کیا نماز ظہر وغیرہ کی چار رکت سنتیں صحیح حدیث سے ثابت نہیں
حضرت ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ظہر، عصر، عشا اور جمعہ کی نمازوں میں جو چار رکعت سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ پڑھتے ہیں یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے عرب وغیرہ میں لوگ دو رکعت ہی سنت پڑھتے ہیں، حقیقت کیا ہے، واضح فرمائیں، اللہ تعالی آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے، آمین۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب کسی شخص کا اس طرح سے استدلال کرتے ہوئے کہنا کہ ظہر، عصر، عشا اور جمعہ کی نمازوں میں جو چار رکعت سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ پڑھتے ہیں، یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے؛ اسی لیے عرب وغیرہ میں لوگ دو رکعت ہی سنت پڑھتے ہیں، یہ کم علمی اور علماے اہل سنت سے دوری کا نتیجہ ہے، کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی کے عمل کو دیکھ کر اس طرح استدلال کرے اور اپنی کم علمی و شدید تعصب کی بنیاد پر صحیح و حسن احادیث کے انکار کا مرتکب ہو نیز ہند و پاک کے علماے اہل سنت کے عمل کو مخالف حدیث قرار دینے کی اتنی بڑی جسارت کرے، بلکہ ایسے شخص پر لازم و ضروری ہے کہ وہ علماے اہل سنت کی طرف رجوع کرکے اپنی کم علمی کا ازالہ کرلے؛ تاکہ اس طرح کے بے جا استدلال اور اس کی وجہ سے صحیح احادیث کے انکار کا مرتکب نہ ہو، نیز شاید معترض، عرب سے حرمین طیبین مراد لے رہا ہے، اگر ایسا ہے تو ایک حد تک اس عمل کی نسبت ان کی طرف درست ہے، اگرچہ بعض سنتوں میں ان کا یہ عمل حدیث کے خلاف ہے، لیکن اگر عرب سے حرمین طیبین کے علاوہ دیگر عرب کے لوگ بھی مراد ہیں؛ تو یہ اس کی جہالت ہے اور ساتھ میں ’وغیرہ‘ کا لاحقہ جہالت در جہالت ہے؛ کیوں کہ اکثر عرب و عجم میں احناف کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے اور یہ لوگ ظہر سے پہلے چار رکعت سنت، جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد چار رکعت سنت مؤکدہ کے قائل ہیں، اسی طرح عصر اور عشا سے پہلے چار رکعت نماز سنت غیر مؤکدہ کے بھی قائل ہیں؛ کیوں کہ نماز ظہر ، عصر، عشا اور جمعہ کی اکثر سنتیں، صحیح و حسن احادیث سے ثابت ہیں، مندجہ ذیل سطور میں یکے بعد دیگرے احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
نماز ظہر کی سنتیں:
نماز ظہر سے پہلے چار رکعت اور نماز ظہر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا سنت ہے، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر کسی سبب ظہر سے پہلے چار رکعت سنت ادا نہیں کرپاتے؛ تو انہیں ظہر کی نماز کے بعد ادا کرتے۔
سنن الترمذی میں ہے: عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ رضی اللہ عنھا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
))مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ)) (سنن الترمذي، باب ماجاء فیمن صلی في یوم و لیلة ثنتی عشرۃ رکعة من السنة، ما له فیه من الفضل، ج۲ص۲۷۴، رقم: ۴۱۵، ط: مصطفی البابي الحلبي، مصر) امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
سنن الترمذی ہی میں ہے: عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنھا: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَمْ يُصَلِّ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ صَلَّاهُنَّ بَعْدَهَا)) (سنن الترمذي، باب آخر، ج۲ص۲۹۱، رقم: ۴۲۶) امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نماز ظہر سے پہلے چار رکعت اور اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کے متعلق حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے جو اہل علم تھے، ان میں سے اکثر کا اسی پر عمل تھا۔
’’والعمل على هذا عند أكثر أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم‘‘۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی الأربع قبل الظھر ، ج۱ص۵۵۰، رقم:۴۲۴، ط:دار الغرب الإسلامی، بیروت)
بلکہ بعض حدیث میں نماز ظہر کے بعد بھی چار رکعت نماز پڑھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے:
سنن الترمذی میں ہے: عن أم حبيبة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من صلى قبل الظهر أربعا وبعدها أربعا حرمه الله على النار)) هذا حديث حسن غريب. (سنن الترمذی، باب آخر، ج۱ص۵۵۳، رقم: ۴۲۷)
نماز جمعہ کی سنتیں:
نماز جمعہ سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنا سنت بلکہ اس سے زیادہ بھی پڑھنے کی اجازت ہے۔
صحیح البخاری میں ہے: عن سلمان الفارسي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من اغتسل يوم الجمعة وتطهر بما استطاع من طهر ثم ادهن أو مس من طيب ثم راح فلم يفرق بين اثنين فصلى ما كتب له ثم إذا خرج الإمام أنصت غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى)) (صحیح البخاري، باب لایفرق بین اثنین یوم الجمعۃ، ج۲ص۸، رقم:۹۱۰، ط: دار طوق النجاۃ)
اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عادت کریمہ تھی کہ آپ برابر جمعہ کی نماز سے پہلےچار رکعت سنت نماز پڑھا کرتے تھے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے: عن ابن عباس رضى الله عنھما، قال: ((کان النبي صلی اللہ علیه و آله وسلم یرکع قبل الجمعة أربعا لایفصل في شیء منھن)) (سنن ابن ماجہ، باب ماجاء فی الصلاۃ قبل الجمعۃ، ج۱ص۳۵۸، رقم:۱۱۲۹، ط:دار إحیاء الکتب العربیۃ) یہ روایت ضعیف ہے۔
نیز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے جمعہ کے بعد بھی چار رکعت نماز پڑھنے کی ترغیب دلائی ہے۔
سنن الترمذی میں ہے: عن أبي هريرة رضي اللہ عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصل أربعا)) هذا حديث حسن صحيح۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی الصلاۃ قبل الجمعۃ، ج۱ص۶۵۶، رقم:۵۲۳، ط:دار الغرب الإسلامی، بیروت)
نماز عصر کی سنتیں:
نماز عصر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنا سنت ہے، اگر یہ نماز کوئی پڑھتا ہے؛ تو ان شاء اللہ، وہ رب تعالی کی رحمت و کرم کا مستحق ہوگا۔
سنن الترمذی میں ہے: عَنْ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنھما، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((رَحِمَ اللَّهُ امْرَأً صَلَّى قَبْلَ العَصْرِ أَرْبَعًا)) (سنن الترمذي، باب ما جاء فی الأربع قبل العصر، ج۲ص۲۹۵، رقم: ۴۳۰) امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
نماز عشا کی سنتیں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز عشا کے بعد چار رکعت سنت یا اس سے زائد چھ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔
سنن ابی داؤد میں ہے: ((عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَ: سَأَلْتُهَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: «مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ قَطُّ فَدَخَلَ عَلَيَّ إِلَّا صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتَّ رَكَعَاتٍ)) (سنن أبی داؤد، رقم: ۱۳۰۳، ط: المکتبۃ العصریۃ، صیدا، بیروت)
نماز عشا سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنا سنت ہے، اس پر فقہاے کرام نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت سے استددلال کیا ہے:
مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح میں ہے: ’’و‘‘ ندب أربع قبل ’’العشاء‘‘ لما روي عن عائشة رضي الله عنها: أنه عليه السلام كان يصلي قبل العشاء أربعا ثم يصلي بعدها أربعا ثم يضطجع‘‘۔ (مراقی الفلاح، شرنبلالی، فصل فی النوافل، ص۱۴۶،ط: المکتبۃ العصریۃ)
الاختیار لتعلیل المختار میں ہے: (وَقَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا) وَقِيلَ: رَكْعَتَيْنِ. (وَبَعْدَهَا أَرْبَعًا) وَقِيلَ: رَكْعَتَيْنِ، وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – ((كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا، ثُمَّ يُصَلِّي بَعْدَهَا أَرْبَعًا ثُمَّ يَضْطَجِعُ)) (الاختیار، ابو الفضل حنفی،باب النوافل،ج۱ص۶۶،ط:مطبعۃ الحلبی، القاھرۃ)
البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے: ’’وأما الأربع قبل العشاء فذكروا في بيانه أنه لم يثبت أن التطوع بها من السنن الراتبة فكان حسنا لأن العشاء نظير الظهر في أنه يجوز التطوع قبلها وبعدها كذا في البدائع ولم ينقلوا حديثا فيه بخصوصه لاستحبابه‘‘۔
اس کے تحت منحۃ الخالق میں ہے: (قوله ولم ينقلوا حديثا فيه بخصوصه) نقل في الاختيار عن عائشة – رضي الله عنها – ((أنه – عليه الصلاة والسلام – كان يصلي قبل العشاء أربعا ثم يصلي بعدها أربعا ثم يضطجع)) اهـ. (منحۃ الخالق، ابن عابدین شامی، الصلاۃ المسنونۃ کل یوم، ج۲ص۵۴، ط: دار الکتاب الإسلامی)
مجھے عشا سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنے کے متعلق یہ روایت کسی حدیث کے کتاب میں نہیں مل سکی، لیکن فقہاے کرام نے استدلال کیا ہے؛ تو اس کا تذکرہ کسی حدیث کی کتاب میں ضرور ہونا چاہیے، یہ الگ بات ہے کہ ہماری وہاں تک رسائی نہیں ہوسکی ہے۔ و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن و خادم مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۷؍ربیع الأول ۱۴۴۱ھ
Lorem Ipsum