بہار شریعت کی ایک مشکل عبارت اور اس کا حل
بہار شریعت کی ایک مشکل عبارت
اور اس کا حل
مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
الحمد للہ اس سال ۵؍ذو القعدۃ ۱۴۴۴ھ مطابق ۲۷؍مئی ۲۰۲۳ء بروز سنیچر، مبارک سفر، حج کے لیے گھر سے نکلا، روضہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد، ۲۰؍ذو الحجۃ ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۰؍جولائی ۲۰۲۳ء بروز دوشنبہ، گھر واپس پہنچ گیا۔ ہر سال کی طرح ا س سال بھی، حرمین شریفین کی زیارت کے دنوں میں بہت سارے حجاج کرام کو متعدد مسائل پیش آئے، جن کو معلوم ہوا کہ میں بھی شرعی مسائل میں کچھ سدھ بدھ رکھتا ہوں، وہ قیام گاہ تک پہنچے یا فون سے رابطہ کیا، وقت نکال کر حجاج کرام کے مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کی گئی، زیارت حرمین شریفین کے دنوں میں جتنے مسائل پیش آئے، اگر سب کے بارے میں لکھا جائے؛ تو شاید ایک کتاب تیار ہوجائے، مگر بروقت میں صرف ’بہار شریعت‘ کے ایک مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں؛ کیوں کہ اگر اس کے متعلق صحیح رہنمائی نہیں کی گئی؛ تو شاید میری طرح، بہت سارے لوگ، اس کی وجہ سے سفر حج میں پریشانی سے دو چار ہوسکتے ہیں۔ غالبا حج سے ہفتہ، دس دن پہلے، مولانا غلام مصطفی امجدی زید علمہ، بھیونڈی، مجھ سے ملاقات کی غرض کے لیے، عزیزیہ میں، میری قیام گاہ پر تشریف لائے تھے، کچھ مسائل کے بارے میں آپ سے گفتگو ہوئی، ان میں سے ایک مسئلہ یہ تھا کہ حج تمتع و قران کی قربانی، دسویں کے بعد کی؛ تو ہوجائے گی، مگر دم لازم آئےگا؛ کیوں کہ تاخیر جائز نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حج تمتع و قران کی قربانی، صحیح طور پر صرف دسویں کو ہوسکتی ہے، اس کے بعد نہیں، اگر اس کے بعد کی؛ تو دم لاز ہوگا، جان بوجھ کر ایسا کیا؛ تو گنہ گار بھی ہوگا۔ بہار شریعت کی عبارت پیش خدمت ہے، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
بہار شریعت میں در مختار، رد المحتار اور عالم گیری کے حوالے سے ہے: ’’تَمتّع و قران کی قربانی دسویں سے پہلے نہیں ہوسکتی اور دسویں کے بعد کی؛ تو ہو جائے گی، مگر دَم لازم ہے کہ تاخیر جائز نہیں اور ان دو۲ کے علاوہ کے لیے کوئی دن معیّن نہیں اور بہتر دسویں ہے‘‘۔ (بہار شریعت، صدر الشریعۃ، ہدی کا بیان، ج۱ح۶ص۱۲۲۱، ط: مکتبۃ المدینہ)
جس وقت اس عبارت پر میری نظر پڑی تھی؛ تو مجھے تھوڑا تردد ہوا تھا اور ذہن یہ کہ رہا تھا کہ قربانی بلا دم تین دن درست ہونی چاہیے، مگر اپنے وقت کے فقیہ اعظم حضور صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ کی عبارت پر مجھ جیسے ناکارے کی کیا حیثیت کہ کسی واضح سبب کے بغیر، کچھ کلام کرنے کی جسارت کرسکے، میں نے اسی عبارت پر اعتماد کیااور گفتگو آئی، گئی، ختم ہوگئی۔
الحمد للہ ۱۰؍ ذو الحجۃ کی صبح، بڑے شیطان کو کنکری مارنے کے بعد، میں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مقام منی میں موجودتھا، رمی کے فورا بعد ہی قربانی کے لیے جن سے بات کی گئی تھی، ان کو خبر کردی گئی کہ ہم لوگ کنکری مار چکے ہیں؛ لہذا آپ قربانی کرادیں، مگر پھر بعد میں کسی سبب، ان سے رابطہ نہیں ہوپارہا تھا، اب کیا تھا، جیسے جیسے دن گزر رہا تھا، بے چینی بڑھ رہی تھیں؛ کیوں کہ بہار شریعت کا مندرجہ بالا مسئلہ، ذہن میں تھا کہ اگر آج دسویں کو قربانی نہ ہوسکے گی؛ تو دم دینا پڑےگا، مگر کچھ ہی دیر بعد، خود بخود طبیعت کا اس طرف میلان ہوا کہ حضور صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ نے ’بہار شریعت‘ میں جن کتب کے حوالے سے مسئلہ درج کیا ہے، ان کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے، رجوع کرنے کے بعد سابقہ تردد، تقریبا یقین میں بدل گیا اور یہ واضح ہوگیا کہ تمتع و قران کی قربانی، تینوں دن ہوسکتی ہے، پہلے دن کے بعد دوسرے یا تیسرے دن قربانی کرنے سے دم لازم نہیں آئےگا، البتہ پہلے دن قربانی کرنا بہتر ہے، ہاں اگر تین دن کے بعد قربانی کی؛ تو اب ضرور دم لازم ہوگا۔
لیکن چوں کہ حکم شرعی بیان کرنے میں بیان کرنے والا، رب تعالی اور بندوں کے درمیان واسطہ ہوتا ہے اور یہاں بیان کرنے والے پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے؛ اس لیے میں نے مزید اطمینان کے لیے استاذ محترم، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ، استاذ مکرم، نبیرہ حضور صدر الشریعۃ مفتی فیضان المصطفی مصباحی زید شرفہ، برادر کبیر نائب فقیہ ملت مفتی ابرار احمد امجدی زید کرمہ اور محترم مفتی مبشر رضا مصباحی، بھیونڈی زید علمہ کی طرف رجوع کیا، آپ حضرات کے پاس بہار شریعت، فتاوی عالم گیری اور رد المحتار وغیرہ کی عبارت بھی بھیج دی، سبھوں نے شفقت فرمائی اور فرمایا کہ رد المحتار میں جو وضاحت ہے، وہی صحیح ہے، البتہ مفتی مبشر رضا مصباحی زید علمہ نے کوئی جواب نہیں دیا، شاید مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ مل سکا ہوگا۔ نیز نبیرہ صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ نے دونوں عبارتوں کے درمیان تطبیق کے لیے بعض توجیہات پیش کیں، جو یقینا حضور صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ کی فقاہت کے پیش نظر، قابل قبول اور تائیدی نظر سے دیکھے جانے کے قابل ہے۔ پہلے میں فتاوی عالم گیری وغیرہ کی عبارت پیش کرتا ہوں اور پھر ان شاء اللہ توجیہات و تطبیقات کی طرف آتا ہوں۔ قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں:
فتاوی عالم گیری میں ہے: ’’وَيَجُوزُ ذَبْحُ دَمِ التَّطَوُّعِ قَبْلَ يَوْمِ النَّحْرِ فِي الصَّحِيحِ، كَذَا فِي الْكَافِي. وَذَبْحُهُ يَوْمَ النَّحْرِ أَفْضَلُ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ وَلَا يَجُوزُ ذَبْحُ هَدْيِ الْمُتْعَةِ وَالْقِرَانِ إلَّا فِي يَوْمِ النَّحْرِ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ حَتَّى لَوْ ذَبَحَ قَبْلَهُ لَا يَجُوزُ إجْمَاعًا وَبَعْدَهُ كَانَ تَارِكًا لِلْوَاجِبِ عِنْدَ الْإِمَامِ فَيَلْزَمُهُ دَمٌ هَكَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ وَيَجُوزُ ذَبْحُ بَقِيَّةِ الْهَدَايَا فِي أَيِّ وَقْتٍ شَاءَ وَلَا يَجُوزُ ذَبْحُ الْهَدَايَا إلَّا فِي الْحَرَمِ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب المناسک، الباب السادس عشر فی الھدی، ج۱ص۲۶۱، ط: دار الفکر، بیروت)
حاصل عبارت یہ ہے کہ تمتع اور قران کی قربانی صرف ’یوم النحر‘ کو ہی جائز ہے، اگر کسی نے اس سے پہلے قربانی کی؛ تو صحیح نہیں ہوگی اور اگر ’یوم النحر‘ کے بعد قربانی کیا؛ تو واجب کا تارک ہونے کی وجہ سے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک، دم لازم آئےگا، ایسا ہی البحر الرائق میں ہے۔ یہاں ’یوم النحر‘ سے ایک مبتدی شاید یہی سمجھے کہ اس سے صرف دسویں ذی الحجۃ ہی مراد ہے، حالاں کہ ایسا نہیں، قارئین کرام ’البحر الرائق‘ کی عبارت ملاحظہ کریں، بات بالکل واضح ہوجائےگی:
البحر الرائق میں ہے: ’’(قَوْلُهُ: وَخُصَّ ذَبْحُ هَدْيِ الْمُتْعَةِ وَالْقِرَانِ بِيَوْمِ النَّحْرِ فَقَطْ وَالْكُلُّ بِالْحَرَمِ لَا بِفَقِيرِهِ) بَيَانٌ لِكَوْنِ الْهَدْيِ مُوَقَّتًا بِالْمَكَانِ سَوَاءٌ كَانَ دَمَ شُكْرٍ أَوْ جِنَايَةٍ لِمَا تَقَدَّمَ أَنَّهُ اسْمٌ لِمَا يُهْدَى مِنْ النَّعَمِ إلَى الْحَرَمِ، وَأَمَّا تَوْقِيتُهُ بِالزَّمَانِ فَمَخْصُوصٌ بِهَدْيِ الْمُتْعَةِ وَالْقِرَانِ، وَأَمَّا بَقِيَّةُ الْهَدَايَا فَلَا تَتَقَيَّدُ بِزَمَانٍ، وَأَفَادَ أَنَّ هَدْيَ التَّطَوُّعِ إذَا بَلَغَ الْحَرَمَ لَا يَتَقَيَّدُ بِزَمَانٍ، وَهُوَ الصَّحِيحُ، وَإِنْ كَانَ ذَبْحُهُ يَوْمَ النَّحْرِ أَفْضَلَ كَمَا ذَكَرَهُ الشَّارِحُ خِلَافًا لِلْقُدُورِيِّ، وَأَرَادَ الْمُصَنِّفُ بِيَوْمِ النَّحْرِ وَقْتَهُ، وَهُوَ الْأَيَّامُ الثَّلَاثَةُ، وَأَرَادَ بِالِاخْتِصَاصِ الِاخْتِصَاصَ مِنْ حَيْثُ الْوُجُوبُ عَلَى قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ، وَإِلَّا لَوْ ذَبَحَ بَعْدَ أَيَّامِ النَّحْرِ أَجْزَأَ إلَّا أَنَّهُ تَارِكٌ لِلْوَاجِبِ، وَقَبْلَهَا لَا يُجْزِئُ بِالْإِجْمَاعِ، وَعَلَى قَوْلِهِمَا كَذَلِكَ فِي الْقَبْلِيَّةَ، وَكَوْنُهُ فِيهَا هُوَ السُّنَّةُ عِنْدَهُمَا حَتَّى لَوْ ذَبَحَ بَعْدَ التَّحَلُّلِ بِالْحَلْقِ لَا شَيْءَ عَلَيْه وَعِنْدَهُ عَلَيْهِ دَمٌ‘‘. (البحر الرائق، امام ابن نجیم، کتاب الحج، باب الھدی، ج۳ص۷۷، ط: دار الکتاب الإسلامی)
یعنی ’یوم النحر‘ سے صاحبِ کنز الدقائق کی مراد، اس کا وقت ہے، یعنی تین دن، اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک، حج تمتع و قران کی قربانی، ایام نحر یعنی تین دن کے ساتھ خاص ہونا، وجوب کے لحاظ سے ہے، ورنہ اگر کوئی ’ایام نحر‘ یعنی تین دن کے بعد بھی قربانی کرے؛ تو قربانی ہوجائےگی، مگر واجب کا ترک کرنے والا قرار پائےگا۔
یہی مفاد، الدر المختار، رد المحتار وغیرہ کتب فقہ کی عبارات کا ہے، قارئین کرام بعض کتب فقہ کی عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:
الدر المختار میں ہے: ’’(وَيَتَعَيَّنُ يَوْمُ النَّحْرِ) أَيْ وَقْتُهُ وَهُوَ الْأَيَّامُ الثَّلَاثَةُ (لِذَبْحِ الْمُتْعَةِ وَالْقِرَانِ) فَقَطْ، فَلَمْ يُجْزِ قَبْلَهُ بَلْ بَعْدَهُ وَعَلَيْهِ دَمٌ‘‘۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ’’(قَوْلُهُ أَيْ وَقْتُهُ) أَشَارَ إلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِالْيَوْمِ مُطْلَقُ الْوَقْتِ فَيَعُمُّ أَوْقَاتَ النَّحْرِ أَوْ هُوَ مُفْرَدٌ مُضَافٌ فَيَعُمُّ ط (قَوْلُهُ فَقَطْ) أَيْ لَا يَتَعَيَّنُ غَيْرُهُمَا فِيهَا، وَمِنْهُ هَدْيُ التَّطَوُّعِ إذَا بَلَغَ الْحَرَمَ فَلَا يَتَقَيَّدُ بِزَمَانٍ هُوَ الصَّحِيحُ وَإِنْ كَانَ ذَبْحُهُ يَوْمَ النَّحْرِ أَفْضَلَ كَمَا ذَكَرَهُ الزَّيْلَعِيُّ خِلَافًا لِلْقُدُورِيِّ بَحْرٌ (قَوْلُهُ فَلَمْ يُجْزِ) أَيْ بِالْإِجْمَاعِ وَهُوَ بِضَمِّ أَوَّلِهِ مِنْ الْإِجْزَاءِ (قَوْلُهُ بَلْ بَعْدَهُ) أَيْ بَلْ يُجْزِئُهُ بَعْدَهُ: أَيْ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ: أَيْ أَيَّامَهُ إلَّا أَنَّهُ تَارِكٌ لِلْوَاجِبِ عِنْدَ الْإِمَامِ فَيَلْزَمُهُ دَمٌ لِلتَّأْخِيرِ؛ أَمَّا عِنْدَهُمَا فَعَدَمُ التَّأْخِيرِ سُنَّةٌ، حَتَّى لَوْ ذَبَحَ بَعْدَ التَّحَلُّلِ بِالْحَلْقِ لَا شَيْءَ عَلَيْهِ‘‘. (رد المحتار، امام ابن عابدین شامی، کتاب الحج، باب الھدی، ج۲ص۶۱۶، ط: دار الفکر، بیروت)
مندرجہ بالا کتبِ فقہ کی عبارتوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ حج تمتع و قران کی قربانی کا وقت، صرف ایک دن یعنی دسویں تاریخ ہی نہیں ہے کہ اگر اس دن قربانی نہ کرے؛ تو دم لازم آئےگا بلکہ اس کا وقت ’ایام نحر‘ یعنی تین دن ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر تین دن میں سے کسی دن بھی قربانی کرے؛ تو دم لازم نہیں آئےگا، البتہ اگر تین دن کے بعد کیا؛ تو واجب کے ترک کی وجہ سے ضرور دم دینا پڑے گا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر حج تمتع و قران کی قربانی کا وقت، ایک دن نہیں بلکہ تین دن ہے؛ تو پھر فقیہ اعظم حضور صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ و الرضوان نے حج تمتع و قران کے لیے، صرف دسویں کا دن کیوں قرار دیا، اس طور پر کہ اگر کوئی اس دن قربانی نہ کرے؛ تو اس پر دم لازم آجائے؟!
اس سوال کے جواب میں تین باتیں کہی جاسکتی ہیں: (۱) صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ سے سہوا ایسا واقع ہوا۔ (۲) عام طور سے متون میں ’یو م النحر‘ مرقوم ہے اور اس سے مراد ’ایام النحر‘ ہے، اصحاب متون کی اتباع میں حضور صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ نے ’یوم النحر‘ کی تعبیر، دسویں سے کی اور آپ کی مراد، اس سے تین دن ہے۔(۳) کاتب کی غلطی سے ایسا واقع ہوا ہے۔
آخری دو جواب کی طرف استاذ محترم نبیرہ صدر الشریعۃ حضرت مولانا مفتی فیضان المصطفی مصباحی زید مجدہ نے اشارہ فرمایا اور میرا بھی رجحان، انھیں دو جوابوں کی طرف ہے۔
پہلی بات یعنی صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ نے یہی سمجھا کہ حج قران و تمتع کی قربانی، دسویں کے دن ہوگی، اگر اس سے تاخیر کی؛ تو دم دینا پڑےگا۔ یہ درست نہیں معلوم ہوتا؛ کیوں کہ حضرت صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ نے قران کے بیان میں قربانی کے وقت کو تین دن ہی بتایا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
بہار شریعت میں منسک کے حوالے سے ہے: ’’اس قربانی کے لیے یہ ضرور ہے کہ حرم میں ہو، بیرون حرم نہیں ہوسکتی اور سنت یہ ہے کہ منی میں ہو اور اس کا وقت دسویں ذی الحجۃ کی فجر طلوع ہونے سے بارھویں کے غروب آفتاب تک ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ رمی کے بعد ہو، رمی سے پہلے کرےگا؛ تو دم لازم آئےگا اور اگر بارھویں تک نہ کی؛ تو ساقط نہ ہوگی بلکہ جب تک زندہ ہے، قربانی اس کے ذمہ ہے‘‘۔ (بہار شریعت، صدر الشریعۃ، قران کا بیان، ج۱ح۶ص۱۱۶۳، ط: مکتبۃ المدینۃ)
قِران کے بیان میں اس درج شدہ مسئلہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ کی طرف، اس مسئلے میں سہو کی نسبت کرنا محل نظر ہے، یعنی آپ نے غلط سمجھا اور غلط لکھا، یہ درست نہیں۔
دوسری بات زیادہ قرین قیاس لگتی ہے کہ ’یوم النحر‘ میں ’یوم‘ کا استعمال واحد ہے؛ اس وجہ سے آپ نے بھی اس کا ترجمہ دسویں کردیا اور متون کی شروحات و حواشی کی روشنی میں، آپ کی مراد، اس سے ’ایام نحر‘ یعنی تین دن ہے، اس پر قرینہ یہ ہے کہ آپ نے ہی قران کے بیان میں قربانی کا وقت تین دن بیان فرمایا ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔
تیسری بات یہ کہ کاتب کی غلطی سے ایسا ہوا ہے، یہ بہت ممکن ہے؛ کیوں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک نے غلط نقل کیا اور پھر بعد میں دس بیس لوگ بھی اسے یوں ہی غلط نقل کرتے رہے، مگر اس کے متعلق حتمی فیصلہ لینے کے لیے ’بہار شریعت‘ کا اولیں نسخہ یا اصل مسودہ درکار ہے؛ کیوں کہ تقریبا بعد کے تمام نسخوں میں عبارت ایسے ہی درج ہے۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی
۲۰؍صفر المظفر ۱۴۴۴ھ