نبیرہ رئیس القلم کی با برکت شادی میں شرکت!

نبیرہ رئیس القلم حضرت مولانا محمود غازی ازہری زید علمہ، ڈائریکٹر: جامعہ نظام الدین اولیا، دہلی کی شادی مبارک ٢٧/ اکتوبر ٢٠١٨ء (اللہ تعالیٰ ان کی شادی خووووب مبارک فرمائے) کے صدقہ میں مولانا سلیم احمد چشتی صاحب جونپوری زید علمہ کے ساتھ جونپور کے اولیاے کرام کی بارگاہ میں حاضری، آپ حضرات بھی ملاحظہ فرمائیں:

جونپور یہ ایک قدیم اور تاریخی شہرہے، یہ عظیم شہر جونا شاہ کا آباد کیا ہوا ہے، یہ بہت قدیم شہر ہے، یہاں کے مسلم بادشاہوں نے پورے ہندوستان پر حکومت کی ہے، سوا گیارہ بجے سے سوا ایک بجے تک تقریبا دو گھنٹے کی قلیل سی مدت میں مندرجہ ذیل مقامات پر غم و خوشی کے ملے جلے احساسات کے ساتھ حاضری کا شرف حاصل ہوا:
ہم جونپور ضلع جیل کے بغل مدرسہ قادریہ شمسیہ و خانقاہ قلندریہ کے احاطہ میں داخل ہوئے، داخل ہوتے ہی سامنے مسجد پر نظر پڑی، بائیں ہاتھ پر مدرسہ اور درمیان میں ولی کامل قطب بیناے دل قطب الدین علیہ الرحمۃ کا مزار شریف ہے، اسی کے پچھم و دکھن سمت حضور شمس العلماء شمس الدین رحمہ اللہ مصنف قانون شریعت کا مزار پاک ہے، حضرت کے صاحبزادے حضرت مفتی محی الدین احمد ھشام صاحب قبلہ دام ظلہ ابھی با حیات اور مدرسہ حنفیہ جونپور میں بحیثیت پرنسپل، شیخ الحدیث اور مفتی خدمت انجام دے رہے، حضرت سے بھی زیارت کی ابتدا سے پہلے ہی مدرسہ حنفیہ میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا، نیز وہیں پر اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت مولانا شبیر احمد صاحب قبلہ اور مزید دو اساتذہ سے ملاقات ہوئی اور ان کے ساتھ کچھ حساس ملی مسائل پر گفتگو ہوئی، نہ جانے کب تک گفتگو ہوتی رہے گی اور پتہ نہیں کب عملی اقدام ہوگا! اللہم ارحمنا، آمین۔

وقت کی قلت کی وجہ سے بادشاہ فیروز شاہ تغلق رحمہ اللہ کے مقبرہ پر جو محلہ سپاہ چوراہا کے پاس واقع ہے، حاضری نہیں ہوسکی، البتہ رکشہ پر بیٹھے بیٹھے زیارت کرلیا، مقبرہ کے بغل میں انہیں کے نام سے منسوب ایک مدرسہ فیروزیہ بھی قائم ہے۔

مقبرہ کو دیکھتے ہویے محلہ بشیشر پور میں حاضری ہوئی، اس محلہ میں ولی کامل حضور سید حمزہ چشتی رحمہ اللہ کا مزار شریف ہے، آپ کا ٥٤٩ واں عرس آنے واے ٦ ربیع الاول شریف کو ہونے والا ہے۔

پھر ہم محلہ رشید آباد کی طرف متوجہ ہویے، گیٹ سے داخل ہوئے یہاں، سامنے مدرسہ رشیدیہ تھا، بائیں طرف مسجد تھی اور تھوڑا مزید بائیں ہٹ کر حضرت العلام مولانا محمد رشید معروف بدیوانجی علیہ الرحمۃ، صاحب مناظرہ رشیدیۃ اور مولانا ہدایت اللہ رامپوری رحمہ اللہ اور خلفا کے مزارات تھے، ان کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔

اس کے بعد ہم ولی کامل حضور مخدوم عیسی تاج شاہ رحمہ اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے ارادہ سے نکلے، راستہ میں جامع مسجد معروف ببڑی مسجد ملی، اس مسجد کو بادشاہ ابراہیم پیر صاحب حضرت مخدوم عیسی تاج چشتی رحمہ اللہ کی سہولیت عبادت کے لئے بنائی جو پہلے اپنی قیام گاہ سے خالص مخلص مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے تھے، افسوس صد افسوس کہ ایک طویل زمانہ تک سنی بادشاہ کی قائم کردہ مسجد سنیوں کے تصرف میں رہی، اور اب یہ بڑی شاہی مسجد دیوبندیوں وہابیوں کی تحویل میں چلی گئی، خیر ملے جلے خوشی و غم کے بوجھل قدموں سے باہر آئے اور حضور مخدوم چشتی رحمہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، دروازہ پر تالا لگا ہوا تھا، باہر ہی سے فاتحہ پڑھنے پر اکتفا کیا۔

اس کے بعد ہم شاہی اتالا مسجد حاضر ہوئے، اپنے پھوپھی زاد بھائی دام ظلہ کی اقتدا میں نماز ادا کی، جو اس تاریخی مسجد کے پنجوقتہ نماز کے امام ہیں، افسوس صد افسوس کی اس تاریخی مسجد پر بھی تقریبا دیوبندیوں وہابیوں کا ہی قبضہ ہے، نماز جمعہ کا امام دیوبندی یا انہیں کا ہم خیال ہے۔
تبلیغ کی کوشش: بہر کیف نماز سے فارغ ہوئے تو ایک بزرگ سے بات ہوئی جنہیں مسجد کے حوض پر نماز سے پہلے وضو کرتے دیکھا تھا اور ان کے ہاتھ میں دو پیتل کی انگوٹھی تھی، میں نے ان سے عرض کیا: چچا میں آپ سے ایک بات پوچھوں، انہوں نے کہا کہ بالکل، میں نے کہا کہ یہ انگوٹھی کس چیز کی ہے، انہوں نے کہا پیتل کی ہے، میں نے کہا آپ اسے نہ پہنئے، حدیث پاک میں اس کی سخت ممانعت ہے، صرف ایک چاندی کی انگوٹھی پہنئے، انہوں نے کہا میں نے بواسیر کے علاج کے لئے پہن رکھی ہے، میں نے کہا چچا حدیث شریف میں حرام چیز سے علاج کی ممانعت ہے، انہوں نے ایک انگوٹھی نکال دی اور کہا کہ دوسری بھی نکال دونگا! پھر میں نے ان کی بیماری کے علاج کے لئے اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کا دو رکعت نماز پڑھنے والا نسخہ بتایا اور کہا کہ آپ یہ دو رکعت روزآنہ پڑھئے ان شاء اللہ جلد شفا حاصل ہوگی۔
پھر ہم اپنے پھوپھی زاد بھائی دام ظلہ کے گھر گئے، دوپہر کا کھانا کھایا، کچھ بات چیت ہوئی اور ساڑھے تین بجے سلام و دعا کے بعد ان کے صاحبزادے حافظ عمار زید علمہ کے ساتھ بس اسٹاپ کے لیے نکلے، مگر ایک خاص جگہ کی زیارت سے محروم ہورہا تھا، میں نے حافظ صاحب سے کہا اس مخصوص جگہ ہوکر پھر روڈویز چلتے ہیں، انہوں نے گاڑی کا رخ مدرسہ رشیدیہ و خانقاہ رشیدیہ کی دوسری شاخ کی طرف کردی، وہاں پہونچے، داہنی طرف احاطہ میں مسجد اور بائیں طرف مدرسہ، اسی میں وہ مخصوص جگہ حضرت العلام کی چلہ گاہ تھی، بتایا جاتا ہے کہ یہاں چلہ گاہ میں کئی بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا چکے ہیں!
نوٹ: الحمد للہ ہر جگہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لے کر والد ماجد حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ تک، سب کی بارگاہ میں ایصال ثواب کیا، والدہ ماجدہ دام ظلہا، اہل و عیال، بہائی، بہن، قریبی رشتہ دار، تمام احباب اور امت مسلمہ کی صلاح و فلاح کے لئے خصوصی دعا کی گئی، اللہ تعالی اس گنہ گار کی دعا قبول فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
شام چار بجے بس اسٹاپ کی مسجد میں عصر کی نماز پڑھا، ایک گھنٹے کے بعد بنارس کے لئے ایک بس آئی، دھکے مکے کے ساتھ سوار ہوگیا، کیوں کہ کافی وقت کے بعد بنارس کے لئے کوئی بس آئی تھی، اس لئے یہ کیفیت پیدا ہوئی۔

سفر تو قطعۃ من العذاب ہے مگر پھر میں اپنے محترم و معزز مولانا محمود غازی ازہری زید علمہ کا بہت شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنے محبت نامہ و شادی نامہ کے ذریعہ سلف صالحین کے مزارات کی زیارت موقع فراہم کیا اور مولانا سلیم چشتی صاحب کا بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی تمام تر مصروفیات کو چھوڑ کر زیارت کرنے میں بحیثیت گائڈ ساتھ میں رہے نیز اپنے پھوپھی زاد بھائی دام ظلہ اور ان کے اہل خانہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے محبت کے ساتھ اس ناچیز کی ضیافت کی، فجزھم اللہ خیرا کثیرا فی الدارین، آمین۔

طالب دعا:
أزھار أحمد أمجدی أزھری
فاضل جامعہ ازھر، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم: مرکز تربیت افتا، أوجھاگنج، بستی، یوپی۔

٢٥/ ستمبر ٢٠٢١ء

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.