یہ ہے گبند کی صدا جیسی کہے ویسی سنے

فقیہ اسلام، سراج الفقہاء، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ، نہ پیر، نہ خطیب، نہ ان کے ساتھ عوام کی بھیڑ، نہ غرض کسی سے نہ واسطہ، انھیں کام اپنے ہی کام سے۔
مگر آج کے دور میں سب سے زیادہ انھیں کے فتوے پر عمل ہوتا ہے، سبب دلیل کی قوت اور اللہ کا فضل ہے۔ ذلك من فضل اللہ یوتیه من یشاء۔
لاک ڈاؤن میں امت کی شرعی رہنمائی ہو، یا ٣٠ ویں رمضان کو روزہ رکھنے کا اعلان، یا استفاضۂ شرعی کی بنیاد پر چاند کا فیصلہ وغیرہ وغیرہ, ان سب میں امت نے برابر آپ پر اعتماد کیا اور ان پر عامل ہوئے۔ رسالہ "استفاضۂ خبر کیوں اور کیسے" ٹھنڈے دل سے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کیجئے، ان شاء اللہ تشنگی دور ہو جائے گی، انصاف بہرحال شرط ہے۔
موبائل سے استفاضۂ خبر پر کچھ کم و بیش سو علما کی تصدیقات ہیں، جن میں اکابر علما اور محققین و باحثین شامل ہیں۔ اور چلتی ٹرین کے مسئلے پر مد مقابل کی جانب سے جو سب سے بڑی دلیل جو پیش کی گئی، وہ دعوی اجماع ہے، جس کے بارے میں حضرت فقیہ اعظم نے مذاکرات، خطبات اور اپنی تصنیفات میں روز روشن سے بھی زیادہ وضاحت کر دی ہے، کم از کم مجلس شرعی کے فیصلے جلد اول پڑھنے کی زحمت فرمائیں۔ اور فتاوی رضویہ کے حوالے سے امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ اب جو اجماع کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے۔ اس کا کوئی جواب نہ آیا، نہ ہے، نہ ہوگا۔ اور عدمِ جواز کے فتوے پر جو تصدیقات لی گئی ہیں، ان میں بعض ایسے فقہا کی تصدیق بھی عربی زبان میں نقل کی گئی ہے جنھیں اردو لکھنا اور دستخط کرنا بھی نہیں آتا تلاش کریں گے تو ان سے ملاقات ہو جائے گی افسوس! کیا یہی ہے فقاہت، اسی کا نام ہے اعتبار اور ایسے ہی لوگوں سے اجماع منعقد ہوتا ہے اللہ سے ڈرییے۔ اتقوا اللہ.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*پہلے محدث کبیر صاحب کا قول سمجھیے پھر اعتبار کا مطلب بیان کیجیے*
حضرت محدث کبیر دام ظلہ العالی نے حضرت فقیہ اعظم کے متعلق جو ارشاد فرمایا ہے اس میں دعوی بھی ہے اور دلیل بھی۔ حضرت نے غیر معتبر ہونے کا دعوی کیا ہے اور فورا یہ دلیل قائم کر دی ہے کہ حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آمد پر نعرے لگائے جاتے تھے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ فقیہ اعظم کے بتائے ہوئے مسئلے کو حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذکر کرکے، غلط ثابت کر رہے ہیں۔ اب بتاییے کہ اس مسئلے میں حضرت فقیہ اعظم نے کیا متفق علیہ مسئلے سے اختلاف کیا ہے، کیا جمہور سے اختلاف کیا ہے، کیا فقہائے حنفیہ سے اختلاف کیا ہے، کیا حضور مفتی اعظم ہند اور حضرت تاج الشریعۃ علیہما الرحمۃ سے اختلاف کیا ہے۔ آپ کے اندر کچھ بھی غیرت حق اور غیرت انصاف ہے؛ تو سینے میں خوف خدا رکھ کر اس کا صحیح جواب دیجیے، اگر آپ چاہیں تو اس بارے میں حضرت تاج الشریعۃ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا بیان واضح البرہان گوش انصاف سے سن لیجیے۔ اگر آپ حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو معتبر سمجھتے ہوں؛ تو بہار شریعت بھی پڑھ لیجیے, آنکھیں کھل جائیں گی اور فقیہ اعظم کی حق گوئی، عناد کے کہرے سے نکل کر آفتاب حق و صداقت کے انوار سے روشن و منور ہو جائے گی۔ جانشین فقیہ ملت حفظہ اللہ، حضرت فقیہ اعظم زید مجدہ کی حمایت کسی اندھی عقیدت میں نہیں کرتے ہیں بلکہ حق و صداقت کی روشنی سے دل کو تابندہ کرکے، کرتے ہیں، حضور فقیہ ملت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے پوری امت، خاص کر اپنی اولاد کو حق گوئی سکھائی ہے، جسے سنبھالنے کی توفیق ملی، سنبھالا اور جسے نہیں ملی، وہ چاپلوسی کا شکار ہوگیا، بات عقیدت کی چہار دیواری کی ہوتی تو جانشین فقیہ ملت حفظہ اللہ، حضرت محدث کبیر دام ظلہ العالی کی حمایت کرتے؛ کیوں کہ وہ امجدی ہیں نظامی (منسوب ب مفتی نظام الدین زید مجدہ) نہیں، وہ خاندان امجدی سے نسبت رکھتے ہیں، نظامی سے نہیں۔ لیکن یاد رکھیے امجدی حق گو ہوتا ہے، غالب کا طرف دار نہیں، اگر کبھی بیان مسائل میں خطا ہو جائے تو وہ بلا تامل رجوع کا جذبہ رکھتے ہیں۔ انھیں تو قول حق کی حمایت کرنی ہے، انھیں اور ہم سب کو بھی الله عزوجل نے یہی حکم دیا ہے: وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰی۔ جب بات کہو تو انصاف کی بات کہو اگرچہ تمھارے قرابت دار کا معاملہ ہو۔
اب آپ اسے جانشین فقیہ ملت حفظہ اللہ کی احمقانہ حرکت کہتے ہیں، کہ لیں، بار بار احمق بناتے ہیں، بنا لیں اور بھی گالیاں دینی ہوں دے لیں، لیکن وہ اپنی اسلامی شرافت اور خاندانی نجابت سے دور نہ ہوں گے، وہ ان شاء اللہ صبر کریں گے، حق کہیں گے اور حق کا ساتھ دیں گے۔ انھیں خوب احساس ہے کہ حضرت فقیہ اعظم کے ساتھ اس طرح کی دھاندلی، طاقت کے بل بوتے، ہوتی رہی ہے اور انھیں دبانے کی کوشش بھی جاری رہی ہے، لیکن جس پر اللہ کا فضل ہو، اسے کوئی طاقت دبا نہیں سکتی، ان کے ساتھ جب زیادتی ہوتی ہے تو اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کا یہ شعر ورد زبان ہوتا ہے:
کیوں کہوں بیکس ہوں میں، کیوں کہوں بے بس ہوں میں/ تم ہو میں تم پر فدا تم پہ کروڑوں درود۔
عبد اللہ امجدی۔
از یکے محبین فقیہ ملت علیہ الرحمۃ
٣/رجب المرجب ٤٥ھ