گناہ کی وجہ سے جرمانے کا مطالبہ کرنا کیسا۔

کیا فرماتے ہیں مفتیان مسئلہ ذیل میں کہ:

کچھ دن پہلے زید، ہندہ کو لے کر فرار ہوگیا تھا، پھر گھر واپس آیا اور ہندہ کے ساتھ اس کی شادی ہوگئی، آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا؛ تو آپ نے سب کے سامنے توبہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اپنے اعتبار سے جو ممکن ہو صدقات وغیرہ کی ترغیب دلائی تھی، حکم شرع کے مطابق دونوں کو توبہ کرادیا گیا مگر گاؤں کے کچھ نوجوان پانچ ہزار جرمانہ و ڈنڈ مانگ رہے ہیں اور سب کو گوشت کا کھانا کھلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

زید کے ڈنڈ نہ دینے کی وجہ سے ان نوجوانوں نے زید کے ساتھ گاؤں والوں کی بات چیت بند کرادی، کھانا پینا بند کروادیا، یہاں تک کہ اس کے یہاں نیاز و فاتحہ نہیں ہونے دے رہے ہیں اور گاؤں کے مولانا صاحب کو اس کے  یہاں قربانی بھی نہیں کرنے دی، کیا شرعی طور پر زید کے توبہ کرنے کے باوجود کچھ نوجوانوں کی طرف سے ڈنڈ اور گوشت کے کھانے کا مطالبہ کرنا نیز سماجی بائکاٹ کروانا درست ہے؟ بینوا توجروا۔

المستفتی: محمد ابراہیم، مہو گھاٹ، بستی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب اللہ تعالی سچی توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے؛ اسی لیے توبہ کرنے والا گناہ سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے چھوٹا بچہ گناہ سے پاک و صاف ہوتا ہے؛ لہذا زید نے جب توبہ کرلی؛ تو  اب وہ بری ہوگیا۔

حدیث شریف میں ہے: ((لَوْ أَخْطَأْتُمْ حَتَّى تَبْلُغَ خَطَايَاكُمُ السَّمَاءَ، ثُمَّ تُبْتُمْ، لَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ)) (سنن ابن ماجہ، باب ذکر التوبۃ، ج۲ص۱۴۱۹، رقم: ۴۲۴۸، ط: دار إحیاء الکتب العربیۃ)

ترجمہ: اگر تمہاری غلطیاں آسمان کے برابر ہوجائیں، پھر تم سچے دل سے توبہ کرلو؛ تو اللہ تعالی تمہاری توبہ قبول فرمالے گا۔

دوسری حدیث پاک میں ہے: ((التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ)) (سنن ابن ماجہ، باب ذکر التوبۃ، ج۲ص۱۴۱۹، رقم: ۴۲۵۰)

ترجمہ: گناہ سے سچی توبہ کرنے والا اس کی طرح ہے جس کے ذمہ کوئی گناہ نہیں۔

بعض نوجوانوں کی جانب سے زید سے ڈنڈ و جرمانہ کے طور پر روپئے اور کھانا کھلانے کا مطالبہ کرنا درست نہیں؛ کیوں کہ شریعت اسلامیہ میں اب جرمانہ و ڈنڈ کا مطالبہ کرنا ناجائز و حرام ہے۔

رد المحتار میں ہے: ’’(قَوْلُهُ لَا بِأَخْذِ مَالٍ فِي الْمَذْهَبِ) قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ يَجُوزُ التَّعْزِيرُ لِلسُّلْطَانِ بِأَخْذِ الْمَالِ. وَعِنْدَهُمَا وَبَاقِي الْأَئِمَّةِ لَا يَجُوزُ. اهـ. وَمِثْلُهُ فِي الْمِعْرَاجِ، وَظَاهِرُهُ أَنَّ ذَلِكَ رِوَايَةٌ ضَعِيفَةٌ عَنْ أَبِي يُوسُفَ. قَالَ فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ: وَلَا يُفْتَى بِهَذَا لِمَا فِيهِ مِنْ تَسْلِيطِ الظَّلَمَةِ عَلَى أَخْذِ مَالِ النَّاسِ فَيَأْكُلُونَهُ اهـ وَمِثْلُهُ فِي شَرْحِ الْوَهْبَانِيَّةِ عَنْ ابْنِ وَهْبَانَ (قَوْلُهُ وَفِيهِ إلَخْ) أَيْ فِي الْبَحْرِ، حَيْثُ قَالَ: وَأَفَادَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ أَنَّ مَعْنَى التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ عَلَى الْقَوْلِ بِهِ إمْسَاكُ شَيْءٍ مِنْ مَالِهِ عَنْهُ مُدَّةً لِيَنْزَجِرَ ثُمَّ يُعِيدُهُ الْحَاكِمُ إلَيْهِ، لَا أَنْ يَأْخُذَهُ الْحَاكِمُ لِنَفْسِهِ أَوْ لِبَيْتِ الْمَالِ كَمَا يَتَوَهَّمُهُ الظَّلَمَةُ إذْ لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ.

وَفِي الْمُجْتَبَى لَمْ يَذْكُرْ كَيْفِيَّةَ الْأَخْذِ وَأَرَى أَنْ يَأْخُذَهَا فَيُمْسِكَهَا، فَإِنْ أَيِسَ مِنْ تَوْبَتِهِ يَصْرِفُهَا إلَى مَا يَرَى. وَفِي شَرْحِ الْآثَارِ: التَّعْزِيرُ بِالْمَالِ كَانَ فِي ابْتِدَاءِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ نُسِخَ. اهـ وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْهَبَ عَدَمُ التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ‘‘۔ (رد المحتار، امام ابن عابدین شامی، باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال، ج۴ص۶۱، ط: دار الفکر، بیروت)

اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’وہ روپیہ کہ اس شخص سے زجرا لیا گیا حرام ہے کہ تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل حرام ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی، کتاب الحظر و الإباحۃ، ج۲۳ص۳۳۱، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، پوربندر، گجرات)

اور زید کی طرف سے توبہ کرنے کے  بعد بھی گاؤں کے بعض نوجوانوں کا زید سے گاؤں والوں کی بات چیت اور کھانا پینا بند کرانا، نیاز و فاتحہ نہ ہونے دینا اور گاؤں کے مولانا صاحب کو زید کے یہاں قربانی نہ کرنے دینا ظلم شدید ہے جو ناجائز و حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ (البقرۃ:۲، آیت:۲۵۸) ترجمہ: اللہ تعالی ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾ (آل عمران:۳، آیت:۵۷) ترجمہ: اللہ تعالی ظالموں کو پسند نہیں فرماتا۔

تیسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا﴾ (الإسرا:۱۷، آیت:۸۲) ترجمہ: اور ظالموں کے نقصان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے: ((لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ التَّقْوَى هَاهُنَا)) وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ((بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ)) (صحیح مسلم، باب تحریم ظلم المسلم، ج۴ص۱۹۸۶، رقم: ۲۵۶۴، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)

ترجمہ: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے لیے سامان کی زیادہ قیمت نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، بلاوجہ شرعی ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ رکھو، تم میں سے بعض، بعض دوسرے کی خرید و فروخت پر خرید و فروخت نہ کرے، اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو، ایک مسلم دوسرے مسلم کا بھائی ہے، مسلم پر ظلم نہ کرے اور اس کے مدد طلب کرنے پر اس کی مدد سے نہ بھاگے اور اس کو حقیر نہ جانے، تقوی یہاں ہے)) تقوی والی بات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین مرتبہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، نیز فرمایا: ((آدمی کے شریر ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلم بھائی کو حقیر جانے اور ہر مسلم کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت، ہر مسلم پر حرام ہے))

حدیث پاک میں ہے: ((مَنْ آذَى مُسْلِمًا فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ)) (المعجم الصغیر، امام طبرانی، ج۱ص۲۸۴، رقم: ۴۶۸، ط: المکتب الإسلامی، بیروت)

ترجمہ: جس نے کسی مسلم کو ایذا دی،  اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی؛ تو اس نے اللہ عز وجل کو ایذا دی۔

حضور اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’جو عام مسلمانوں پر ظلم کریں، ان کے لیے بری باز گشت ہے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے، ان پر اللہ کی لعنت ہے، نہ کہ وہ جو اولیا پر ظلم کریں نہ کہ انبیا پر نہ کہ خود حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و علو شان اقدس پر، ان پر کیسی اشد لعنت الہی ہوگی۔۔۔۔۔‘‘۔ (فتاوی رضویہ، محدث بریلوی، کتاب السیر، ج۱۱ص۱۱۴، ط جدید: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (آل عمران:۴، آیت: ۵۹)

ترجمہ: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللہ و رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ و قیامت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا۔ (کنز الإیمان)

لہذا گاؤں کے نوجوانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی نفس کی اتبا ع کرنے کے بجائے اللہ جل جلالہ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نیز علما و مفتیان کرام کی اتباع کریں اور ان کی بات مانیں، اللہ عز وجل سے ڈریں اور وہ اپنے اس ظالمانہ طریقہ کار سے توبہ کریں، باز آئیں، تمام مسلمان زید کے ساتھ مل جل کر رہیں اور اس سے کسی طرح کے جرمانہ وغیرہ کا مطالبہ نہ کریں، ہاں اگر وہ اپنی مرضی سے کچھ صدقات وغیرہ، مساجد و مدارس وغیرہ میں دیدے؛ تو بہتر ہے؛ کیوں کہ صدقات وغیرہ توبہ قبول ہونے میں معاون ہوتے ہیں۔ و اللہ تعالی أعلم۔ کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

          ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

       خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

                    ۱۷؍ ذی الحجۃ ۱۴۴۱ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.