سیدی تاج الاولیاء کے شہر ناگ پور کا پہلا سفر!
قسط اول
حضرت مولانا عمران احمد برکاتی، بریلی شریف اور دیگر ذمہ داران عرس تاج الاولیاء علیہ الرحمۃ کی دعوت پر صد سالہ عرس تاج الاولیاء میں شرکت کا پختہ ارادہ کرلیا، اس پروگرام میں شرکت کے بہت سارے اسباب تھے، مگر ان میں سب سے بڑا سبب سیدی تاج الاولیاء علیہ الرحمۃ کی بارگاہ عالی میں حاضری دینا تھا اور اس کے بعد اس درسگاہ عظیم کو دیکھنے کی تمنا تھی، جس میں رئیس القلم علامہ ارشد القاری علیہ الرحمۃ رات میں بھی پڑھاتے تھے اور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ اور دیگر علماے کرام نے ان کی شاگردی میں تعلیم حاصل کی تھی۔
ٹکٹ تو جمعہ کی شام کو لکھنؤ سے تھا مگر اس سے پہلے جمعرات ہونے کی وجہ سے دو پہر تک پڑھائی کے بعد ہی لکھنؤ کے لیے نکل گیا۔ اس ارادے سے کہ لکھنؤ میں موجود اہل سنت و جماعت کے بعض ادارے کی زیارت کروں اور ساتھ ہی وہاں کے علما و قرا سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا جائے، اس کے لیے ایک دو دن پہلے ہی اپنے ہم سبق ساتھی رفیق محترم حضرت مولانا عرب خاں مصباحی زید شرفہ، صدر المدرسین دار العلوم حنفیہ امام احمد رضا، کلیان پور پچھم اور اپنے متحرک و فعال بھتیجے نبیرہ فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی ثناء المصطفی مصباحی زید علمہ، مدرس ادارہ ہذا سے بات ہوگئی تھی۔
محترم اسرار پردھان صاحب، اوجھا گنج کے ساتھ تقریبا ساڑھے آٹھ بجے لکھنؤ پہنچ گیا، نبیرہ فقیہ ملت زید علمہ نے رسیو کیا، تھوڑی دیر بعد ہی ہم دار العلوم حنفیہ امام احمد رضا پہنچ گئے، وہاں پر رفیق محترم صدر المدرسین صاحب قبلہ سراپا محبت بن کر منتظر نظر آئے، سلام و دعا کے بعد ناشتہ پھر پر تکلف کھانا تناول کیا گیا، اسی درمیان دو علماے کرام مولانا محمد انور مصباحی و مولانا غلام مصطفیٰ مصباحی زید علمہما سے ملاقات و تعارف کا شرف حاصل ہوا۔ پہنچنے کے بعد سے تقریبا گیارہ بجے رات علمی، فقہی، فکری اور سماجی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے بعد ہم لوگ یہ کہ کر اٹھ گیے کہ ان شاہ اللہ اب صبح ملاقات ہوگی، میں نے عشا کی نماز پڑھی اور بستر استراحت پر چلا گیا۔
فجر کی نماز کے بعد معمول کے مطابق قرآن شریف کی تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا اور دلائل الخیرات پڑھی، ابھی شجرہ طیبہ پڑھ ہی رہا تھا کہ ناشتے کا دسترخوان لگ گیا، تھوڑی ہی دیر بعد مفتی ثناء المصطفی زید علمہ کا ورود مسعود ہوا، ناشتے کے دوران اور ناشتے کے بعد تقریبا ڈیڑھ گھنٹے علمی و فکری گفتگو ہوئی، محور گفتگو یہی تھا کہ کب کون سی بات کہی جائے اور مختلف مزاج والے انسانوں سے کیسے بات کی جائے اور لوگوں کو سنیت سے جوڑ کر کیسے سنیت کو مضبوط کیا جائے۔ میں یہاں بلا مبالغہ یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اس ڈیڑھ گھنٹے کی مجلسی گفتگو میں اپنے بھتیجے نبیرہ فقیہ ملت زید علمہ کو فائدہ تو نہ کے برابر پہنچایا ہوگا مگر ان سے کافی استفادہ ضرور کیا۔
پھر میں ارادہ کے مطابق اپنے بھتیجے نبیرہ فقیہ ملت زید علمہ کے ہمراہ حفظ و قراءت کی تعلیم میں بھارت کے سب سے مشہور و معروف ادارہ مدرسہ حنفیہ ضیاء القرآن، بڑا چاند کپور کھلا، کے لیے نکل گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم حنفیہ ضیاء القرآن میں موجود تھے، مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی فخر القراء حضرت حافظ و قاری ذاکر علی قادری صاحب قبلہ زید مجدہ بانی ادارہ ہذا کا دیدار ہوا، آپ بڑی محبت سے پیش آئے، ایک گھنٹے کے دورانیہ میں ہم نے آپ کی زبان فیض ترجمان سے مدرسہ حنفیہ ضیاء القرآن اور دار العلوم حنفیہ امام احمد رضا کے قیام اور دونوں کے پاس مسجد کے حصول کے بارے میں جو حیرت انگیز آنکھوں دیکھا حال سماعت کیا، وہ یقینا آپ کی اور دیگر ذمہ داران کے جانب سے کی جانے والی پیش قدمی، تاریخی کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے، جنہیں رہتی دنیا تک ان شاء اللہ تعالی بھلایا نہ جائے گا۔ مکرمی قاری صاحب قبلہ اور دیگر حضرات کی قربانیوں کا اندازہ اس بات سے پورے طور پر لگایا جاسکتا ہے کہ اپنوں کے درمیان ادارہ چلانا بہت مشکل ہوتا ہے، تو غیروں کے گڑھ میں رہ کر مسجد حاصل کرنا یا مسجد و مدرسہ قائم کرنا، کس حد تک مشکل ترین ہوگا؟! شاید یہ بیان سے باہر ہے، کیوں کہ کہنے اور کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مزید آپ نے بڑے بڑے علماء کرام اور مفتیان عظام کے واقعات بیان کیے جو یقینا آج کے علما اور فقہا کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دوران گفتگو چائے پانی بھی ہوا، پھر ہم با دل نخواستہ حضرت قاری صاحب قبلہ کو الوداع کہ کر رفیق محترم صدر المدرسین صاحب قبلہ سے وعدے کے مطابق دار العلوم حنفیہ امام احمد رضا واپس آگیے، تھوڑی دیر بعد ہی رفیق محترم کی زیارت ہوئی، اسی درمیان مولانا محمد خالد اشرفی زید علمہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، چوں کہ رفیق محترم کا حکم تھا کہ میں دار العلوم حنفیہ امام احمد رضا کی مسجد میں کچھ بیان کروں، اس لیے ہم جلد ہی تیار ہوکر مسجد پہنچ گیے۔ رفیق محترم کی یہ مہربانی کہ آپ نے میرا تعارف کرایا، پھر میں نے سچے پکے مؤمن، تقوی پرہیز گاری اور دینی و دنیوی تعلیم و تعلم پر مختصر نصیحت کی، رفیق محترم کی ذرہ نوازی کہ آپ نے مجھ سے نماز پڑھانے کے لیے کہا مگر میں نے آپ ہی سے پڑھانے کے لیے عرض کیا تو آپ نے محترم قاری مستقیم صاحب، صدر المدرسین ادارہ ہذا کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھادیا۔
نماز جمعہ کے بعد رفیق محترم زید شرفہ کے کمرے میں آیا اور آپ سے الوداع کہ کر اپنے بھتیجے نبیرہ فقیہ ملت زید علمہ کے ہمراہ دار العلوم وارثیہ، وشال کھنڈ، گومتی نگر کے لیے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی ہم دار العلوم وارثیہ پہنچ گیے۔ دارلعلوم کے باہر ہی حضرت مولانا محمد اقبال احمد خاں صاحب قبلہ زید شرفہ، سابق مدرس دار العلوم ہذا سے ملاقات ہوئی، آپ کی ذرہ نوازی کہ میرے کہنے پر آپ اپنے گھر سے ادارہ ہذا میں تشریف لائے۔ تھوڑی دیر بعد ہم دار العلوم کے اندر گیے، دار العلوم، لکھنؤ جیسے شہر میں بہت ہی وسیع و عریض زمین پر واقع ہے، دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈھک محسوس ہوئی، اسی کے بغل میں وارثیہ گرلس انٹر کالیج بھی موجود ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہی ایک عالم نبیل حضرت مولانا فاروق مصباحی صاحب قبلہ زید شرفہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، یہاں پر بھی مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا، درمیان میں متحرک و فعال عالم دین حضرت مولانا شاہد مصباحی زید علمہ، جالون کا ذکر خیر آیا تو سبھوں نے آپ کی تعریف کی، کیوں کہ آپ نے مسلم سماج کی بنیادی تعلیم سے متعلق اپنے علاقے میں مہم چھیڑ رکھی ہے، جس کے بارے میں شاید آج بھی عموما ہمارے علما سنجیدہ نہیں۔ یقینا ایسے علما کی حوصلہ افزائی ان کا واجبی حق ہے، جس کے ادا کرنے میں ہمیں ذرہ برابر تامل نہیں ہونا چاہیے۔
گفتگو کے دوران چائے نوشی بھی ہوئی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہم حضرت والا سے اجازت لے کر میٹرو اسٹیشن آگئے، ہم نے اپنے بھتیجے نبیرہ فقیہ ملت زید علمہ کا اتنے ہما ہمی والے بڑے شہر میں اپنا اتنا کثیر قیمتی وقت دینے پر شکریہ ادا کیا اور ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوگیا، ائیر پورٹ پہنچ کر بورڈنگ کے بعد ایک کنارے کی جگہ ڈھونڈ کر نماز عصر و مغرب ادا کیا، ائیر پورٹ پر پہلے عبادت کے لیے کوئی خاص جگہ ہوتی تھی مگر شاید ایک زمانے سے یہ انتظام ختم کردیا گیا جس کی وجہ سے ایسی اجنبی جگہوں پر نماز ادا کرنا پریشان کن بھی ہوسکتا ہے مگر رب کی رضا جوئی ہی سب پر مقدم ہے۔
فلائٹ چھ چالیس پر تھی اور ابھی آٹھ بج کر پندرہ منٹ ہوئے ہیں، ان شاء اللہ تعالی میں آٹھ پچیس پر ناگ پور پہنچ جاؤنگا، اللہ تعالی تمام علما و قرا بالخصوص لکھنؤ کے علما و قرا پر اپنا فضل خاص فرمائے، مزید جد و جہد اور حکمت و مصلحت شرعیہ کے سایہ میں رہ کر دینی و ملی خدمات کی توفیقات سے نوازے اور تمام سنی مدارس بالخصوص لکھنؤ کے سنی مدارس کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھا گنج، بستی، یو پی۔
٢٧/ جمادی الآخرة ٤٤ھ