جامعہ ام الخیر، سعد اللہ نگر کا ایک اہم سفر!

جامعہ ام الخیر، سعد اللہ نگر کا ایک اہم سفر!

عرس فقیہ ملت علیہ الرحمۃ سے تقریبا دو چند دن پہلے، بستی شہر کے مشہور و معروف پتر کار محترم مظہر آزاد بھائی صاحب سے ملاقات ہوئی، تو گفتگو کے درمیان آپ نے جامعہ ام الخیر، سعد اللہ نگر، بلرام پور کا ذکر کیا، آپ اس جامعہ کے احتیاطی تدابیر سے بڑے متاثر تھے، اس لیے آپ نے مجھے اور میرے برادر کبیر نائب فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی ابرار احمد امجدی زید مجدہ کو بطور مشورہ کہا کہ آپ حضرات کو یہ جامعہ ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے۔ اسی دن سے ارادہ تھا کہ ان شاء اللہ کسی نہ کسی دن اس جامعہ کی ضرور زیارت کی جائےگی۔

اس ملاقات کے بعد ایک بار دار العلوم فیض النبی، نیپال گنج، نیپال کے جلسہ میں جانا ہوا، سفر کے درمیان اس ارادے کی تکمیل کی غرض سے محترم مظہر آزاد بھائی صاحب سے فون پر رابطہ کرنا چاہا تاکہ جامعہ کا پتہ معلوم ہوجائے اور تھوڑا دائیں بائیں ہوکر اسی سفر میں جامعہ کی زیارت بھی کر لی جائے، مگر وقت سے پہلے کوئی ارادہ پورا نہیں ہوتا، شاید اسی لیے بات نہ ہوسکی اور ارادہ کی تکمیل یوں ہی معلق رہی۔

مگر چوں کہ دل سے دل کو راہ ملتی ہے، میرا ارادہ جامعہ کی زیارت کا تھا، تو فضل الہی شامل ہوتے ہی محترم المقام لائق صد احترام حضرت مولانا محمد رفیع مصباحی صاحب قبلہ، بانی جامعہ ام الخیر کے دل میں یہ بات آئی کہ اس سال جامعہ کی طالبات کا امتحان لینے کے لیے مجھے بھی بلا لیا جائے، مشورہ کے بعد آپ نے مجھے ٦ یا ٧ مارچ کو فون کیا اور فرمایا کہ اگر مصروفیت زیادہ نہ ہو تو ٩ مارچ بروز جمعرات، ہمارے جامعہ ام الخیر میں امتحان لینے کے لیے آجائیں، میں نے عرض کیا کہ بروقت کوئی ایسی مصروفیت تو نہیں کہ جس کی وجہ سے کہیں جا نہ سکوں، ان شاء اللہ میں حاضر ہوتا ہوں۔

وعدہ کے مطابق میں دیار فقیہ ملت، اوجھاگنج سے نماز فجر کے بعد ہی جامعہ کے لیے نکل گیا، تقریبا ساڑھے آٹھ بجے کے آس پاس میں جامعہ ام الخیر پہنچ گیا، جامعہ کے بانی حضرت مولانا محمد رفیع مصباحی صاحب قبلہ، جامعہ کے دیگر اساتذہ اور دوسرے ممتحنین سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ سلام و دعا اور پانی پینے کے درمیان طے ہوا کہ ناشتہ کے بعد ہی امتحان کے لیے بیٹھا جائے، شاید ناشتے میں دو چند منٹ تاخیر تھی، اس لیے بانی جامعہ حضرت مصباحی صاحب قبلہ نے فرمایا: پھر دو چند منٹ میں جامعہ کے کچھ حصے کو ہی دیکھ لیا جائے۔

آپ کی راہنمائی میں جامعہ کی زیارت کی گئی، یقینا جامعہ قابل دید تو ہے ہی، ساتھ ہی بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے احتیاطی تدابیر، قابل تقلید ہے۔ اس جامعہ کی زمین، تالاب کے شمولیت کے ساتھ تقریبا ٥٠ ہزار اسکوائر فٹ ہے اور ٣٣ ہزار اسکوائر فٹ میں اس کی عمارت بنی ہوئی ہے، چاروں طرف سے ہاسٹل کے کمرے اور آفس وغیرہ ہیں، پورب طرف اساتذہ کے لیے فیملی روم اور دکھن طرف باورچی خانہ ہے، اساتذہ کے فیملی روم کی طرف اوپر کی جانب مہمان خانہ بھی بنایا گیا ہے۔

تقریبا چار سو بچیاں اس جامعہ کے ہاسٹل میں رہتی ہیں اور مقامی بچیوں کو ساتھ لیا جائے تو تقریبا ساڑھے چار سو بچیاں اس جامعہ میں زیر تعلیم ہیں اور کل پچیس اسٹاپ ہیں، جن میں سے بیس معلم و معلمات ہیں۔

احتیاطی تدابیر:
(۱) معلمات کے علاوہ چار علماے کرام درس دیتے ہیں، ان کے لیے برآمدے کے بعد درسگاہی کمرے سے باہر، چھوٹی چھوٹی کیبن بنی ہوئی ہے، جس میں وہ کرسی پر بیٹھ کر پڑھاتے ہیں۔
(۲) کیبن اور درسگاہی کمرے کے درمیان جو دیوار ہے، اس میں چار کونا کی صورت میں چھوٹی سی کھڑکی ہے، کھڑکی میں جالی لگی ہوئی ہے، پھر جالی کے اوپر پردہ پڑا ہوا ہے۔
(۳) بچیاں نہ تو اساتذہ کو دیکھ سکتی ہیں اور نہ ہی اساتذہ بچیوں کو دیکھ سکتے ہیں، محض ایک دوسرے کی آواز سنی جاسکتی ہے۔
(٤) اوپر چھت پر چہار دیواری قد آدم کے برابر اونچی بنائی گئی ہے کہ اگر گرمیوں میں مطالعہ کے لیے معلمات یا بچیاں اوپر جائیں تو بے پردگی نہ ہو۔ ان کے علاوہ مزید پردے سے متعلق دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں تاکہ حتی الامکان بے پردگی اور اس کے منفی نتائج سے بچا جا سکے۔

مجھے رابعہ اور خامسہ (فضیلت) کی بچیوں کا امتحان لینا تھا، جن کی تعداد تقریبا سو تھی، غالبا ساڑھے نو بجے سے میں نے امتحان لینا شروع کیا تھا اور امتحان کا اختتام تقریباً ساڑھے تین بجے ہوا تھا۔ اس کے بعد ظہر کی نماز پڑھا، پھر دوپہر کا کھانا کھایا، جامعہ کے اساتذہ نے دوپہر کو ہی کھانے پر زور دیا تھا، مگر میں نے امتحان کو کھانے پر ترجیح دی۔ اس کے بعد فیملی روم اور مہمان خانہ کی زیارت کی گئی، مہمان خانہ ہی میں بانی جامعہ حضرت مصباحی صاحب قبلہ سے بچیوں کی صلاحیت اور ان کی تعلیم و تربیت پر بلاتکلف تنقیدی و اقدامی گفتگو ہوئی، پھر میں عصر کی نماز کے بعد اجازت لے کر واپس ہوگیا۔

یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ کسی بھی جامعہ یا مدرسے کی بہترین تعلیم و تربیت کا اندازہ، ان کے اکثریتی تعلیمی و تربیتی نتائج سے لگایا جاتا ہے، نادر یا اقلیت کا اعتبار نہیں ہوتا، اسی لیے اگر اکثر کا تعلیمی نتیجہ بہتر ہوتا ہے تو اہل ہوش و خرد کے نزدیک وہ جامعہ یا مدرسہ اپنے مقصد میں کامیاب قرار پاتا ہے اور اگر اکثری نتیجہ بہتر نہیں، تو وہ ان کے نزدیک کامیاب تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس زاویہ سے اگر ہم جامعہ ام الخیر کو دیکھتے ہیں تو دور حاضر کے صف اول میں شمار ہونے والے بچیوں کے اداروں میں اس کا شمار ہونے میں کوئی باک محسوس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ یعنی بہترین عمارت اور عمدہ تعلیمی و تربیتی سفر فضل الہی، حضور ﷺ کی عنایت، اولیاے کرام کی توجہ، حضرت مصباحی صاحب قبلہ کی علم دوستی اور پانچ سالہ انتھک کوشش و محنت کا بہترین نتیجہ ہے۔ حضرت مصباحی صاحب قبلہ، منتظمین اور آپ کے اساتذہ، اس اہم اقدام اور اس میں کامیابی پر قابل صد مبارک باد ہیں۔

اور بڑی ہی ناسپاسی ہوگی، اگر اس موقع پر یہ ذکر نہ کیا جائے کہ اس جامعہ کی سرپرستی جانشین فاتح بلگرام حضرت مولانا اویس میاں صاحب قبلہ حفظہ اللہ و رعاہ فرمارہے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی اس جامعہ کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، بانی جامعہ حضرت مصباحی صاحب قبلہ کے دست و بازو کو مضبوط کرے، اسلامی تعلیمی و تربیتی مقاصد میں اعلی درجے کی کامیابی سے ہمکنار فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔

طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھا گنج، بستی۔
١٨/شعبان المعظم ٤٤ھ مطابق ١٠/مارچ ٢٠٢٣ء

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.