سفر نامہ جانشین فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری زید علمہ
پہلی قسط
✍️ : محمد ذیشان مصباحی، مرادآباد
متعلم: مرکز تربیت افتا اوجھا گنج، بستی
کل یعنی ١٤ ربیع الآخر ١٤٤٤ھ بروز جمعرات آستانہ فقیہ ملت علیہ الرحمۃ، پر حاضری دے کر ، اساذ محترم، جانشین فقیہ ملت، مفتی ازہار احمد امجدی ازہری صاحب قبلہ اور رفقاء درس مولانا نور الہدی مصباحی اور مولانا نیاز اللہ مصباحی اور ڈرائور شفیع محمد کی معیت میں پانچ نفری قافلہ مرکز تربیت افتا اوجھا گنج،بستی سے، بلگرام شریف ، بریلی شریف ، بدایوں شریف، ماہرہرہ شریف میں حاضری کے لیے تقریباً ١٢ بجے دن بذریعہ کار روانہ ہوا۔
نماز ظہر راستے میں قصبہ رسولی، بارہ بنکی میں ادا کی، مسجد بڑی عالیشان،دیدہ زیب اور خوبصورت تھی، لیکن جب اندر گیے تو ممبر پر اشرف علی تھانوی کی کتاب پر نظر پڑی، جسے دیکھر کر اندازہ ہوا کہ یہ بدمذہبوں کے قبضے میں ہے۔
پھر وہاں سے لکھنؤ کے لیے روانہ ہوئے،
حضرت مفتی صاحب قبلہ نے نماز عصر لکھنؤ ہی میں روڈ کے کنارے مصلہ بچھا کر ادا کی، پھر لکھنؤ سے آگرہ ایکسپریسوے پر چڑھنے کے بعد بانگرمؤ کٹ سے اتر کر بلگرام شریف کا رخ کیا ، راستے میں قصبہ گنج مرادآباد میں نماز مغرب ادا کی اور شاہ فضل الرحمان علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں حاضری دی، پھر جب وہاں سے چلے تو ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ گاڑی کا ٹائر جواب دے گیا، اس پر مزید یہ کہ اسٹپنی ٹائر لگایا تو اس میں بھی ہوا کم تھی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ تقریباً ایک کلو میٹر دور ٹائر پنچر کی دکان ہے، پروگرام کے مطابق نماز عشا سے پہلے ہی بلگرام خانقاہ واحدیہ میں پہنچنا تھا کیوں کہ مفتی ریاض علیمی امجدی استاذ مدرسہ دارالعلوم واحدیہ طیبہ، نے نماز عشا کے بعد مسجد ہی میں ایک مختصر سی محفل رکھی تھی تاکہ حضرت مفتی صاحب قبلہ، طلبہ اور عوام کو کچھ پیغام دیں سکیں مگر مرضی مولی از ہمہ اولی، خیر عشا کے بعد وہاں پہنچے، مفتی ریاض علیمی امجدی اور قاری عبد القادر صاحب بائک سے لینے کے لیے آیے اور حضرت سید سہیل میاں، سجادہ نشین خانقاہ واحدیہ کی خاص نشست گاہ میں ہم لوگوں کو ٹھہرایا، فوراً پانی اور کچھ دیر بعد چاۓ و پر تکلف ناشتہ پیش کیا گیا، اسی دوران مفتی ریاض علیمی صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، پھر ہم نے نماز عشا ادا کی، بعد نماز، صاحب سبع سنابل، قطب الاولیاء حضرت میر سید عبد الواحد بلگرامی(م ١٠١٧ھ) علیہ الرحمہ اور ان کے شہزادے میر سید طیب واحد بلگرامی(م١١٦٦ھ) علیہ الرحمہ اور خانقاہ میں آرام فرما دیگر بزرگانِ دین کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا،تمام احباب کا سلام پیش کیا اور دعائیں کیں، حاضری کے بعد کھانا کھایا، رات کے تقریباً ساڑھے دس بج چکے تھے اور تھکن کافی محسوس ہو رہی تھی لہذا کھانے کے ضروریات سے فارغ ہوکر میزبان حضرات سے اجازت لیکر بستر پکڑ لیا اور سو گیے۔
جاری…..
سفر نامہ دوسری قسط
✍️ : محمد ذیشان مصباحی ، مرادآباد
متعلم : مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی
جمعہ کی صبح بیدار ہوکر نماز فجر خانقاہ واحدیہ کے احاطے
میں واقع قدیم تاریخی مسمی بڑی مسجد میں باجماعت ادا کی، بعد نماز ایک بار پھر میر سید عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ اور دیگر بزرگانِ دین کی بارگاہ میں حاضری دی، جب تک ناشتہ تیار ہو چکا تھا، بعد حاضری ناشتہ کیا، حضرت سید سہیل میاں ایک پروگرام میں گیے ہوئے تھے اس لیے ان سے ملاقات کرنے سے محروم رہے، مفتی ریاض صاحب نے ہمیں تحفہ میں مآثر الکرام اور دیگر کتب پیش کیں، استاذ گرامی حضرت مفتی ازہار احمد امجدی ازہری صاحب قبلہ نے بھی انہیں اپنی کتاب تارک اعتقاد صحیح اور دیگر کتب پیش کیں، اس طرح ایک دوسرے کو علمی تحفہ پیش کیا، ما شاء اللہ مفتی ریاض اور قاری عبد القادر صاحب نے میزبانی کا پورا پورا حق ادا کیا، کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہونے دیا، اللہ عزوجل انہیں جزاۓ خیر سے نوازے۔
تقریباً سات بجے ہم فاتح بلگرام، جد اعلی سادات مارہرہ مطہرہ، مسولی، بلگرام، حضرت سید محمد صاحب الدعوۃ الصغری، کی بارگاہ میں حاضری کے لیے روانہ ہوئے، وہاں پر سلام و دعا پیش کرنے کے بعد خانقاہ قادریہ میں آرام فرما سید عبد القادر بلگرامی علیہ الرحمہ اور دیگر بزرگانِ دین کی بارگاہ میں حاضری دی، حاضری دے کر خانقاہ سے نکلے ہی تھے کہ سید اویس میاں صاحب کے چھوٹے بھائی سید فیضان میاں سے ملاقات ہوئی، اس کے کچھ دیر بعد مولانا عبد الکریم مصباحی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، سید فیضان میاں سے حضور مفتی صاحب قبلہ کا تعارف کرایا جب انھوں نے سنا کہ حضرت شہزادہ فقیہ ملت ہیں تو بہت خوش ہوئے ، خادم سویا ہوا تھا اس وجہ سے شفقت فرماتے ہوئے خود ہی گھر سے چاے اور ناشتہ لیکر آیے اور کچھ دیر تک مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا رہا، پھر تقریباً نو بجے سید اویس میاں صاحب، سجادہ نشین خانقاہ قادریہ سے، ملاقات کا شرف حاصل ہوا، حضرت سے تقریباً ایک گھنٹہ گفتگو ہوئی، سیدی نے حضور مفتی صاحب قبلہ کی خدمات کی تعریف کی اور دعا و تحسین سے نوازا۔
ارادہ تو جمعہ سے پہلے بریلی شریف پہنچنے کا تھا لیکن وقت کافی ہو گیا تھا، اگر جمعہ سے پہلے نکلتے تو شاید جمعہ کی نماز نہ مل پاتی، اس لیے جمعہ کے بعد نکلنے کا ارادہ کیا، پھر سید اویس میاں صاحب نے مفتی صاحب قبلہ کو نماز جمعہ میں خطاب فرمانے کا موقع عنایت کیا، استاذ گرامی نے تعلیم و تربیت کے موضوع پر مختصر وقت میں بہت اہم خطاب فرمایا اور لوگوں کو اپنے بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کرنے پر ابھارا، اور انہیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم دینے پر بھی رغبت دلائی۔
نماز جمعہ کے بعد پھر سید اویس میاں اور مفتی قاسم مصباحی اعظمی سے ملاقات ہوئی، دوران گفتگو سید اویس میاں نے ایک بہت ہی اہم بات ارشاد فرمائی کہ آج تعلیم کے ساتھ ساتھ اس بات کی تربیت کی بھی بہت ضرورت ہے کہ کونسی بات کہاں اور کیسے کہنی ہے کیونکہ بہت سے لوگ جذبات میں آکر کچھ سے کچھ بول دیتے ہیں،سید صاحب نے استاذ گرامی کو اپنے سلسلہ کے تمام اوراد و وظائف اور معمولات کی بھی اجازت عطا فرمائی اور حضرت کے طفیل ہم پر بھی نظر عنایت ہوئی اور ہمیں بھی اجازت سے نوازا، اور یہ یقینا حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ کا ہی فیض تھا کہ حضور سید صاحب نے دو مرتبہ ملاقات کا شرف بخشا اور اجازت سے نوازا، حضرت سے ملاقات کے بعد، ہم نے آپ کے بڑے بھائی سید بادشاہ میاں سے ملاقات کی۔
سادات بلگرام کو بہت ہی علم دوست، علماء نواز، ملنسار اور خوش اخلاق پایا۔اللہ عزوجل ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے۔
حضرت کے حکم سے ہم کو مہمان خانہ میں کھانا پیش کیا گیا،کھانا کھا کر تقریباً تین بجے دیار عشق و محبت بریلی شریف کی طرف روانہ ہوئے، نماز عصر ہردوئی اور نماز مغرب قصبہ سہرامئو میں ادا کی اور تقریباً رات آٹھ بجے بریلی شریف پہنچے۔
جاری……
سفر نامہ تیسری-قسط
✍️ : محمد ذیشان مصباحی، مرادآباد
متعلم : مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی
رات کے تقریباً آٹھ بجے بریلی شریف پہنچے، مفتی اعظم ہند مسجد کے پاس گاڑی کھڑی کی، منظر اسلام کے میرے ہم درس ساتھی مولانا ہاشم منظری، حضرت مفتی صاحب قبلہ کو بائک سے لینے کے لیے آیے لیکن حضرت نے بیٹھنے سے منع کر دیا اور پیدل ہی، امام عشق و محبت، امام اہل سنت فقیہ فقید بے مثال، حضور سیدی سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ اور ہم شبیہ غوث اعظم حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ اور سیدی و مرشدی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے روانہ ہوئے، وضو سے فارغ ہوکر ان عظیم بارگاہوں میں حاضری دی سلام خادمانہ پیش کیا اور ان بزرگوں کے وسیلے سے دعائیں کیں، احباب کا بھی سلام عرض کیا اور ان کے لیے بھی دعائیں کیں، حاضری سے فارغ ہو کر افریقی ہاسٹل روم نمبر ایک کا رخ کیا کیونکہ وہاں پر، مولانا ہاشم منظری، مولانا طفیل منظری اور میرے برادر صغیر مولانا سرفراز منظری وغیرہ حضرت سے ملاقات کے منتظر تھے، ان سے ملاقات ہوئی، ارادہ تو کچھ اور علمائے کرام سے بھی ملنے کا تھا، مگر شہزادہ مناظر اہل سنت، مولانا عطاء المصطفی ازہری اور ان کے برادر صغیر مولانا کمال مصطفی ازہری، الجامعۃ القادریہ رچھا میں حضرت کا انتظار کر رہے تھے، اس لیے چاے ناشتہ سے فارغ ہو کر تقریباً دس بجے الجامعۃ القادریہ رچھا کے لیے روانہ ہو گئے۔
رات کے گیارہ بجے الجامعۃ القادریہ رچھا کے مین گیٹ پر ہماری کار رکی، تو دیکھا کہ مولانا کمال مصطفی ازہری اور اساتذہ جامعہ قادریہ گیٹ پر حضرت کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں، اور راستے کی دونوں جانب جامعہ کے طلبہ قطاریں لگائے ہوئے ہیں، گاڑی سے اترنے کے بعد مصافحہ و معانقہ ہوا اور نعراہاے تکبیر و رسالت کی گونجوں میں حضرت کو اندر لے گیے اور جامعہ کے آفس میں ہم لوگوں کو ٹھرایا، کچھ دیر گفتگو کے بعد عمدہ و لذیذ کھانا پیش کیا گیا، کھانے کے بعد چاے لائی گئی، پھر ہم لوگوں نے نماز عشا باجماعت جامعہ کے آفس ہی میں حضرت مفتی صاحب قبلہ کی اقتدا میں ادا کی، اور رات کے تقریباً ایک بجے بستر پر لیٹے۔
صبح بیدار ہو کر نماز فجر جامعہ کے نماز حال میں ادا کی، بعد جماعت اعلان کیا گیا کہ حضرت مفتی ازہار صاحب قبلہ کچھ بیان فرمائیں گے تمام طلبہ تشریف رکھیں، پہلے مولانا نیاز اللہ مصباحی نے کھڑے ہو کر حضرت کا طلبہ کے درمیان تعارف کرایا، پھر مفتی صاحب قبلہ نے فروعی مسائل میں اختلاف اور تعلیم و تعلم کے موضوع پر ایک مختصر اور جامع خطاب فرمایا، دوران تقریر آپ نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ فروعی مسائل میں اختلاف صحابہ کرام کے زمانہ سے لیکر آج تک چلا آرہا ہے، ہر زمانہ میں علماے کرام کے درمیان اصول و قواعد کے پیش نظر ایک دوسرے سے اختلاف رہا ہے، لہذا آج بھی اصول و ضوابط کی روشنی میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر ادب کے دائرہ میں رہ کر، اختلاف ہونا چاہیے، کسی کی ذاتیات پر حملہ نہ کریں اور نہ ہی اس اختلاف کی وجہ سے آپس میں دوریاں بنائیں۔
مجلس ختم ہونے کے بعد مولانا کمال مصطفی ازہری نے الجامعہ القادریہ للبنات، جامعہ کی لائبریری اور سینٹرل بلڈنگ کا دورہ کرایا، ما شاء اللہ جامعہ کی لائبریری کافی کشادہ اور کثیر و نادر کتابوں پر مشتمل ہے، مولانا کمال مصطفی ازہری صاحب نے خطبات مناظر اہل سنت اور چند دیگر کتب بطور تحفہ ہمیں پیش کیں، مفتی صاحب قبلہ نے فرمایا کہ میں نے الجامعہ القادریہ کو جتنا تصور کیا تھا اس سے کہیں زیادہ خوبصورت اور بڑا پایا، اور واقعی خوبصورت ہے، جامعہ کے سامنے وضو وغیرہ کے لیے ایک بڑا حوض ہے جس میں فوارہ لگا ہوا ہے، اس کی دونوں سائڈ میں پارک بنے ہوئے ہیں، جواس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
رات میں تاخیر ہو جانے کی وجہ سے مولانا عطاء المصطفی ازہری صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی تھی، اس لیے صبح میں ان سے ملاقات ہوئی، بہت خوش ہوئے، ان کے علاوہ اساتذہ جامعہ بالخصوص مولانا عرفان مصباحی اور مفتی سہیل مصباحی نے حضرت سے ملاقات کی، حضرت مناظر اہل سنت علامہ مولانا صغیر احمد جوکھنپوری ایک پروگرام میں گیے ہوئے تھے اس لیے ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔
ناشتہ کے بعد مولانا عطاء المصطفی ازہری اپنا رائس میل دکھانے کے لیے لے گیے، پھر اس کے بعد ہم تقریباً نو بجے صبح میں بدایوں شریف کے لیے روانہ ہو گئے۔
مولانا شان عالم مصباحی کو حضرت مفتی صاحب قبلہ کے بدایوں آنے کی اطلاع ملی تو انھوں نے فون کر کے گذارش کی کہ حضرت ہمارے مدرسہ قصبہ سید پور میں تشریف لے آئیں جو بدایوں سے تقریباً پچیس کلو میٹر دوری پر تھا، مگر ہمیں شام تک مارہرہ شریف پہنچنا تھا، اس لیے ان سے معذرت کی تو وہ خود ہی اپنے چند احباب کے ساتھ حضرت سے ملاقات کے لیے بدایوں تشریف لے آئے، جب ہم وہاں پہنچے تو وہ پہلے ہی سے ہمارے منتظر تھے، ہم نے ان کے ساتھ چھوٹے سرکار اور بڑے سرکار کی بارگاہوں میں حاضری دی، پھر اس کے بعد نماز ظہر ادا کی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہمارے کافی منع کرنے کے باوجود مولانا صاحب کھانا کھلانے کے لیے لے گیے، تقریباً آدھا گھنٹہ ہوٹل تلاش کرنے میں گذر گیا، پھر ایک ہوٹل ملا جس میں انہوں نے ہمیں کھانا کھلایا، یہ ان کی محبت تھی کہ بیچارے ہوٹل تلاش کرنے میں کافی پریشان ہوئے، کھانے کے بعد بھی وہ کہتے رہے کہ خاطر خواہ مہمان نوازی نہ ہوسکی۔اللہ عزوجل ان کی محبت کو سلامت رکھے اور ان کے اقبال میں مزید اضافہ فرمائے۔
کھانے سے فارغ ہو کر ہم نے ان سے اجازت لی اور تقریباً تین بجے مارہرہ شریف کے لیے روانہ ہو گئے۔
جاری…..
سفر نامہ آخری_قسط
✍️ : محمد ذیشان مصباحی، مرادآباد
متعلم : مرکز تربیت افتا اوجھا گنج، بستی
تقریباً تین بجے بدایوں سے مارہرہ شریف کے لیے روانہ ہوئے نماز عصر راستے میں ایک مزار کے احاطے میں پڑھی اور نماز مغرب کاس گنج میں ایک مسجد میں ادا کی، سات بجے کے قریب سادات کی نگری مارہرہ مطہرہ کی مقدس سرزمین پر پہنچے ، ہم درس ساتھی مولانا فرقان احسنی اور مولانا شان عظمت احسنی پہلے سے ہی حضرت مفتی صاحب قبلہ کے منتظر تھے ، چوراہے پر گاڑی سے اتر کر پیدل خانقاہ برکاتیہ کی طرف روانہ ہوئے،راستہ زائرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، کسی طرح بچتے بچاتے بیت العلماء میں پہنچے،جہاں عرس میں تشریف لائے ہوئے علمائے کرام قیام کرتے ہیں،ہمارا بھی وہیں قیام ہوا، ابھی ہاتھ منھ دھوکر فارغ ہوۓ تھے کہ ناشتہ لایا گیا، تھوڑی دیر بعد عشا کی اذان ہوئی، وضو کر کے وہیں پر باجماعت نماز ادا کی،الجامعۃ الاشرفیہ کے اساتذہ کرام اور دیگر علماء کرام بھی وہیں پر قیام پزیر تھے، نماز سے فارغ ہو کر حضرت مفتی صاحب قبلہ کے ساتھ، خیر الاذکیا حضرت علامہ محمد احمد مصباحی صاحب، محقق مسائل جدیدہ حضرت مفتی نظام الدین صاحب ،رئیس التحریر علامہ یاسین اختر صاحب، علامہ مولانا عبد المبین نعمانی صاحب ، مولانا صدر الوری صاحب، مولانا مسعود احمد برکاتی صاحب، مولانا زاہد علی سلامی صاحب،مولانا اختر کمال صاحب، مولانا توفیق احسن برکاتی صاحب اور قاری ابو ذر صاحب – أطال الله أعمارهم وأدام فيوضهم علينا- کی دست بوسی کی، سلام عرض کیا اور دعائیں لیں، اپنے اساتذہ کرام سے ملاقات کر کے بڑی خوشی محسوس ہوئی، اللہ عزوجل ان بزرگوں کا سایہ تا دیر ہم پر قائم رکھے۔ابھی ملاقات سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ دسترخوان لگایا گیا،لہذا ہم بھی کھانا کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔
یہ خانقاہ برکاتیہ کی علم دوستی اور علما نوازی کی عظیم مثال ہے کہ علمائے کرام کے قیام و طعام کا الگ سے انتظام کیا جاتا ہے،کھانے کے علاوہ چاے اور ناشتہ کا بھی اہتمام رہتا ہے،ان کے اوڑھنے اور بچھانے کے لیے بہترین لحاف اور گدے مہیا کیے جاتے ہیں اور جامعہ احسن البرکات کے طلبہ کو علمائے کرام کی خدمت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے جو ہر طرح سے ان کا خیال رکھتے ہیں، اور لوگوں کی بھیڑ سے بچاتے ہوئے اسٹیج تک لاتے اور لے جاتے ہیں۔
دس بجے کے قریب مفتی صاحب قبلہ اسٹیج پر تشریف لے گئے، مین اسٹیج کے علاوہ دائیں اور بائیں جانب بنے ہوئے دونوں اسٹیج بھی علمائے کرام سے بھرے ہوئے تھے،بڑے اسٹیج پر آبروے خانوادہ برکات، تاج المشائخ، امین مسلک اعلیٰ حضرت، حضور امین ملت، ڈاکٹر سید الشاہ امین میاں اپنے خادانی تبرکات زیب تن کیے ہوئے، صوفے پر تشریف فرما تھے،گلشن برکات کا پورا گراؤنڈ سامعین سے پر تھا،لوگ خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے علمائے کرام کی تقاریر بڑی توجہ کے ساتھ سن رہے تھے،اعراس کی محفل میں شاید اس طرح کا خاموش اور پر سکون کثیر مجمع پہلی بار دیکھا تھا، اسٹیج کے پیچھے سے گراؤنڈز کی تین طرف لوگوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی، جو سرکار امین ملت کو ایک جھلک دیکھنے اور دست بوسی کرنے کے لیے اپنی باری کے منتظر تھے،محافظ مسلک اعلیٰ حضرت، سرکار رفیق ملت، حضور سید الشاہ نجیب حیدر میاں بھی رونق اسٹیج بنے ہوئے تھے، خاندان برکاتیہ کے شہزادگان اور دیگر بزرگ و مشائخ اور اور ملک کے بڑے بڑے علماء کرام بھی اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔
حضرت مفتی صاحب قبلہ کو اسٹیج پر پہنچانے کے بعد، میں اور مولانا نور الہدی مصباحی خانقاہ برکاتیہ میں آرام فرما بزرگانِ دین بالخصوص سیدنا شاہ برکت اللہ علیہ الرحمہ صاحب سلسلہ برکاتیہ، سیدنا آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ ، صاحب عرس قاسمی، سیدنا شاہ ابو القاسم عرف شاہ جی میاں علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے روانہ ہوئے، گیٹ کے سامنے عقیدت مندوں کا ہجوم تھا کسی طرح اندر جاکر، پیچھے کے دروازے سے اندر داخل ہوئے،سلام عرض کیا، دعائیں مانگیں،احباب کا سلام پیش کیا۔
حاضری سے فارغ ہوکر برکاتی مسجد اور چلے والی بلڈنگ کا نظارہ کرنے کے بعد جامعہ احسن البرکات کی فلک بوس عمارت دیکھنے کے لیے گیے، اندر انٹری عرس کمیٹی کی طرف سے جاری کیے جانے والے پاس کو دکھا کر ہی ہوسکتی تھی جو کہ ہمارے پاس نہیں تھا مگر گذارش کرنے پر خادم نے اندر جانے دیا، یہ چار منزلہ عمارت ہے ،جو بڑی ہی خوبصورت بنی ہوئی ہے، صفائی کا اچھا انتظام ہے، عمارت کے اوپر سرکار غوث اعظم علیہ الرحمہ کے روزے کے گنبد کی مثل گنبد بنا ہوا ہے جو دور سے دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کے سر پر تاج رکھ دیا گیا ہو، مین گیٹ کے دونوں طرف اور کئی جگہ دیواروں پر جامعہ احسن البرکات کے طلبہ کرام کے لکھے ہوئے جداریہ چسپاں تھے،جنہیں دیکھ کر بڑی خوشی محسوس ہوئی، اور جامعہ احسن البرکات کی داہنی طرف ایک وسیع و کشادہ جگہ میں زائرین کے لیے لنگر عام کا انتظام کیا گیا تھا، اور جگہ جگہ پانی کی سبیل بھی لگائی گئی تھی۔
ایک بجے کے قریب پروگرام ختم ہونے کے بعد مفتی صاحب قبلہ کے ساتھ بیت العلماء پہنچے، جس روم میں ہمارا قیام تھا اسی میں جامعہ قادریہ کا اسٹاف اور دیگر لوگ بھی ٹہرے ہوئے تھے، سوتے سوتے تقریباً دو بج گیے، صبح چھہ بجے سے پہلے اٹھ کر نماز فجر ادا کی، اس کے بعد تھوڑی دیر اور آرام کیا، پھر ناشتہ کرنے کے بعد سرکار رفیق ملت سید الشاہ نجیب حیدر میاں سے ملاقات کرنے کے لیے ان کے کاشانہ پر پہنچے، حضرت کے عقیدت مندوں کی باہر بھیڑ لگی ہوئی تھی، کچھ علمائے کرام بھی وہاں پر منتظر تھے، کچھ دیر وہاں انتظار کیا، شہزادہ امین ملت سید امان میاں صاحب تشریف لائے، مفتی صاحب قبلہ کی ان سے ملاقات ہوئی، بڑے خوش ہوئے، ناچیز نے بھی دست بوسی کی، کچھ دیر بعد مفتی صاحب قبلہ اندر تشریف لے گئے اور سرکار رفیق ملت سے ملاقات کی۔
چونکہ حضرت مفتی صاحب قبلہ کا پرتاب گڑھ میں ایک پروگرام تھا جس میں حضرت کو پہنچنا تھا، اس لیے ملاقات سے فارغ ہو کر، فاتحہ پڑھنے کے بعد، بارہ بجے کے قریب ہم لوگ وہاں سے روانہ ہو گئے اور قل شریف کی بابرکت محفل میں شریک نہ ہوسکے۔
نماز ظہر و عصر چھبرا مئو کے ایک مدرسہ دار العلوم غوثیہ میں ادا کی، جہاں مولانا فیضان مصباحی سے ملاقات ہوئی، نماز مغرب آگرہ لکھنؤ ایکسپریسوے پر ادا کی، تاخیر زیادہ ہوچکی تھی اس لیے پرتاب گڑھ کا پروگرام کینسل کرنا پڑا، اور ہم لوگ تقریباً گیارہ بجے رات مرکز تربیت افتا اوجھا گنج، بستی پہنچ گئے، اس طرح ہمارے سفر کا اختتام ہوا۔