بعض بے جا تنقید کا علمی جواب ضرور پڑھیں۔
تنقید: ایک بار ضرور پڑھیں۔
برما سفارت خانہ ریاض اور برما میں موجود ایک صاحب کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس وقت برما میں درج ذیل پٌاکستانی ٌادارے و تنظیمات فلاحی و بحالی کے کام کر رہے ہیں؛
1- جمعیت علمائے اسلام (ف)
2- جماعت اسلامی/ الخدمت فاؤنڈیشن
3- منہاج القرآن
4- فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (حافظ سعید گروپ)
5- انصار برنی ٹرسٹ (برائے قانونی امیگریشن مدد وغیرہ)
جب سے مجھے یہ معلومات ملی ہیں اس وقت سے پریشان ہوں کہ مذکورہ بالا تمام تنظیمات اور اس کے معاونین تو ٌکفارٌ اور ٌجہنمی ٌہیں۔ پھر یہ تنظیمات برمی مسلمانوں کی مدد کے لیے کیوں گئیں؟
اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ قطعی حتمی جنتی، پکے و خالص مسلمانوں کی تنظیمیں کہاں ہیں؟ شاید کسی مزار پر چادر چڑھانے، سجادہ نشینی کے کسی قضیے کے حل، کسی جلسے میں بیٹھ کر حکومت کو گالیاں دینے، یا پھر ایک دوسرے کے اسلام میں دخول و خروج کے فیصلے کرنے میں مصروف ہوں گے۔۔۔ یا عین ممکن ہے اوجڑی کو حلال و حرام قرار دینا یا پھر عمامے کی رنگت، یا ایک دوسرے کی داڑھی کی لمبائی ناپنے یا کسی عامر چیمہ و ممتاز قادری کے مزار پر کسی نئی پروڈکٹ کی لانچنگ میں مصروف ہوں گے۔۔۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ عام امتیوں سے ہٹ کر کسی خود ساختہ شریعت کے تحت مکہ کے کلاک ٹاور میں فائیو سٹار حج پکنک منانے میں مصروف ہوں۔ چلیں یہ سب نہ سہی، پیر کامل، شیخ المشائخ، قطب الاقطاب، سلطان العارفین ، ظلِ الٰہی اس وقت جلال و ہیبت کے تخت پر یہ غور فرما رہے ہوں گے کہ اس زبان دراز غدار نے ہمارے اندر موجود ہماری خود کی بنائی ہوئی ٌخدائی صفاتٌ کو چیلنج کیوں کر دیا؟؟؟ سر دھن، اتنا دھن کہ تیری کھوپڑی میں موجود فاسد خون و سُدؔے خارج ہوں کہ تیرے نزدیک ہر ٌکافرٌ خود کو مومن کامل ثابت کر لے اور اقوام عالم کے سامنے تو ایک بار پھر ڈیڑھ اینٹ کی مسیتڑی لیے تصوف کی پھکی بیچتا نظر آئے اور آج سے ایک عشرہ بعد تیرے خطیب آہ و بکا کرتے نظر آئیں، ہائے برمی مسلمان بد عقیدہ ہو گئے، ہائے غیر مقلد ہو گئے، وھابیت پھیل گئی، نجدیت عام ہو گئی۔۔۔۔
اے واعظ و ناصح !
یاد رکھ، تیرا مزار تو بہت حسین و جمیل و عالی شان بنے گا لیکن قوم کو دھوکے میں رکھنے پر اس مزار کی تہہ میں جو آگ کے شعلے بلند ہوں گے، شاید انسانی آنکھ نہ دیکھ سکے گی، لیکن تو ضرور دیکھے گا۔
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
SaveRohingya #BurmaMuslims #IHRizvi #AhleSunnah
جواب:
اگر اہل سنت و جماعت کوتاہی کریں تو ضرور جرم ہے، حالانکہ ایسا نہیں، اگر میڈیا پر ہی اعتماد کرنا ہے تو دعوت اسلامی کے لوگ روھنگیا مسلمانوں کی مدد کے لئے پہونچ چکے ہیں، بہرحال برسبیل تنزل کوتاہ ہی سمجھ لیں تو کوتاہی کی اصلاح کرنی چاہئے مگر پھر بھی اس کوتاہی یا فرقہ باطلہ عاطلہ کا مسلمانوں کے تعاون کی وجہ سے نہ تو وہ گمراہ فرقہ پکہ مسلمان ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی کافر گروہ دائرہ اسلام میں داخل ہوسکتا، صحیحین کی حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: شهدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر، فقال لرجل ممن يدعي الإسلام: هذا من أهل النار، فلما حضر القتال قاتل الرجل قتالاً شديداً، فأصابته جراحة، فقيل: يا رسول الله، الذي قلت إنه من أهل النار، فإنه قد قاتل اليوم قتالاً شديداً، وقد مات، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إلى النار. قال: فكاد بعض الناس أن يرتاب! فبينما هم على ذلك إذ قيل إنه لم يمت، ولكن به جراحاً شديداً، فلما كان من الليل لم يصبر على الجراح فقتل نفسه، فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، فقال: الله أكبر، أشهد أني عبد الله ورسوله، ثم أمر بلالاً فنادى بالناس إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة، وإن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر.
حدیث میں لفظ فاجر سے دھوکا نہ کھائیں؛ کیوں کہ الحمد للہ میرے پاس اس کا بھی علمی جواب موجود ہے، نیز امام شاطبی علیہ الرحمہ ‘الاعتصام’میں فرماتے ہیں:
فَأَمَّا أَنَّ الْبِدْعَةَ لَا يُقْبَلُ مَعَهَا عَمَلٌ، فَقَدْ رُوِيَ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ: لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ ذِي بِدْعَةٍ صَلَاةً, وَلَا صِيَامًا, وَلَا صَدَقَةً, وَلَا جِهَادًا, وَلَا حَجًّا, وَلَا عُمْرَةً, وَلَا صَرْفًا, وَلَا عَدْلًا, وَوَقَعَتِ اللَّعْنَةُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْبِدَعِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنْهُمْ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، وَلَا فَرِيضَةً وَلَا تَطَوُّعًا، وَكُلَّمَا ازْدَادُوا اجْتِهَادًا صَوْمًا وَصَلَاةً ازْدَادُوا مِنَ اللَّهِ بُعْدًا، فَارْفُضْ مُجَالَسَتَهُمْ، وَأَذِلَّهُمْ، وَأَبْعِدْهُمْ، كَمَا أَبْعَدَهُمْ وَأَذَلَّهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَئِمَّةُ الْهُدَى بَعْدَهُ، وَكَانَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ يَقُولُ: مَا ازْدَادَ صَاحِبُ بِدْعَةٍ اجْتِهَادًا إِلَّا ازْدَادَ مِنَ اللَّهِ بُعْدًا ـ وَقَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ: لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ صَاحِبِ بِدْعَةٍ صَلَاةً وَلَا صِيَامًا وَلَا زَكَاةً وَلَا حَجًّا وَلَا جِهَادًا وَلَا عُمْرَةً وَلَا صَدَقَةً وَلَا عِتْقًا وَلَا صَرْفًا وَلَا عَدْلًا.
طالب دعا:
ابن فقیہ ملت غفرلہ
استاذ و مفتی: مرکز تربیت افتا
اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔