا۔
تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ میں ہے: [حَدِيثٌ] : ((أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَائِشَةُ آلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ آلِي، وَسَيَجْمَعُ اللَّهُ بَيْنَ آلِهِ وَآلِي فِي رَوْضَةٍ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)) (نجا) من حَدِيث حنيش بن خَالِد وَكَانَت لَهُ صُحْبَة۔ (قلت) لم يبين علته، وَفِيه حزام بن هِشَام ومكرم بن مُحرز وَغَيرهمَا مَا عرفتهم وَالله أعلم‘‘۔ (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ، امام ابن عراق، باب مناقب الخلفاء الأربعۃ، الفصل الثالث، ج۱ص۳۸۸، رقم: ۱۱۹، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
مگریہ بات مسلمات سے ہے کہ عموما کسی ناقد کا کسی راوی کے بارے میں نہ جاننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ راوی مجہول ہو یا اس کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔ اب آپ یہیں دیکھ لیجیے کہ امام ابن عراق رحمہ اللہ کو زیر بحث حدیث کے دو راویوں، حزام بن ہشام اور مکرم بن محرز اور ان کے علاوہ دیگر رواۃ کے بارے میں علم نہیں تھا، مگر محقق رامض خالد صاحب نے ’الزیادات علی الموضوعات‘ کے حاشیہ میں بتادیا کہ ان دونوں راویوں کو امام ابن حبان نے ’الثقات‘ میں ذکر کیا ہے، مزید باقی راویوں کے بارے میں تحقیق کرکے، کچھ فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ بہر کیف زیر بحث حدیث کے راویوں کی تفصیل دیکھتے ہیں تاکہ اس پر حکم کا نتیجہ باآسانی اخذ کیا جاسکے، ملاحظہ فرمائیں:
(۱)أبو العباس أحمد بن محمود صالحاني: ان کا ترجمہ مجھے دستیاب نہیں ہوسکا۔
(۲) أم البهاء فاطمہ بنت محمَّد بن أحمد اصبہانیہ بغدادیہ۔
بعض شیوخ: ابو الفضل رازی، سبط بحرویہ اور احمد بن محمود ثقفی وغیرہ۔ بعض تلامذہ: ابن سمعانی، ابن عساکر اور ابو موسی مدینی وغیرہ۔
آپ کی پیدائش ۴۴۰ھ کے بعد ہوئی اور ۲۵؍رمضان المبارک کو آپ کی وفات ۵۳۹ھ میں ہوئی۔ آپ بہترین عالمہ، واعظہ ہونے کے ساتھ اصبہان کی مسندہ تھیں۔ آپ کو ۹۴ سال کی طویل عمر ملی؛ جس کی وجہ سے بعض شیوخ سے کچھ احادیث روایت کرنے میں منفرد رہیں۔ آپ بڑی نیک اور صالح عورت تھیں۔ (المختصر النصیح فی تھذیب الکتاب الجامع الصحیح، مہلب بن احمد اسدی اندلسی، ج۱ص۷۱ ، ط: دار التوحید، الریاض۔ المنتخب من معجم شیوخ السمعانی، ص۱۹۱۳، عبد الکریم مروزی، ط: دار عالم الکتب، الریاض۔ التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن و المسانید، امام ابن نقطہ حنبلی بغدادی، ص۴۹۸، رقم: ۶۸۲، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔ العبر فی خبر من غبر، امام شمس الدین ذہبی، ج۲ص۴۵۷، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔ تاریخ الإسلام، امام ذہبی، ج۱۱ص۷۱۶، رقم: ۴۴۷، ط: دار الغربی الإسلامی، بیروت۔ سیر أعلام النبلاء، امام ذہبی، ج۱۵ص۱۵، ط: دار الحدیث، القاھرۃ)
(۳) أبو بكر أحمد بن فضل بن محمد باطِرقاني مقری اصبہانی:
بعض شیوخ: ابو عبد اللہ بن مندہ، ابراہیم بن خرشید قولہ اور عبد اللہ بن جعفر وغیرہ۔ بعض تلامذہ: ابو علی حداد، سعید بن ابی الرجاء اور حسین بن عبد الملک خلال وغیرہ۔
آپ کی پیدائش ۳۷۲ھ میں ہوئی اور ۲۲؍صفر المظفر کو ۴۶۰ھ میں آپ نے وفات پائی۔ آپ بہت زیادہ احادیث، سماعت اور روایت کرنے والوں میں سے تھے، آپ کو لکھنے میں بڑی مہارت تھی۔ آپ نے ایک مسند بھی تصنیف فرمائی تھی۔ ابو عبد اللہ دقاق فرماتے ہیں: میں نے اصبہان میں علم قرآن، قراءت، حدیث، روایت، کثرت کتابت اور سماع کے درمیان جمع کرنے والوں میں سے کسی کو ابو بکر باطرقانی سے افضل نہیں دیکھا۔ آپ روایت میں ثقہ ہیں۔ (معجم الأدباء، شہاب الدین رومی، ج۱ص۴۱۹، ط: دار الغرب الإسلامی، بیروت۔ التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن و المسانید،امام ابن نقطہ حنبلی بغدادی، ص۱۵۷، رقم: ۱۸۱، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔ تاریخ الإسلام، امام شمس الدین ذہبی، ج۱۰ص۱۱۶، رقم: ۲۴۵، ط: دار الغرب الإسلامی، بیروت)
(۴) أبو العباس أحمد بن محمَّد بن زكريا نسوي صوفی:
بعض شیوخ: خلف بن محمد خیام بخاری ، احمد بن عطا روزباری اور بقا بن عبید بن عقیق اخمیمی وغیرہ۔ بعض تلامذہ: تمام بن محمد رازی وغیرہ۔ آپ کی وفات حج کے سفر میں مصر و مکہ شریف کے درمیان عینونا میں ۳۹۸ھ اور بعض کے مطابق ۳۹۶ھ میں ہوئی۔ آپ زاہد، صوفی اور ثقہ ہیں، آپ کو شیخ حرم ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ (تاریخ بغداد، امام خطیب بغدادی، ج۶ص۱۴۰، رقم: ۲۶۲۶، ط: دار الغرب الإسلامی، بیروت۔ طبقات الشافعیۃ الکبری، امام تاج الدین سبکی، ج۳ص۴۲، رقم: ۹۱، ط: ھجر للطباعۃ و النشر و التوزیع۔ المقفی الکبیر، تقی الدین مقریزی، ج۱ص۳۹۴، رقم: ۶۱۷، ط: دار الغرب الإسلامی، بیروت)
(۵) أبو الفرج عبيد الله بن أحمد بن الحسن رقي مقری بزار:
بعض شیوخ: نجاد، جعفر خلدی اور ابو الحسن علی بن ابراہیم طیب مستملی وغیرہ۔ بعض تلامذہ: ابو علی اہوازی، علی حنائی اور ابو بکر محمد بن حرمی بن حسین مقری وغیرہ۔ آپ کی وفات ۴۰۰ھ میں ہوئی۔ (تاریخ الإسلام، امام شمس الدین ذہبی، ج۸ص۸۱۹، رقم: ۳۳۲، ط: دار الغرب الإسلامی، بیروت۔ ذیل تاریخ مولد العلماء و وفیاتھم، عبد العزیز بن احمد کتانی، ص۱۲۸، رقم: ۱۱۴، ط: دار العاصمۃ، الریاض۔ تاریخ دمشق، امام ابن عساکر، ج۳۷ص۳۹۵، رقم: ۴۴۱۵، ط: دار الفکر، بیروت)
(۶) أبو الحسن علي بن محمَّد بن إبراهيم بن جلا بغدادي: مجھے ان کا ترجمہ نہیں ملا۔
(۷) ابو محمد جعفر، مؤذن المقتدر: اس روای کا بھی ترجمہ نہیں مل سکا۔
(۸) ابو الحسن علی بن جعفر بن حسن مقری شاعر:
آپ اچھے شاعر تھے، ساٹھ سال کے آس پاس، آپ کی وفات، مصر میں ۵۰۵ھ میں ہوئی۔ (تاریخ دمشق، امام ابن عساکر، ج۴۱ص۲۹۱، رقم: ۴۸۲۲، ط: دار الفکر، بیروت)
(۹) جعفر بن الحسن علوی:
شاعر ابن بشرویہ کے ضمن میں جعفر بن حسن علوی کا صرف اتنا ذکر مل سکا: مجد الدین ابن البوقی کے بعد، جب بلاد خوزستان کے والی، ظہیر الدین حسن بن عبد اللہ ہویے؛ تو ابن بشرویہ اور ایک علوی، جو ان کے ساتھ تھے، اپنی ذمہ داری چھوڑدی، ابن بشرویہ نے دستور حاصل کرنا چاہا تاکہ اپنے اہل و عیال کے پاس واپس ہوجائیں، مگر ظہیر الدین نے انھیں اجازت نہ دی، پھر انھیں خدمت کے لیے ایک جگہ ’معاملۃ القروج‘ کی طرف جانے کا مشورہ دیا، اس وقت اس جگہ کے عامل، قاضی الحویزۃ جعفر بن حسن علوی تھے، مگر ابن بشرویہ نے اس کام سے انکار کردیا؛ کیوں کہ انھوں نے اس کام کو اپنی حیثیت سے کم تر سمجھا، لیکن ظہیر الدین نے قبول نہیں کیا اور ابن بشرویہ پر خدمت لازم کردی۔ (قلائد الجمان فی فرائد شعراء ھذا الزمان، کمال الدین ابو البرکات بن شعار موصلی، ج۶ص۲۱۶، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
(۱۰) ابو القاسم مكرم بن محرز بن مہدی کعبی خزائی:
بعض شیوخ: محرز بن مہدی وغیرہ۔ بعض تلامذہ: ابو حاتم، ابو زرعہ وغیرہ۔
تقریبا سو سال کی عمر میں آپ کی وفات ۲۴۹ھ میں ہوئی۔ امام ابن حبان نے آپ کو اپنی کتاب ’الثقات‘ میں جگہ دی ہے۔ (الجرح و التعدیل، امام ابن ابی حاتم، ج۸ص۴۴۳، رقم: ۲۰۲۵، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت۔ الثقاتظ امام ابن حبان، ج۹ص۲۰۷، رقم: ۱۶۰۴۱، ط: دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدر آباد)
(۱۱) حزام بن هشام بن جیش خزاعی کعبی:
بعض شیوخ: عمر بن عبد الغزیز، ہشام بن حبیش عبد اللہ بن ہشام وغیرہ۔ بعض تلامذہ: ہاشم بن قاسم، محرز بن مہدی اور ابو مکرم وغیرہ۔
امام ابن حبان نے اپنی کتاب ’الثقات‘ میں آپ کا ذکر کیا ہے، اور امام ابن سعد نے اگرچہ آپ کو قلیل الحدیث کہا، مگر آپ کو ثقہ بھی قرار دیا ہے۔ اور امام ابو حاتم نے ان کے بارے میں شیخ محلہ الصدق فرمایا ہے۔ امام احمد نے آپ کے بارے میں فرمایا: لیس بہ بأس۔ ۱۸۰ھ تک آپ با حیات رہے۔ (الثقات، امام ابن حبان، ج۶ص۲۴۷، رقم: ۷۵۷۵، ط: دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدر آباد۔ الطبقات الکبری، امام ابن سعد، ج۶ص۴۰، رقم: ۱۶۳۹، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔ الجرح و التعدیل، امام ابن ابی حاتم، ج۳ص۲۹۸، رقم: ۱۳۲۷، دار إحیاء التراث العربی، بیروت۔ تاریخ الإسلام، امام ذہبی، ج۴ص۸۳۱، رقم: ۵۶، ط: دار الغرب الإسلامی، بیروت)
(۱۲) حضرت ابو صخر حُبيش بن اشعر خالد بن سعد:
آپ صحابی رسول ہیں، فتح مکہ کے موقع پر آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ (الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، امام ابن حجر عسقلانی، ج۲ص۲۴، رقم: ۱۶۱۲، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حدیث کا حکم: بعض رواۃ کے تراجم کا علم نہ ہونے کی وجہ سے بظاہر، زیر بحث حدیث، سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔
آل اللہ کا معنی: ’آل اللہ‘ کا معنی ہے، اللہ تعالی کے اولیا یعنی اس کے محبوب بندے، اللہ تعالی کی طرف، اس کی اضافت، تشریفا کی گئی ہے، اسی تشریف و تکریم کے اعتبار سے قریش کو زمانہ جاہلیت میں ’آل اللہ‘ کہا جاتا تھااور بعض عربی اشعار میں بھی ’آل اللہ‘ کا استعمال ملتا ہے۔
التیسیر بشرح الجامع الصغیر میں ہے: ’’(آل الْقُرْآن) أَي حفظته الْعَامِلُونَ بِهِ (آل الله) أَي أولياؤه أضيفوا إِلَى الْقُرْآن لشدّة اعتنائهم بِهِ وأضيفوا إِلَى الله تَشْرِيفًا‘‘۔ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر، امام عبد الرؤف مناوی، ج۱ص۱۰، ط: مکتبۃ الإمام الشافعی، الریاض)
اسی میں ہے: ’’وَكَانَ يُقَال لقريش فِي الْجَاهِلِيَّة آل الله لما تميزوا بِهِ من المحاسن والمكارم والفضائل الَّتِي لَا تحصى‘‘۔ (ایضا، ج۲ص۱۹۵)
کشف المشکل من حدیث الصحیحین میں ہے: ’’ قَالَ عبد الْمطلب: (نَحن آل الله فِي كعبته … لم يزل ذَاك على عهد ابرهم)‘‘۔ (کشف المشکل من حدیث الصحیحین، امام ابن جوزی، ج۲ص۱۷۱، ط: دار الوطن، الریاض)
اب اگر معنی کے اعتبار سے بھی اس حدیث میں غور کیا جائے؛ تو بظاہر کوئی خرابی سمجھ میں نہیں آتی ہے؛ کیوں کہ مذکورہ بالامعنی کے لحاظ سے حدیث کا معنی ہوگا:
امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق، امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم، امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی اور ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہم، اللہ عز وجل کی آل یعنی اس کے محبوب بندے ہیں اور امیر المؤمنین حضرت علی حیدر کرار، حضرت سیدہ فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہم میری آل ہیں، اللہ تعالی عنقریب ان سب کو جنت کے باغوں میں سے، ایک باغ میں جمع فرمائےگا۔اور اس معنی میں شرعا یا عقلا کوئی خرابی نہیں؛ لہذا یہ حدیث معنی کے اعتبار سے بھی درست ہے۔
حاصل کلام: زیر بحث حدیث میں چوں کہ بظاہر علامات وضع میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی؛ اس لیے یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ ان محدثین کرام کے نزدیک بھی یہ حدیث موضوع نہیں، جو سند میں کسی راوی کے کذاب یا متہم بالکذب کی وجہ سے حدیث کو موضوع قرار دیتے ہیں؛ کیوں کہ زیر بحث حدیث کے راویوں میں سے کوئی راوی کذاب یا متہم بالکذب بھی نہیں؛ لہذا یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے۔
نیز چوں کہ اس حدیث کا تعلق فضائل کے باب سے ہے اور فضائل کے باب میں حدیث ضعیف مقبول ہوتی ہے؛ لہذا اس حدیث کو بطور فضیلت بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ و اللہ تعالی أعلم۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی۔
۱۲؍رجب المرجب ۱۴۴۵ھ مطابق ۲۴؍جنوری ۲۰۲۴ء