شہر بھدرک اور جمشید پور کا ایک یادگار سفر! (پہلی قسط)
یہ یادگار سفر ۲/ ربیع الاول شریف ١٤٤٤ھ مطابق ۲۹/ ستمبر کو اوجھاگنج سے شروع ہوتا ہے, بستی سے ٹرین کا سفر کرکے کانپور سے راجدھانی ٹرین پکڑنے کا ارادہ تھا مگر بستی والی ٹرین تقریبا ڈیڑھ گھنٹا لیٹ تھی, بستی سے نکلنے کے بعد مزید ٹرہن لیٹ ہوگئی, جس سے کانپور کی ٹرین چھوٹنے کا خطرہ لاحق ہوا, بات چیت کر کے فیصلہ کیا گیا کہ ماروتی سے کانپور پہنچا جائے, جلد ہی محبی مولانا نور محمد صاحب,کوٹیا سے ماروتی کے لیے رابطہ ہوا اور میں نے منکا پور اسٹیشن پر بستی کی ٹرین چھوڑ دی, آپ کی ماروتی جلد ہی اسٹیشن پر پہنچ گئی مگر اب ماروتی سے بھی کانپور وقت پر پہنچنا مشکل لگ رہا تھا, بفضل المولی اچانک ذہن میں آیا کہ راجدھانی ایکسپریس کا اگلا اسٹیشن دیکھا جائے, تو وہ الہ آباد نکلا اور یوں ہم نے ماروتی سے الہ آباد کا رخ کرلیا کیوں کہ یہاں راجدھانی ایکسپریس چھوٹنے کا خطرہ نہیں تھا, اسی درمیان الہ آباد ٹرین پر سوار ہونے سے پہلے دور حاضر کے متحرک و فعال عالم دین حضرت مولانا شاہ نواز مصباحی ازہری صاحب قبلہ, مانک پور شریف سے بات ہوئی, سلام و دعا کے بعد آپ نے اپنے ایک عزیز عالی جناب راشد بھائی سے بات کرکے الہ آباد کے ایک ہوٹل میں کھانے کا بہترین انتظام کرایا, عشا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد کھانے سے سیرابی ہوئی ہی تھی کہ حضرت مولانا شاہ نواز ازہری صاحب کے رخ زیبا کی زیارت ہوئی, فرحت و انبساط کے ساتھ سلام و دعا کے بعد الہ آباد کے ریلوے اسٹیشن کی طرف ہم ایک ساتھ روانہ ہوگیے, اسٹیشن پر تھوڑا انتظار کرنے بعد ہی راجدھانی ایکسپریس آجاتی ہے, ہم جیسے ہی اپنی بوگی میں داخل ہوتے ہیں, ایک وجیہ و طویل قامت والی شخصیت ہمارے سامنے نمودار ہوتی ہے, جن کا ہمیں شدت سے انتظار تھا یعنی نبیرہ قائد اہل سنت حضرت مولانا محمود غازی ازہری صاحب قبلہ, دہلی. مصافحہ و معانقہ کے بعد آپ کو کھانا پیش کیا گیا, کھانے کے درمیان ہی کچھ علیک سلیک کے بعد ہم سب نیند کی آغوش میں چلے گیے.
دوسرے دن صبح سے لے کر شام ساڑھے تین بجے تک ہم علمی,فکری اور سماجی و سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتے رہے, اس درمیان ایک دوسرے کے تجربات سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا.
ساڑھے تین بجے بھدرک پہنچنے کے بعد نبیرہ مفتی اعظم اڈیشا حضرت مولانا سید عرف رسول قدوسی صاحب کے ڈرائیور گاڑی لے کر اسٹیشن پر حاضر تھے, ان کی راہ نمائی میں ہم جلد ہی آنند ہوٹل پہنچ گیے, سیدی عرف رسول صاحب قبلہ کا حکم تھا کہ ہم لوگ بلا تاخیر آپ کے دولت خانہ پر پہنچ جائیں مگر ہم احباب نے فیصلہ کیا اور آپ سے عرض کیا کہ ہم جلد ہی تھوڑا فریش ہوکر اور آرام کرکے آپ کے یہاں حاضر ہوتے ہیں, ابھی ہم ہوٹل ہی میں تھے کہ ایک نوجوان منکسر المزاج عالم دین داعی اتحاد اہل سنت حضرت مولانا عمران مظہر برکاتی, بریلی صاحب سے ملاقات ہوئی, آپ بھی عرس قدوسی میں حاضری کے لیے تشریف لائے تھے.
کچھ راحت لینے کے بعد ہم لوگ عشا کے وقت مدرسہ قدوسیہ حاضر ہوئے, وہاں کی مسجد میں ذکر و اذکار کا ماحول بپا تھا, درمیان میں دخل اندازی مناسب نہیں سمجھی گئی اور ہم لوگ بغل میں موجود دار الافتاء قدوسیہ کا رخ کرلیا, یہ دار الافتاء زمانے کے تقاضے کے مطابق اپنی مثال آپ ہے.
یہاں پر سیدی حضرت مولانا عرف رسول قدوسی صاحب قبلہ, آپ کے والد ماجد شہزادہ مفتی اعظم اڈیشا حضرت مولانا مفتی آل رسول قدوسی حبیبی صاحب قبلہ, حضرت مولانا ثنا علی ازہری صاحب قبلہ اور دیگر احباب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا, خیر و خیریت کے بعد ہم نے نماز عشا ادا کی اور پھر مسجد ہی میں دوبارہ بیان و ذکر کی محفل سج گئی, ہہاں پر ہمیں مزید کچھ نیے چہروں کی زیارت کا شرف حاصل ہوا, پہلے رئیس الاشراف شیخ خالد ناجی بغدادی صاحب قبلہ, دوسے شیخ حمید بن مسعد یمنی صاحب قبلہ, تیسرے شہزادہ رئیس العلماء حضرت مولانا سید جامی اشرف اشرفی صاحب قبلہ, چوتھے محبی مولانا احمد رضا کنواری صاحب قبلہ. اس بزم میں سیدی جامی صاحب قبلہ کا تفصیلی خطاب ہوا, پھر پہلی بار مصر سے آنے کے بعد رات کی تاریکی میں شیخ یمنی صاحب قبلہ کی قیادت میں لا إله إلا الله، الله هو اور حسبا الله و نعم الوكيل کی ضرب لگانے کا موقع ملا اور بڑا لطف بھی آیا. شیخ بغدادی کی دعا پر اس بیان و ذکر کا ماحول اختتام پذیر ہوا. اس کے بعد خلیفہ مجاہد ملت مفتی اعظم اڈیشا سید عبد القدوس علیہ الرحمۃ و الرضوان کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سیدی مولانا جامی اشرف صاحب قبلہ کی دعا پر آمین اور دعا کرنے کا شرف حاصل ہوا.
پھر ہم شہزادہ مفتی اعظم اڈیشا صاحب قبلہ کے دولت خانہ پر پہنچے, یہاں اپنے وقت کے عظیم مفتی فقیہ النفس حضرت علامہ مولانا مطیع الرحمن مضطر دام ظلہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا, کھانے سے پہلے, کھانے کے درمیان اور کھانے کے بعد کچھ علمی گفتگو ہوتی رہی, یہاں پر ایک بات قابل ذکر ہے کہ حبیب من مولانا شاہ نواز مصباحی ازہری صاحب قبلہ کے سید سراواں سے متعلق استفسار پر آپ نے فرمایا کہ: میری تحقیق کے مطابق سید سراواں والوں کے کفر فقہی میں کوئی کلام نہیں.
اس کے بعد تقریبا بارہ بجے ہم نے اہل خانہ سے اجازت لی اور ہوٹل آگیے, ارادہ تھا کہ جلد ہی سو جائیں گے مگر جب قوم کا درد رکھنے والے علما موجود ہوں تو نیند از خود کافور ہوجاتی ہے, ہوا یہی نبیرہ قائد اہل سنت مولانا محمود غازی ازہری صاحب قبلہ کا درد و کرب بعض قوم مسلم کی ارتداد کے تعلق سے سامنے آیا, یہ ایسا درد ہے جس کی کسک, ابن فقیہ ملت, مولانا شاہ نواز ازہری صاحب, مولانا عمران برکاتی صاحب اور ہر احساس کرنے والا مسلم احساس کرتا آرہا ہے, بہر کیف ارتداد کے اسباب, حل پر تبادلہ خیال میں پوری رات گزر گئی اور سب نے اخیر میں فیصلہ کیا کہ تبالہ خیال سے کام نہیں چلےگا بلکہ عملی اقدام ضروری ہے, اس لیے ہم نے مل کر فیصلہ لیا کہ عن قریب عملی اقدام کے لیے علما کی ایک اہم میٹنگ بلائی جائے, پھر مشترکہ فیصلے کے بعد ہر ممکن میدان عمل میں اتر کر کام کیا جائے, اللہ تعالی اسے اپنی تمامیت کو پہنچائے, آمین. پھر ہم نے فجر کی نماز پڑھی اور نیند کی آغوش میں چلے گیے.
ارادہ کے مطابق ہم لوگ تقریبا گیارہ بجے بیدار ہوئے اور ناشتہ کے بعد سیدی عرف رسول قدوسی صاحب قبلہ کی بھیجی ہوئی گاڑی سے حضور مجاہد ملت علیہ الرحمۃ, دھام نگر کی بارگاہ میں حاضری کے لیے روانہ ہوگیے, بیس پچیس منٹ میں ہم لوگ حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوگیے, دعا کرنے کے بعد ایک اہم عریضہ پیش کرکے ہم لوگ واپس بھدرک آگیے, پھر سید صاحب قبلہ کے گھر دوپہر کا کھانا ہوا, اس کے بعد مدرسہ قدوسیہ کے بر آمدہ میں موے مبارک شریف کی زیارت کرنے کا شرف حاصل کیا, اس کے بعد ہم سب ہوٹل تھوڑا آرام کرنے کے لیے واپس آگیے.
تقریبا رات کے آٹھ بجے ہم لوگ سید صاحب قبلہ کے گھر پہنچے, وہاں عشائیہ کے بعد ہم لوگ اسٹیج پر پہنچ گیے, ایک دو لوگوں کی نعت خوانی و خطاب کے بعد شیخ شاہ نواز ازہری صاحب قبلہ, شیخ محمود غازی ازہری صاحب قبلہ اور ابن فقیہ ملت کا اصلاحی بیان ہوا, اس کے بعد فتاوی آل رسول اور بعض دیگر کتب کا اجرا عمل میں آیا, پھر اجازت و خلافت کا سلسلہ شروع ہوا, شیخ یمنی, شیخ بغدادی صاحبان نے سیدی مفتی آل رسول حبیبی صاحب قبلہ اور عرف رسول صاحب قبلہ کو اجازت و خلافت سے نوازا, نیز شیخ بغدادی نے سیدی مفتی آل رسول حبیبی کو اپنا خاص جبہ بھی عنایت فرمایا, اس کے بعد سیدی مفتی آل رسول حبیبی صاحب قبلہ نے نبیرہ قائد اہل سنت صاحب قبلہ, مولانا شاہ نواز ازہری صاحب قبلہ اور مولانا ثنا علی ازہری صاحب قبلہ کو اجازت و خلافت سے نوازا, اس کے بعد دو حفاظ کی دستار بندی عمل میں آئی۔
پھر رات ڈیڑھ بجے قل شریف و دعا کے بعد خطیب ہند حضرت مولانا امین القادری صاحب قبلہ کا پر مغز اصلاحی بیان ہوا، تقریر سے پہلے آپ ہی کے ذریعے نبیرہ مفتی اعظم اڈیشا حضرت مولانا سید عرف رسول صاحب قبلہ، عزیز العلماء کے لقب سے نوازے گیے، خطیب ہند صاحب قبلہ کی تقریر کے بعد ہم لوگ اسٹیج چھوڑ کر دار الافتاء آگیے, پھر حضرت مولانا عمر نورانی صاحب, گیا کا خطاب ہوا, امید ہے کہ عمدہ ہی ہوا ہوگا, پھر دعائیہ کلمات پر یہ علمی و اصلاحی پروگرام اختتام پذیر ہوا.
نوٹ: اس پروگرام کے حوالے سے انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ تقریبا سبھی بیانات اصلاحی اور قوم کی ضرورت کے مطابق ہی ہوئے, اللہ تعالی ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے, آمین.
پروگرام کے اختتام کے بعد سید صاحب قبلہ کے گھر آکر ہماری کچھ مزید گفتگو ہوئی, سید صاحب قبلہ سے میں نے عرض کیا کہ خانقاہی انتظام و انصرام کے ساتھ آپ کے ادارے میں بہترین تعلیم و تربیت کا بھی انتظام ہونا چاہیے, تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مضبوط ابتدائی درس نظامی کی تعلیم کے ساتھ ان شاء اللہ دار التصنیف, دار التبلیغ اور دار الامامۃ قائم کرنے کا ارادہ ہے, یہ سن کر دل یہ کہنے پر مجبور ہوگہا کہ ان شاء اللہ یہ اپنے وقت کا بڑا ہی خوش آئند اقدام ہوگا.
چوں کہ دنیا کی ہر لقا میں جدائی مسلمات سے ہے, اس لیے اب اس لقا کے بعد بھی جدائی کا وقت آہی گیا, نماز فجر کے بعد الواداعیہ ہوا اور ہم سب سید صاحب قبلہ کی انتظام کردہ گاڑی سے دیار قائد اہل سنت جمشید پور کی طرف روانہ ہوگیے.
اخیرا ہم سب دعا گو ہیں کہ للہ تعالی اس سفر, ذکر و اذکار کے پروگرام اور علمی و فکری مباحث کو قبول فرمائے, بالخصوص شہزادہ مفتی اعظم اڈیشا, نبیرہ مفتی اعظم اڈیشا, دیگر شہزادگان, نبیرگان, محبین و متوسلین کی خدمات و اخلاق حسنہ کو قبول فرماکر ان کے دست و بازو کو مزید مضبوط فرمائے اور اہل سنت و جماعت کے تمام افراد بالخصوص علما کو تمام زمینی و آسمانی بلاؤں سے محفوظ رکھے, آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم.
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و بانی ٹرسٹ فلاح ملت, اوجھاگنج, بستی, یو پی.
٦/ ربیع الاول شریف ١٤٤٤ھ مطابق ٣/ اکتوبر ۲۰۲۲ء



