ہندہ تین طلاق کا دعوی کرتی ہے مگر شوہر طلاق سے انکار کرتا ہے تو کیا حکم ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
ہندہ کی شادی زید کے ساتھ تقریبا دو تین ماہ پہلے ہوئی تھی، زید نے ہندہ پر الزام لگایا کہ شادی سے پہلے تمہارا تعلق دوسرے لڑکوں کے ساتھ تھا، اس بات کا ہندہ نے صاف طور پر انکار کیا اور زید نے غصہ میں آکر ہندہ کو فون پر تین طلاق دے دی اور اب زید انکار کر رہا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی اور زید اس بات کی تصدیق کے لیے قسم کھانے کے لیے تیار ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی اور ہندہ کے پاس اس طلاق کے کوئی گواہ بھی نہیں ہیں؛ لہذا ایسی صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں اور اگر صرف ہندہ کے دعوی پر حکم طلاق نہیں ہوگا؛ تو کیا ہندہ زید کی زبان سے تین طلاق سن کر بھی زید کے ساتھ رہ سکتی ہے اور اگر زید کے ساتھ ہندہ رہتی بھی ہے؛ تو عند اللہ ہندہ قصوروار تو نہیں ہے یا جو بچے ہندہ کے بطن سے پیدا ہوں گے، وہ ثابت النسب تو ہوں گےیا عند الشرع کوئی دوسرا حکم ہے؟
نیز زید کی والدہ یعنی ہندہ کی ساس اور وہاں کی کچھ عورتیں کہتی ہیں کہ اگر زید نے غصہ میں آکر تین طلاق دے ہی دی؛ تو کیا حرج ہے، ہم لوگوں کے شوہر نے غصہ میں آکر ہم لوگوں کو کئی بار طلاق دے چکے ہیں؛ تو کیا ہم لوگ چلے گئے؛ لہذا آپ حضور والا سے گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتی: (مولانا) محمد سلیم اشرفی
خطیب و امام جامع مسجد رہدا، پوسٹ بھینسہا، ضلع بستی، یوپی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب اگر زید نے واقعی تین طلاقیں دی ہیں؛ تو تین طلاقیں ضرور واقع ہوجائیں گی، مگر چوں کہ زید طلاق دینے سے انکار کر رہا ہے؛ لہذا ہندہ کو زید کی جانب سے تین طلاق دئے جانے پر شرعی گواہ پیش کرنی ہوگی، لیکن چوں کہ اس کے پاس گواہ نہیں ؛ اس لیے زید سے قسم لی جائے کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں نہیں دی ہیں، اگر وہ قسم کھالے کہ میں نے تین طلاقیں نہیں دی ہیں؛ تو اس کی بات مان لی جائے گی اور ہندہ اس کے نکاح ہی میں رہے گی لیکن اگر ہندہ کو ذاتی طور پر یقینی علم ہے کہ اس کے شوہر نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں؛ تو اس پر لازم ہے کہ مہر وغیرہ دے کر جس طرح ممکن ہو، اس سے طلاق بائن حاصل کرے، یہ ممکن نہ ہو؛ تو کسی طرح اس کو اپنے اوپر قدرت نہ دے بلکہ اس سے دور بھاگے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو؛ تو جب تک ہندہ راضی نہیں، اس کا وبال ہندہ پر نہیں بلکہ شوہر پر ہے۔
اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں اعلی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں: ’’ایسی صورت میں ہندہ کے گواہ معتبر ہیں جب کہ قابل قبول شرع ہوں اور زید کی قسم پر کچھ لحاظ نہ ہوگا، ہاں اگر گواہ ناقابل قبول ہوں؛ تو زید کی قسم معتبر ہوگی، پھر اگر ہندہ اپنے ذاتی یقینی علم سے جانتی ہے کہ زید نے اسے تین طلاقیں دی ہیں؛ تو اسے جائز نہ ہوگا کہ زید کے ساتھ رہے، ناچار اپنا مہر یا مال دے کر جس طرح ممکن ہو طلاق بائن لے اور یہ بھی ناممکن ہو؛ تو زید سے دور بھاگے اور یہ بھی ناممکن ہو؛ تو وبال زید پر ہےجب تک کہ ہندہ راضی نہ ہو‘‘۔ (فتاوی رضویہ، کتاب الطلاق، ج۱۰ص۷۳، ط جدید: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
اور اس صورت میں پیدا ہونے والی اولاد عند الناس تو ثابت النسب مانی جائیں گی مگر عند اللہ ثابت النسب نہیں ہوں گی۔
نیز ہندہ کی ساس اور کچھ عورتوں کا یہ کہنا کہ : ’’اگر زید نے غصہ میں آکر تین طلاق دے ہی دی؛ تو کیا حرج ہے، ہم لوگوں کے شوہر نے غصہ میں آکر ہم لوگوں کو کئی بار طلاق دے چکے ہیں؛ تو کیا ہم لوگ چلے گئے‘‘۔ بڑی بے باکی اور دین و سنیت سے دوری کا نتیجہ ہے؛ کیوں کہ طلاق غصے میں بھی واقع ہوجاتی ہے بلکہ عموما طلاق غصے ہی میں دی جاتی ہے۔
اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں: ’’غصہ مانع وقوع طلاق نہیں بلکہ اکثر وہی طلاق پر حامل ہوتا ہے، تو اسے مانع قرار دینا گویا حکم طلاق کا راساً ابطال ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، کتاب الطلاق، ج۱۰ص۶۳)
لہذا اگر واقعی ہندہ اور کچھ عورتوں کا اپنے اپنے شوہروں کی جانب سے انہیں طلاق دئے جانے کا اقرار صحیح و درست ہے؛ تو اگر ان کے شوہروں نے ایک یا دو طلاق رجعی دی تھی اور عدت میں رجوع نہیں کیا یا ایک طلاق بائن دی تھی اور دوبارہ نکاح نہیں کیا یا تین طلاقیں دی تھیں جیسا کہ کئی بار طلاق دینے کے اقرار سے ظاہر ہورہا ہے؛ تو یہ سب کی سب اپنے اپنے شوہروں کے نکاح سے نکل گئیں، اس کے بعد سے ان عورتوں اور ان کے شوہروں کے درمیان جتنے تعلقات قائم ہوئے سب حرام کاری قرار پائے اور جتنی اولاد پیدا ہوئیں، سب اولاد زنا اور حرامی ہوئیں، ان پر لازم ہے کہ فورا توبہ کریں اور اپنے اپنے شوہروں سے الگ ہوجائیں، دو طلاق رجعی یا ایک طلاق بائن کی صورت میں دوبارہ نکاح کریں اور تین طلاق کی صورت میں اگر طلاق کے بعد عدت گزر گئی ہو؛ تو یہ سب کسی دوسرے مرد سے نکاح کریں، پھر وہ جماع کے بعد طلاق دیدے اور عدت گزر جائے؛ تو اب یہ اپنے اپنے شوہر وں سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہیں، اگر ایسا نہیں کریں گی؛ تو یہ عورتیں اور ان کے شوہر، سب سخت گنہ گار اور عذاب نار کے مستحق ہوں گے۔ و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۳؍جمادی الأولی ۱۴۴۲ھ
Lorem Ipsum