موبائل نمبر : 8318177138
ہر مسلمان مرد و عورت پر بقدر ضرورت علم دین حاصل کرنا فرض ہے (سنن ابن ماجہ)
بقدر حاجت مدارس اسلامیہ کا عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنا وقت کی اہم ضرورت (ازہری)

زیر نگرانی
جانشین فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی ازہار احمد امجدی ازہری کان اللہ لہ
فاضل جامعہ ازہر، مصر، شعبہ حدیث، ایم۔اے۔
استاذ و مفتی مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی، یو پی، انڈیا
ہدیہ تشکر
ٹرسٹ فلاح ملت اپنے تمام معاونین، مخلصین، محبین بالخصوص امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں دام ظلہ و کرمہ، سجادہ نشیں خانقاہ مارہرہ مطہرہ شریف، شہزادہ امین ملت سید امان میاں دام فضلہ، ڈائریکٹر اسلامک ریسرچ سینٹر، جامعۃ البرکات، علی گڑھ، خطیب ذیشان حضرت مولانا مسعود احمد برکاتی مصباحی زید مجدہ، استاذ جامعہ اشرفیہ، مبارکپور، عالم نبیل حضرت مولانا محمد اسلم نبیل ازہری زید علمہ، استاذ جامعہ احسن البرکات، مارہرہ شریف، فاضل جلیل ڈاکٹر محمد نعیم مصباحی زید علمہ، دہلی، عالم نبیل ریسرچ اسکالر محمد قیام الدین نظامی مصباحی زید علمہ، دہلی، محترم المقام لائق صد احترام عالی جناب انجم ابراہیم، عالی جناب عاشق علی اور عالی جناب انصاف محمد صاحب دام کرمہم، امریکہ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے، اللہ تعالی ان تمام حضرات کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے۔
ٹرسٹ فلاح ملت کا مختصر تعارف
الحمد للہ، فلاح ملت (ایف ایم)ٹرسٹ ایک عوامی اور غیر حکومتی ادارہ ہے جس کی سرپرستی داماد فقیہ ملت حضرت مولانا ریاض احمد برکاتی زید مجدہ، شیخ الحدیث جامعہ حنفیہ، بستی فرمارہے ہیں، اس ٹرسٹکا قیام مفتی ازہار احمد امجدی ازہریکے ہاتھوں سنہ 2016 بمقام اوجھا گنج، ضلع بستی میں ہوا، موصوف فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی (رحمہ اللہ) کے چھوٹے صاحبزادے اور ان کے خلیفہ ہیں۔ آپ کے اس اقدام کا محرک والد گرامی کی علمی وفقہی وراثت کی پاسداری اور اس کی نشاۃ ثانیہ ہے۔
مزید برآں، اس کے قیام کا مقصد اسلامی تعلیمات و روایات کی روشنی میں مذہبی وسماجی تعلیم کا رواج اور اس کی عملی بیداری کے خطوطواضحکرنا ہے۔ ایک طرف جہاں یہ قوم کی مذہبی اصلاح وتربیت کا داعی ہے، وہیں دوسری طرف دیگر سماجی امور جیسے تعلیم، پرامن بقائے باہم، آپسی بھائی چارہ، تسامح اور بین شخصی احترام کے اصول و اقدار کا علم بردار ہے۔
ماضی میں بھی، دینی وسماجی اور ثقافتی اداروں نے برادران وطن کے بیچ سماجی قدروں، مذہبیروح اور تہذیبی وثقافتی روایات کی ترویج واشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نتیجتا انھوں نے ایک ساتھ مل کر شانہ بشانہ پوری قوت سے اپنے ورثے کی حفاظت وصیانت کی۔ بلا شبہ حضرت مفتی جلال الدین احمد امجدی کاعظیم ورثہ ان کی گراں قدر کتابیں، فتاوے اور ایک اعلی دینی تعلیمی ادارہ “مرکز تربیت افتا” ہے جس میں عمدہ اسلامی تعلیم، خصوصا “تربیت فتوی نویسی” کا بہترین انتظام و انصرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ تشنگان علم ومعرفتکی ترجیحی منزل ہے۔
مفتی ازہار احمد امجدیجامعہ اشرفیہ کے شعبہ فقہ اور جامعہ ازہر مصر کے شعبہ علم حدیث اور علوم اسلامی کے تربیت یافتہ ہیں ۔دعوت وتبلیغ کے علاوہ مذہبیات سے متعلق آپ کی ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اسلامیات کے میدان میں آپ کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئےجامعہ ازہر مصر کی طرف سے سنہ 2017 کا “علمی ایوارڈ” پیش کیا گیا۔
مندرجہ بالا امور کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئےالحمد للہ، موصوف نے مذکورہ ٹرسٹ کی بنا ڈالی۔ ٹرسٹ کے اہداف، مقاصد، پیغامات اور اب تک کی سرگرمیاں درج ذیل ہیں:
اغراض و مقاصد
(۱)مسلمانوں کے دینی عقائد اور بنیادی حقوق کے تحفظ کی خاطر جدوجہد کرنا (۲) عوام کو بلا استثنا انصاف اور روزگاری کی فراہمی، ہر علاقے کے لیے لازمی تعلیم ،غریبوں کے لیے مفت تعلیم ،علاج اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حقوق نسواں کے تحفظ کی سعی کرنا (۳) مذہب اہل سنت و جماعت کی نشر و اشاعت کے لیے وسائل کی فراہمی ،شہرودیہات بالخصوص شہر بستی و اطراف بستی میں اہل سنت و جماعت کے افکار کی نشر و اشاعت (۴) مذہبی درسگاہوں کو دینی و عصری علوم سے ہم آہنگ کرکےشاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کی کوشش کرنا، دیہاتوں اور شہروں میں دینی و عصری تقاضوں کو پورا کرنے والے ابتدائی تعلیم کے لیے مدارس و اسکول قائم کرنا (۵) جس شہر و دیہات میں ابتدائی تعلیم کے لیے مدارس ہیں مگر وہ دینی و عصری تقاضوں کی رعایت سے خالی ہیں، انہیں دینی و عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنااور ان کی تعلیمی، اخلاقی اور مالی کمیاں دور کرکے ان کو صحیح راستے پر گامزن کرنا(۶) مسلمانون میں علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت، نونہالان اسلام کوعلوم دینیہ سے آراستہ کرنے کا شوق دلانا، عام طبقہ سے جہالت،بدعات و خرافات اور بے دینی کے اثرات کو ختم کرنا (۷)کالیج کے طلبہ اور صرف عصری علوم سے آراستہ لوگوں کے لیے آن لائن و آف لائن، ضروری دینی تعلیم کا انتظام و انصرام کرنا(۸) مختلف علاقوں میں حسب ضرورت مساجد کا قیام (۹) تحریری اور تقریری مقابلوں کا اہتمام کرنا (۱۰) اہل سنت و جماعت کو فروعی مسائل میں تشدد سے دور رہنے کی ترغیب دلانا(۱۱)سوالات کے جوابات اورمذہب حنفی کے مطابق مقدمات کے فیصلوں کے لیے دارالافتاء اور دارالقضاء قائم کرنا (۱۲) دینی و عصری علوم کی قدیم و جدید تصنیفات کی نشرو اشاعت کے لیے دارالکتب اور دارالمطالعہ قائم کرنا (۱۳) ہفتہ واردرس قرآن، حدیث اور فقہ (۱۴) تربیتی پروگرام کا انعقاد (۱۵) سالانہ صوبائی ملکی اور بین الاقوامی روحانی اجتماعات کا انعقاد (۱۶) جشن عیدمیلادالنبی ﷺ، اہل بیت عظام، صحابہ کرام اور بزرگان دین کی یاد میں محافل کا انعقاد (۱۷) سماجی و فلاحی کاموں میں حصہ لینا مثلامخلص ڈاکٹروں کی مدد سے ملک کے پسماندہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ قائم کرنا جس سے بے شمار مریضوں کو مفت علاج کی سہولت مہیا کی جا سکے(۱۸) مسلم سماج میں جہیز کے مطالبہ کی لعنت وغیرہ کو ختم کرکے ان کی شادی کو آسان کرنا (۱۹) غیر مسلم کے درمیان اسلام کی صحیح صورت پیش کرکے ان کو اسلام میں داخل ہونے کا شوق دلانا۔
ٹرسٹ فلاح ملت کا پیغام
(۱)اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر حال میں لازم (۲) اللہ رب العزت اور آقاے دوجہاں ﷺ سے حد درجہ محبت (۳) تقویٰ اور پرہیزگاری (۴) احساس ذمہ داری (۵) اخوت و محبت (۶) خلق خدا کی خدمت (۷) روحانیت اور صداقت (۸ ) اتحاد، ایثاراور اخلاص (۹) تعمیر اور اصلاح معاشرہ (۱۰) زبانی خرچ کے بجاے عملی زندگی کا حد درجہ اہتمام (۱۱) قول و عمل میں اتفاق۔
موجودہ سرگرمیاں
(۱)فلاح ملت انسٹی ٹیوٹ (نسواں) بیاد گار: مخدومہ اہلیہ فقیہ ملت رحمہ اللہ کا بمقام اوجھاگنج بتاریخ ۲۷؍جمادی الاخری ۱۴۳۷ھ مطابق ۶؍اپریل ۲۰۱۶ء میں قیام ہوچکا ہے، جس میں جماعت اولی اور ثانیہ کی چند بچیاں زیر تعلیم ہیں، ان شاء اللہ اس مدرسہ میں آئندہ سال عید بعد ۲۰۱۸ء سے انگلش، حساب، سائنس اور ہندی پڑھانے کا بھی مزید بہترین انتظام کیا جائےگا تاکہ مسلم بچیاں عالمیت کے ساتھ ہائی سکول اور انٹر کی بھی عمدہ تعلیم حاصل کرکے دینی و عصری ہر طرح سے مضبوط ہوکر پوری دنیا میں دین متین کی بیش بہا خدمت انجام دے سکیں (۲)شہر بستی یا اطراف بستی میں کسی مناسب جگہ پر لڑکوں کے لیے بھیدینی و عصری علوم سے ہم آہنگ فلاح ملت انسٹی ٹیوٹ کے قیامکی کوشش جاری ہے (۳)قرب و جوار میں دین و سنت کی نشر و اشاعت کا بھی کام جاری ہے، ان شاء اللہ آئندہ مخلصین و محبین کے تعاون و کوشش سے اسے مزید وسیع کرنے کی سعی مسعود کی جاتی رہے گی (۴) چھوٹے پیمانے پر یتیم اور غریب بچوں اور بچیوں کی مدد کرنے کی ابتدا ہوچکی ہے۔
نوٹ: آپ تمامی حضرات سے گزارش ہے کہ کے زیادہ سے زیادہ ممبر بن کر اس کا ساتھ دیں، ٹرسٹ فلاح ملت کے اغراض و مقاصد اور قواعدو ضوابط کی مکمل پابندی کریں، اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق کرنے کی کوشش کریں، جو کام کریں وہ دل و جان سے کریں، ہرجائز کام میں دوسرے ساتھیوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں، کسی کام میں یا کسی بات میں ذاتی انا درمیان میں نہ لائیں، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ میں اس تنظیم کو اپنے نیک مقاصد میں اعلی کامیابی عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
فلاح ملت انسٹی ٹیوٹ وقت کی اہم ضرورت
مدارس اسلامیہ کے طلبہ کا دور حاضر میں عصری علوم کی طرف رجحان کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، تقریبا ہر ادارہ کے ذمہ داران و مدرسین جانتے ہیں کہ عصری علوم کی طرف توجہ دینے والے مدارس اسلامیہ کے طلبہ دو گروہ میں بٹے ہوئے ہیں، ایک قسم کے بیشتر طلبہ مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم ہائی اسکول، انٹر اور بی اے وغیرہ کی تیاری کرکے امتحان دیتے ہیں، دوسری قسم فارغین کی ہے، ان کی ایک اچھی تعداد فارغ ہونے کے بعد عصری اداروں کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور افسوس یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں طلبہ ہی کا نقصان ہوتا ہے، پہلی قسم کے اکثر طلبہ کا مقصد صرف تھوڑی بہت تیاری کرکے کسی طرح ہائی اسکول، انٹر اور بی اے وغیرہ پاس کرلینا ہوتا ہے، جس کا اچھا نتیجہ عملی میدان میں کالعدم یا بہت ہی کم ہوتا ہے، جو خود طلبہ اور ملت اسلامیہ دونوںکے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، اور اس عصری تعلیم کی تگ و دو میں ان طلبہ کی دینی تعلیم جو متاثر ہوتی ہے وہ الگ! دوسری قسم کے طلبہ فارغ ہونے کے بعد ان کی عمر عموما چوبیس (۲۴) سے اٹھائیس (۲۸) کے درمیان ہوتی ہے، اب یہ عصری علوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، بی اے، ایم اے، ایم فیل اور پی ایچ ڈی مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کتنے طلبہ عمر دراز وغیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے مقصد تک پہونچنے سے پہلے ہی تعلیم سے رشتہ توڑ لیتے ہیں، اور جو افراد تعلیم کی تکمیل کرتے ہیں، تکمیل تک ان کی عمر تینتیس (۳۳) سے سینتیس (۳۷) کے درمیان ہوجاتی ہے اور رزلٹ خراب ہوا تو سینتیس (۳۷) سے چالیس (۴۰) کے درمیان کی عمر ہوجاتی ہے، اس طرح سے اس قسم کے طلبہ کی تقریبا دو تہائی زندگی تعلیم حاصل کرنے میں ہی گزر جاتی ہے! ! اب اس کے بعد وہ میدان عمل میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں، کوشش، عملی زندگی اور اس زندگی کے کچھ اچھے نتائج ملتے ملتے اپنی زندگی کے آخری کگار پر آجاتے ہیں، زندگی کے اس مرحلہ پر پہونچ چکے ہوتے ہیں جب وہ تجربات کی روشنی میں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر کرنے کی وہ قوت، وہ حوصلہ اور وہ جزبہ نہیں رہ جاتا جو اس کے اندر عصری علوم کی طرف متوجہ ہونے کے وقت ہوتا ہے، نیز اس قسم کے افراد کا داخلہ صرف دو چند مخصوص شعبہ جات جیسے عربی، اردو اور تاریخ وغیرہ ہی میں ہوسکتا ہے اور باقی عصری شعبہجات ان کے اور قوم و ملت کے مستقبل سنوارنے کے لیے بند ہوتے ہیں؛ اس لیے دور حاضر میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے یکساں ایسے مدارس اسلامیہ کی سخت ضرورت ہے جو دینی و عصری ہم آہنگی کے جامع ہوں، جن میں اکثر دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا یوں انتظام کیا جائے کہ طلبہ عالمیت کے کورس کے ساتھ ساتھ انٹر میڈیٹ کا بھی کورس مکمل کرلیں،اس کے بعد جو طلبہ مزید دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں فقہ، حدیث وغیرہ کسی فن میں تخصص کراکے فضیلت کی دستار دے دی جائے، اس طرح سے فارغ ہونے کے بعد یہ کسی ایک فن میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آراستہ ہونے کی وجہ سے معتدبہ دینی، ملی و قومی خدمات انجام دے سکیں گے،اور جو طلبہ مزید عصری تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیںوہ عصری اداروں کی طرف رجوع کرکے باآسانی داخلہ لے سکتے ہیں اور ہائی لیویل کی تعلیم کی تکمیل کرکے اپنے اہل و عیال اور قوم و ملت کو خاطر خواہ عصری و دینی فائدہ پہونچانے کی سعی مسعود کرسکیں گے۔
دینی و عصری علوم کی ہم آہنگی:
فوائد:(۱) اِنٹر تک دینی و عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے پاس ہر دو کی صرف مارکشیٹ ہی نہیں بلکہ مارکشیٹ کے ساتھ ہر دو میدان کی کافی حد تک تعلیمی لیاقت بھی ہوگی (۲) عالمیت کا کورس کرنے کے بعد دینی و عصری تعلیم کا ہر دروازہ کھلا رہے گا، وہ مفتی، محدث اور ادیب وغیرہ بن سکتا ہے، اور اگر چاہے تو ڈاکٹر، پروفیسر، انسپیکٹر، ڈی ایم، بزنیس مین، آئی اے ایس، پی سی ایس، جج اور لائر وغیرہ جیسی ہر طرح کی اعلی پوسٹ بھی حاصل کرسکتا ہے (۳) اس طریقہ کار پر تعلیم حاصل کرنے والا مسلم بچہ اگر صرف انٹر تک ہی پڑھائی کرتا ہے یا مزید دینی تعلیم حاصل کرتا ہے؛ تو وہ خالص عالم دین ہی نہیں ہوگا بلکہ بقدر ضرورت عصری علوم: انگلش، میتھ، سائنس اور ہندی وغیرہ سے بھی آراستہ ہوگا، جن کے ذریعہ وہ با آسانی اپنی دنیوی زندگی کافی حد تک خود ہی ہینڈل کرسکے گا (۴) اس طرح سے تعلیم حاصل کرکے ایک مسلم بچہ جب کسی اعلی دنیوی پوسٹ پر پہونچے گا؛ تو یاد رہے کہ وہ خالص دنیادار نہیں ہوگا اور نہ ہی قرآن، حدیث، عربی، اردو اور دینی مسائل سے بالکل اپاہج ہوگا بلکہ ان شاء اللہ ان ساری چیزوں کا علم رکھنے کی وجہ سے مخلص عالم دین بھی رہے گا (۵) اس طرح کے مسلم افراد جب دنیوی اعلی پوسٹ پر کثرت سے ہونگے؛ تو حکومت پر دباؤ ہوگا اور کوئی بات منوانے میں آسانی ہوگی، نیز اگر اسلام یا اس کے ماننے والوں یا اس کے کسی قانون پر اعتراض ہوتا ہے؛ تو یہ لوگ فکری و قانونی جواب وقت کی مناسبت سے بہتر طریقہ سے دے سکیں گے، یہ کام خالص علما یا خالص دنیوی تعلیم والوں سے ہونا بہت مشکل امر ہے (۶) ان شاء اللہ یہ افراد دنیوی بڑی پوسٹ حاصل کرنے کے بعد بھی خالص علما کے ساتھ شانہ بشانہ رہ کر اسلام و سنیت کی نشر و اشاعت کے لیے اپنے اپنے میدان میں پیش پیش رہیں گے (۷) اس طرح کے افراد زیادہ ہونگے؛ تو غیروں میں بھی مسلمانوں کی شخصیت مسلم ہوگی اور مسلم قوم کا معیار دین و دنیا کے ساتھ بلند و بالا ہوگا (۸) ایک مسلم ان شاء اللہ دین و دنیا کے ساتھ کم عمری ہی میں اعلی پوسٹ حاصل کرلے گا اور اسے قوم و ملت کی خدمت کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے گا۔
دینی و عصری علوم کی ہم آہنگی:
نقصانات:(۱) اس طرز کی پڑھائی پر دینی و عصری علوم دونوں متاثر ہوسکتے ہیں اور ان دونوں میں کمی آسکتی ہے! اس طرح مقصد فوت ہوسکتا ہے!
حل: یقینا خالص دینی یا عصری علوم حاصل کرنے کے بالمقابل اس صورت میں دینی و عصری دونوں تعلیم متاثر ہوسکتی ہے اور نقصان ہوسکتا ہے، مگر اساتذہ مخلص و جفاکش اور طلبہ مخلص ہونے کے ساتھ محنتی بھی ہوں تو یہ نقصان بھی نہیں ہوگا، اور اگر نقصان ہوا بھی تو یہ نقصان بہت کم ہوگا، جسے دینی تعلیم والے تخصص کرکے اور عصری علوم والے مزید عصری اعلی تعلیم حاصل کرکے باآسانی دور کرسکتے ہیں۔
(۲) دینی و عصری دونوں علوم پڑھانے کی وجہ سے گھنٹیاں بہت زیادہ ہونگی، بچے پورے دن پڑھنے کی وجہ سے تھکے ہونگے اور وہ اپنا ہوم ورک صحیح سے نہیں کرپائیں گے۔
حل: خالص اسلامی مدرسہ میں بچے سات گھنٹیاں کرتے ہیں، ان دونوں علوم کے لیے ان سات گھنٹیوں پر صرف ایک گھنٹی کا اضافہ کرکے آٹھ گھنٹی کردی جائے، پانچ گھنٹی دینیات اور تین گھنٹی عصری ہوں، جو کتابیں زیادہ اہم ہوں، ان کی گھنٹیاں مسلسل رہیں اور جو زیادہ اہم نہ ہوں، ان کی گھنٹیاں ہفتہ میں تین دن یا دو ہی دن رہیں، اس طرح سے طلبہ پر بار بھی نہ ہوگا، بہت زیادہ تھکن کا بھی احساس نہیں ہوگا اور وہ محنت و لگن کے ساتھ اپنا ہوم ورک بھی کرلیں گے۔
(۳) اس طر ز پر پڑھانے کی وجہ سے انہیں ہر سال چار چار امتحان دینا ہوگا اور یہ طلبہ کے لیے کافی مشکل و پریشانی کا سبب بن سکتا ہے!
حل: پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں گے تو نائنتھ تک ہر سال صرف دو مرتبہ ہی امتحان دینا پڑےگا، وہ اس طرح سے کہ دینی و عصری علوم کا ششماہی و سالانہ امتحان ایک ساتھ ہوا کرے گا، البتہ ہائی اسکول اور اِنٹر کے امتحان کی جب باری آئے گی؛ تو اس وقت ہر سال چار امتحان دینا پڑے گا، مگر مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے اچھی طرح سے جاتنے ہیں کہ بہت سارے مدارس میں طلبہ چار چار امتحان: سہ ماہی، ششماہی، نوماہی اور سالانہ امتحان دیتے ہیں اور ان کی جفاکش ذات پر کچھ اثر نہیں پڑتا، اگر تگ و دو کی جائے؛ تو ان شاء اللہ اس طرز پر بھی چار چار امتحان ہونے کے باوجود ان کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
(۴) اس طرح مدارس میں ہائی اسکول اور انٹر کے امتحان کے ذریعہ مارکشیٹ حاصل کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟! یہ تو عالم و فاضل کرکے ماکرشیٹ حاصل کرنے کی طرح ہوگا، جس کی گورمنٹ کی نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہوگی!
حل: ہائی اسکول اور اِنٹر کا امتحان مدرسہ میں دلاکر اس کی مارکشیٹ نہ دی جائے بلکہ کسی خالص عصری کالیج سے معادلہ کراکر، وہاں امتحان دلایا جائے، اس طرح سے ان طلبہ کی طرف سے ہائی اسکول اور اِنٹر کی حاصل کی گئی مارکشیٹ کی اہمیت و افادیت وہی رہے گی جو ایک خالص عصری کالیج کے طلبہ کی مارکشیٹ کی ہوتی ہے۔
(۵) جو لڑکے عالمیت اور اِنٹر میڈیٹ کرکے خالص عصری یونیورسٹیز کا رخ کر یں گے، عموما ان یونیورسٹیز کا ماحول خراب ہونےکی وجہ سے طلبہ کے بے راہ رو ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہے، یہ چیز بھی اس طرح کے مدرسہ کے مقاصد پر پانی پھیر دے گی۔
حل: یہ بات بجا ہے، مگر آج خالص مدارس میں پڑھنے والے طلبہ بھی کثیر تعداد میں خالص عصری یونیورسٹیز کی طرف رخ کر رہے ہیں، ان کی توجہ کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اب ہم انہیں چاہ کر بھی نہیں روک سکتے؛ اس لیے اب اس کا رونا رونا بے کار ہے، آہ و فغاں کرنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبہ کو بگڑنے کے اسباب کم ملیں اور وہ اعلی دنیوی تعلیم بھی حاصل کرلیں؛ تو علما، پیران کرام اور قوم مسلم کو اپنے بچوں کے لیے ان خالص عصری یونیورسٹیز کا بدل پیش کرنا ہوگا اور پیر طریقت خانقاہ برکاتیہ کے پھول امین ملت دام ظلہ و کرمہ کے نقش قدم پر چل کر ان کے قائم کردہ البرکات انسٹیٹیوٹ، علی گڑھ کی طرح ہر ہر ضلع یا کم از کم ہر ہر اسٹیٹ میں انتظام کرنا ہوگا بلکہ اگر ممکن ہو؛ تو اس سے بڑھ کر بھی انتظام و انصرام کیا جائے۔
(۶) اس صورت میں بہت ممکن ہے کہ سارے طلبہ ہائی لیویل کے عصری علوم حاصل کرنے کے لیے خالص عصری یونیورسٹیز ہی کا رخ کرلیں؛ تو علماے دین کی تعداد پر اثر پڑے گا اور یہ بھی اس طرح کے مدارس کے مقاصد پر ایک طرح سے قدغن ہوگا، جو امت مسلمہ کے لیے مضر ہوگا!
حل: اولا: اگر عمدہ تربیت کی جائے، دینی و عصری ہر دو علوم کے فوائد و ضروریات بتائی جائیں؛ تو ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا، اور جس طرح طلبہ یونیورسٹیز کا رخ کریں گے، اسی طرح ان شاء اللہ فقہ و حدیث وغیرہ میں تخصص کرنے کی طرف بھی متوجہ ہونگے، ثانیا: اگر ایسا برسبیل تنزل ہوتا ہے؛ تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ دوسرے مدارس اسلامیہ خالص علماے دین تیار کررہے ہیں، جن سے ان شاء اللہ تعداد کی کمی کا مداوا ہوجائے گا۔
ایک شبہ: اس طرز تعلیم کو دیکھ کر بہت سارے مخلصین و محبین کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے اور تامل ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے مدرسہ میں زکاۃ و صدقات واجبہ دینا جائز ہوگا یا نہیں؛ کیوں کہ اس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی دی جائے گی۔
شبہ کا ازالہ: محبین و مخلصین کا تامل سر آنکھوں پر ہے، مگر میں بتانا چاہوں گا کہ اس طرح کے مدرسہ میں زکاۃ و صدقات واجبہ دینا اس وقت ناجائز ہے جب اس میں اکثر تعلیم عصری تعلیم ہو، مگر یہاں اس مدرسہ میں ایسا نہیں؛ کیوں کہ اس میں اکثر تعلیم دینی تعلیم اور یہی اصل کی حیثیت رکھتی ہےاور عصری تعلیم دینی تعلیم سے کم ہے اور وہ فرع کی حیثیت رکھتی ہے؛ لہذا اس طرح کے مدرسہ میں زکاۃ و صدقات واجبہ لگانا جائز و درست ہے۔
تنبیہات:(۱) گھر کے ذمہ داران پر لازم ہے کہ بچوں کے کلاس اور ہوم ورک کے اوقات حتی الامکان انہیں گھریلو اور دیگر کاموں سے فارغ رکھیں تاکہ بچے اپنی پڑھائی عمدہ طریقہ سے کرکے اپنے اور والدین کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرسکیں، اللہ پر اعتمادپھر قربانی، صبر اورجہد مسلسل ہی ایک مسلم کی کامیابی کا اہم راز ہے، جس کا آج قوم مسلم میں عموما فقدان نظر آتا ہے، کامیاب ہونا ہے؛ تو قربانی دینی پڑےگی!
(۲) اس طریقہ کار کو اختیار کرکے صرف لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاںبھی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں اور اپنے آپ کو دینی و عصری علوم سے مزین کرکے اپنےبچوں اور اپنی قوم کے افراد کے کردار کو سنوار سکتی ہیں، لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان تعلیمی میدان میں تفریق کرنے کی چنداں ضرورت نہیں!
(۳)اس طرح کے اقدام کے بعدقوم مسلم کو چاہئے کہ وہ نتیجہ اخذ کرنے میں جلد بازی نہ کرے، ورنہ بے قراری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گااور قوم مسلم آگے بڑھنے کے بجاے پیچھے چلی جائے گی؛ کیوں کہ جب کمیاں قوم میں زیادہ ہوں؛ تو ان کی معتد بہ اصلاح چند دنوں، چند مہینوں، چند سالوں میں نہیں بلکہ نصف صدی، یا ایک صدی یا کئی صدی کے بعدہوتی ہے، کچھ نہ کچھ؛ تو ان شاء اللہ ہمیشہ فائدہ ہوگا، مگر وہ فائدہ جو اکثریت میں ہو، اس کے لیے کافی وقت درکار ہے؛ اس لیے جلد بازی مناسب نہیں، نیز قوم مسلم کو کبھی یہ سوچ کر کام نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری زندگی ہی میں سب کچھ پورا ہوجائے بلکہ یہ سوچ کر کرنا چاہئے کہ یہ کام قابل رشک ثمر بار ہو، چاہے کوشش کرنے والے کی زندگی میں یا اس کی زندگی کے بعد ہی کیوں نہ ہو!
اسی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر جانشین فقیہ متل مفتی ازہار احمد امجدی دام ظلہ نے حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کے دیار اوجھاگنج، بستی میں فلاح ملت انسٹی ٹیوٹ (نسواں) کی بنیاد رکھ دی ہے جس میں عالمیت کی دو جماعت کی تعلیم بھی جاری ہے، ان شاء اللہ اسی طرح لڑکوں کے لیے بھی فلاح ملتکا قیام عن قریب عمل میں آئے گا، مخلصین و محبین سے امید قوی ہے کہ وہ اپنا قیمتی تعاون پیش کرکے قوم مسلم کے لڑکوں اور بیٹیوں کو دینی و عصری علوم سے مزین ہونے کے اسباب مہیا کریں گے اور پھر ان کے ذریعہ اولاد کی عمدہ تربیت ہوگی جو اولاد مسلم کو مستقبل سنوارنے میں کافی حد تک معاون و مددگار ثابت ہوگی۔
فلاح ملت کا تعلیمی خاکہ:(۱)اعدادیہ تا عالمیت کے ساتھ ہائی اسکول اور انٹیر میڈیٹ کی تعلیم (۷ سال) (۲) تخصص فی الفقہ (۳ سال) (۳) تخصص فی الحدیث وغیرہ (۳ سال)(۴) کمپیوٹرسینٹروغیرہ۔
فلاح ملت کا تعمیری خاکہ:(۱) فلاح ملت انسٹی ٹیوٹکے لیے دو بیگہا زمین کی خریداری (۲)معیاری بلڈنگ کی تعمیر (۳)معیاری لائبریری کا قیام (۴) مسجد کی تعمیر (۵) ڈائننگ ہال کی تعمیر وغیرہ۔
نوٹ: اگر مخلصین و محبین کا ساتھ رہا؛ تو ان شاء اللہ ان کے صدقات نافلہ کے ذریعہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ انتظام کے ساتھ ان کی ہائی ایجوکیشن کے لیے دینی ماحول میں ایک دینی و عصری یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں لانے کا ارادہ ہے تاکہ قوم مسلم کے بچے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد وقت کی مناسبت سے اس میں مزید اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنے اور قوم مسلم کے مستقبل کو تابناک بناسکیں، و ماتوفیقنا إلا باللہ علیہ توکلنا و إلیہ أنبنا، و صلی اللہ علی خیر خلقہ محمد و علی آلہ و أصحابہ أجمعین۔
ترتیب
نبیرہ فقیہ ملت مولانا حافظ محمد ابوعبیدہ امجدی زید علمہ
متعلم جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ
Lorem Ipsum
About Author:
Azhar@Falahemillattrust
Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.