کیا مفتی بننے کے لیے تدریب ضروری نہیں؟!

مبسملا و حامدا و مصلیا  مسلما

            ایک مرتبہ ایک عالم دین نے اس طرح کی ملتی جلتی بات کی تھی کہ فتوی لکھنے کے لیے، درس نظامی میں مہارت ہی کافی ہے، میں نے اس پر یہ کہا تھا: ’’پہلے فتوی دینے کے لیے مجتہد ہونا شرط تھا، مگر اب اس زمانہ میں کم از کم، فتوی دینے کے لیے، تدریب افتا ضروری ہے، محض درس نظامی میں مہارت، فتوی دینے کے لیے کافی نہیں‘‘۔ اس پر ایک دوسرے عالم دیننے فرمایا: ’’فتوی نویسی کے لیے کسی مرکز افتا یا تخصص فی الفقہ کی سند ہرگز کافی نہیں، اسلاف کی طرح، اہلیت کے ساتھ فاضل درس نظامی ہونا ہی کافی ہے‘‘۔  اس پر میں نے یہ کہا تھا: ’’محض سند تو عالم ہونے کے لیے بھی کافی نہیں چہ جائے کہ فتوی دینے کے لیے کافی ہو، ہاں ثانی کے لیے اہلیت کے ساتھ، تدریب ضروری ہے، اب یہ تدریب خواہ مستقل ادارہ میں رہ کر حاصل کی جائے یا کسی خاص ماہر مفتی کی نگرانی میں‘‘۔  اس پر انھیں دوسرے عالم دین نے فرمایا تھا: ’’دور حاضر میں تربیت و تدریب افتا کرنے، کرانے والے، بیشتر بے توفیق جہلا نے دار الإفتاء کی قدر و قیمت کو تائہ و ضائع کردیا ہے، اہل، بے مشق بے کار نہیں، نا اہل، مشق کرکے بھی کار آمد نہیں‘‘۔ ۲۹ ؍مارچ ۲۰۲۴ء کو یہ بات آئی گئی اور ختم ہوگئی۔

اگر ان اقوال پر تبصرہ کیا جائے؛ تو بات بہت لمبی ہوجائے گی، میں یہاں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میری رائے:’’پہلے فتوی دینے کے لیے مجتہد ہونا شرط تھا، مگر اب اس زمانہ میں کم از کم، فتوی دینے کے لیے، تدریب افتا ضروری ہے، محض درس نظامی میں مہارت، فتوی دینے کے لیے کافی نہیں‘‘۔ اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ یقینا اہلیت کے بغیر فتوی دینا جائز نہیں، مگر آج کے دور میں یہ اہلیت عموما درس نظامی پڑھنے سے نہیں بلکہ کسی ماہر مفتی کے پاس تربیت حاصل کرنے  سے ہی آتی ہے؛ لہذا دور حاضر میں تدریب  کے ذریعے، فتوی دینے کا اہل بننا اوربنانا ضروری ہے؛ تاکہ یہ عظیم عہدہ نا اہل حضرات کے ہاتھوں،  بے وقعت نہ ہونے پائے۔رہی بات یہ کہ تدریب کے بغیر بھی فتوی دینے کی اہلیت ہوتی ہے؛ تو یہ نادر ہے اور نادر کا کوئی اعتبار نہیں؛ اس لیے بہر حال فتوی دینے کے لیے کسی ماہر مفتی کے پاس، تدریب و تربیت حاصل کرنے کی اہمیت مسلم ہے۔ اور میری مندرجہ بالا  رائے کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ تدریب حاصل کرنے کے بعد بھی نااہل رہ جائے یا نااہل کے پاس تدریب حاصل کیا؛ تو بھی اسے فتوی دینے کی اجازت ہے، اگر کوئی سوچتا ہے؛ تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے، اسے اپنی غلط فہمی دور کرلینی چاہیے؛ کیوں کہ میں خود تقریبا نو سال سے مرکز تربیت افتا میں تدریب افتا کا کام انجام دے رہا ہوں ، میں عموما تدریب افتاکے  علما سے کہتا  ہوں کہ اگر آپ فتوی دینے کی ذمہ داری نہیں نبھاسکتے؛ تو قطعا فتوی صادر کرنے پر اقدام نہ کریں۔ بہر حالمزید تبصرہ کیے بغیر، میں چاہتا ہوں کہ علما کے اقوال کی روشنی میں تدریب افتا کی اہمیت واضح کروں تاکہ ماہر مفتی کے پاس تدریب و تربیت، حاصل کیے بغیر، ایں و آں مفتی کا لیول لگانے یا جبرا مفتی بننے کی، بےجا کوشش نہ کریں۔و ما توفیقي إلا باللہ علیه توکلت و إلیه أنیب۔

            مفتی ہونے کی شرائط اور تدریب افتا کی اہمیت پر روشنی ڈالنے سے پہلے، موضوع کے پیش نظر، افتا اور مفتی کی تعریف پیش خدمت ہے۔

            افتا کی تعریف: افتا، مسئلہ کا شرعی حکم بیان کرنے کو کہتے ہیں۔

            رد المحتار میں ہے: ’’الإفتاء فإنه إفادۃ الحکم الشرعي‘‘۔ (رد المحتار، امام ابن عابدین شامی، کتاب القضاء، ج۸ص۶۷۳، ط: دار الدعوۃ)

التعریفات میں ہے: ’’الإفتاء بیان حکم المسئلة‘‘۔ (التعریفات، امام جرجانی، باب الألف، ص۴۹، ط: دار البیان للتراث)

            مفتی کی تعریف: دور حاضر میں مفتی، مجتہد کا قول نقل کرنے والے کو کہتے ہیں۔

            رد المحتار میں ہے: ’’أن المفتي حقیقة ھو المجتھد و أما غیرہ؛ فناقل لقول المجتھد‘‘۔ (رد المحتار، امام ابن عابدین شامی، کتاب القضاء، ج۸ص۳۳، ط: زکریا بکڈپو)

            اس میں دو راے نہیں کہ افتا کا معنی مسئلہ کا شرعی حکم بیان کرناہے  اور دور حاضر میں مفتی یا فتوی نویسی کرنے والا، ناقل مفتی ہوتا ہے، مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی بھی  فرد، فتوی نقل کردے؛ تو اس کو مفتی مان لیا جائےگا بلکہ ناقل مفتی ہونے کے لیے بھی کچھ شرائط و  آداب ہیں، جن کا اس  کے اندر  پایا جانا ضروری ہے، ملاحظہ فرمائیں:

ناقل مفتیہونے کے شرائطو آداب!

         مفتی بننے والا مکلف، مسلم، ثقہ، اسباب فسق اور خوارم مروت سے محفوظ ، تقوی و پرہیزگاری اس کا وطیرہ ہو، ساتھ ہی فقیہ نفس، سلیم ذہن و فکر کا مالک،  صحیح تصرف و استنباط والا اور صاحب تیقظ یعنی حیلہ باز کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

         امام ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وليكن المفتي متنزها عن خوارم المروءة فقيه النفس سليم الذهن حسن التصرف والاستنباط، ولو كان المفتي عبدا أو امرأة أو أعمى أو أخرس بالإشارة‘‘۔ (البحرالرائقشرحکنزالدقائق،ج۶ص۲۸۶، کتاب الکفالۃ، دار الکتاب الإسلامی)

         امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شرط المفتى كونه مكلفا، مسلما، ثقة، مأمونا، متنزها عن أسباب الفسق وخوارم المرؤة، فقيه النفس، سليم الذهن، رصين الفكر، صحيح التصرف والاستنباط، متيقظا‘‘۔(المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۱، دار الفکر، بیروت)

         امام ابن نجیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’قوله (والفاسق يصلح مفتيا وقيل لا) وجه الأول أنه يحذر النسبة إلى الخطأ، ووجه الثاني أنه من أمور الدين وخبره غير مقبول في الديانات ولم يرجح الشارحون أحدهما وظاهر ما في التحرير أنه لا يحل استفتاؤه اتفاقا؛ فإنه قال: الاتفاق على حل استفتاء من عرف من أهل العلم بالاجتهاد والعدالة أو رآه منتصبا والناس يستفتونه معظمين وعلى امتناعه إن ظن عدم أحدهما فإن جهل اجتهاده دون عدالته فالمختار منع استفتائه بخلاف المجهول من غيره إذ الاتفاق على المنع اهـ.

      فلا أقل من أن يكون ترجيحا لعدم صلاحيته، ولذا جزم به في المجمع واختاره في شرحه، وقال إن أولى ما يستنزل به فيض الرحمة الإلهية في تحقق الواقعات الشرعية طاعة الله عز وجل والتمسك بحبل التقوى، قال الله تعالى: {واتقوا الله ويعلمكم الله} [البقرة: 282] ومن اعتمد على رأيه وذهنه في استخراج دقائق الفقه وكنوزه وهو في المعاصي حقيق بإنزال الخذلان عليه فقد اعتمد على ما لا يعتمد عليه {ومن لم يجعل الله له نورا فما له من نور} [النور: 40] . اهـ.

      فشرط المفتي إسلامه وعدالته، ولزم منها اشتراط بلوغه وعقله فترد فتوى الفاسق والكافر وغير المكلف إذ لا يقبل خبرهم‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۶ص۲۸۶، کتاب الکفالۃ، دار الکتاب الإسلامی)

مفتی ہونے کے لیے تدریب وغیرہ کی شرط

نیز ناقل مفتی ہونے کے لیے مسائل کا ان کی شروط و قیود کے ساتھ جاننا ضروری ہے، اس کے اندر قابل قبول عرف اور غیر قابل قبول عرف کے درمیان، تفریق کی قدرت بھی ہونی چاہیے اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے کسیماہر مفتی کے پاس افتا کی تربیت حاصل کیا ہو۔

شرح عقود رسم المفتی میں ہے: ’’فإن المتقدمين شرطوا في المفتي الاجتهاد و هذا مفقود في زماننا، فلا أقل من أن يشترط فيه معرفة المسائل بشروطها و قيودها التي كثيرا ما يسقطونها و لا يصرحون بها اعتمادا على فهم المتفقه و كذا لا بد من معرفة عرف زمانه و أحوال أهله و التخرج في ذلك على أستاذ ماهر و لذا قال في آخر منية المفتي: لو أن لرجل حفظ جميع كتب أصحابنا، لا بد أن يتلمذ للفتوى حتى يهتدي إليه؛ لأن كثيرا من المسائل يجاب على عادات أهل الزمان فيما لا يخالف الشريعة، انتهى‘‘۔ (شرح عقود رسم المفتی، امام ابن عابدین شامی، ص۱۵۶، ط: دار الکتاب)

            قارئین کرام! مذکورہ بالا، افتا کی تعریف، اور مفتیناقل کے شرائطو آداب کو سامنے رکھ کر، غور کریں کہ کیاآج کل،صرف درس نظامی پڑھنے والے، فتوی دینے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ اور اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے؛ تو فتوی دینے کی اہلیت تو دور کی بات،درس نظامی مکمل کرنے  والوں کی کثیر تعداد ایسی ہے، جو  عالم کے وصف سے بھی موصوف ہونے کے لائق نہیں ہوتے!محترم قارئین!  بتائیں کہ کیا درس نظامی پڑھنے والے، فقہ میں صاحب فقہ اور فقہ میں صحیح نظر کے مالک ہوتے ہیں؟! کیا فتوی دینے کے لیے انھیں قابل قبول، قواعد شرع کی جانکاری ہوتی ہے؟! کیا مسائل و قواعد کو ان کی شروط و قیود کے ساتھ جانتے ہیں؟! کیا انھیں زمانے کے عرف اور اہل زمانہ کے احوال سے آگہی ہوتی ہے؟! اگر تعصب نہیں بلکہ انصاف کی نظر سے دیکھیں گے؛ تو آپ کا جواب یہی ہوگا کہ عموما اس طرح کی صلاحیت، ان کے اندر نہیں ہوتی اور نادر کوئی اعتبار نہیں ہوتا؛ اسی لیے امام ابن عابدین شامی رحمہ اللہ تعالی نے اخیر میں  اس بات کی صراحت کردی کہ مفتی کے لیے کسی ماہر استاد کے پاس تربیت حاصل کرنا ضروری ہے اور منیۃ المفتی میں تو یہاں تک فرمادیا کہ اگر کوئی ہمارے اصحاب کی ساری کتب یاد کرلے؛ تو بھی اسے فتوی دینے کی اجازت نہیں، جب تک کہ وہ کسی ماہر استاد کے پاس رہ کر تربیت حاصل نہ کرلے!

         لہذا دور حاضر میں اجتہاد کی شرط نہ سہی، مگر جو شخص مذکورہ بالا شرائط و آداب  پر  کھرا اترے، اسے ہی فتوی دینے کی اجازت دی جائے گی اور جو شخص ان شرائط و آداب کا متحمل نہ ہو، خاص کر اگر وہ فسق و فجور، جیسےبلاوجہ شرعی، نماز قصدا چھوڑنے وغیرہ کی صفت قبیحہ سے متصف ہو؛ تو اسے قطعا فتوی جاری کرنے کی اجازت نہ دی جائےگی؛ کیوں کہ فاسق کا فتوی مقبول نہیں بلکہ مردود ہوتا ہے۔

         دور حاضر میں بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فتوی نویسی بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں، خود سے مطالعہ کرنے یا بعض معتبر مشائخ سے درس نظامی میں علم حاصل کرنے والا  شخص، جب چاہے جیسے چاہے فتوی دے سکتا ہے، حالاں کہ یہ فکر خطا سے خالی نہیں؛ کیوں کہ اس فن کے ماہرین فرماتے ہیں  کہ خود سے مطالعہ کرنے والے شخص کو فتوی دینا جائز نہیں؛ کیوں کہ وہ عام جاہل کی طرح ہے، جو وہ کہے گا اس کے بارے میں اسے خود ہی صحیح سے معلومات نہیں ہوگی، بلکہ وہ شخص جو معتبر مشائخ سے علم دین حاصل کیا ہو، اسے بھی دو چند کتابوں سے فتوی دینے کی اجازت نہیں؛ کیوں کہ ایسے شخص سے بہت ممکن ہے کہ وہ ان کتابوں میں مذکور ضعیف قول پر اعتماد کر بیٹھے، ہاں جو شخص اس فن کے ماہرین سے علم حاصل کرکے، نفسیاتی ملکہ حاصل کرلیا، اب یہ شخص صحیح کو غیر سے ممتاز کرسکتا ہے، مسائل اور ان کے متعلقات کو معتدبہ طریقہ سے جان سکتا ہے، یہی وہ شخص ہے جو فتوی دینے کے ساتھ، اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان واسطہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کے علاوہ جو شخص اس عظیم منصب کو اختیار کرنے کی کوشش کرے، اس کی تعزیر کی جائے اور اس کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آیا جائے؛ تاکہ وہ اور اس کی طرح کے دوسرے اشخاص، اپنی اس قبیح حرکت سے باز آئیں، جو لاتعداد مفاسد کے دروازے کھولتا دکھائی دے رہا ہے۔

         امام  ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و قد رأیت في فتاوی العلامة ابن حجر سئل في شخص یقرأ و یطالع في الکتب الفقھیة بنفسه لم یکن له شیخ و یفتي و یعتمد علی مطالعتة في الکتب فھل یجوز له ذلك أم لا؟ فأجاب بقوله: لایجوز له الإفتاء بوجه من الوجوہ؛ لأنه عامي جاھل لایدري مایقول، بل الذي یأخذ العلم عن المشایخ المعتبرین لایجوز له من کتاب و لا کتابین بل قال النووي رحمه اللہ تعالی: و لا من عشرۃ و عشرین، قد یعتمدون کلھم علی مقالة ضعیفة في المذھب فلایجوز تقلیدھم فیھا، بخلاف الماھر الذي أخذ العلم عن أھله و صارت له فیه ملکة نفسانیة فإنه یمیز الصحیح من غیرہ و یعلم المسائل و مایتعلق بھا علی الوجه المعتد به، فھذا ھو الذي یفتي الناس و یصلح أن یکون واسطة بینھم و بین اللہ تعالی، أما غیرہ فیلزمه إذا تسور ھذا المنصب الشریف التعزیر والزجر الشدید الزاجر ذلك لأمثاله عن ھذا الأمر القبیح الذي یؤدی إلی مفاسد لاتحصی، و اللہ تعالی أعلم، انتھی‘‘۔ (شرح عقود رسم المفتی، ص۶۹، ط: دار الکتاب، دیوبند)

         سیدی و سندی اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:’’آج کل درسی کتابیں پڑھنے پڑھانے سے آدمی فقہ کے دروازے میں بھی داخل نہیں ہوتا، نہ کہ واعظ جسے سواے طلاقت لسان، کوئی لیاقت جہاں درکار نہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ، کتاب الصوم، باب رویۃ الہلال، ج۱۰ص۴۴۲، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، پوربندر، گجرات)

         اعلی حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان کا  یہ دور اندیشی اور حکمت و دانائی سےپُر  قول، نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ بنظر نصیحت و عبرت ہر ایک، خاص کر، خطبا،  نام نہاد اور خود ساختہ مفتیان کرام کو پڑھنا چاہیے اور صرف پڑھنا ہی نہیں بلکہ اس کے مطابق بھر پور عملی اقدام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نیز  وہ حضرات جو یہ سمجھتے ہیں کی فتوی دینے کے لیے ماہرین سے تدریب کی ضرورت نہیں بلکہ خود سے پڑھ کر یا درس نظامی کی تکمیل یا فتاوی نقل کرکے یا محض ایک دو فتوی لکھ کر مفتی ہوگیے یا فتوی دینے کے اہل ہوجاتے ہیں، ان کی یہ فکر درست نہیں، انہیں اپنی اس فکر پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ماہرین نے جو بتایا ہے، انھیں کے کندھے سے کندھا ملاکر چلنے کی کوشش کرسکیں اور ہم بے جا فتنہ و فساد سے بچ سکیں۔

         نیز یہ بات بھی بالکل واضح اور مسلم ہے کہ ہر عالم یا تخصص فی الفقہ یا مشق افتا کرنے والا طالب علم، مفتی کی ذمہ داری نبھانے کے قابل ہو، یہ ضروری نہیں؛ اس لیے وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ سرخیل مفتیان کرام پوری ایمان داری و دیانتداری کے ساتھ ان علماے کرام کی جانچ پڑتال کریں، اگر وہ واقعی فتوی لکھنے کے لائق ہوں؛ تو انہیں فتوی لکھنے کی اجازت دی جائے، ورنہ انہیں اس اہم امر سے ضرور روک دیا جائے، اگرچہ یہ ذمہ داری وقت کے امام کی ہوتی ہے، مگر ہندستان میں چوں کہ یہ صورت حال نہیں؛ اس لیے دور حاضر میں معتمد مفتیان کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرف ٹھوس قدم اٹھائیں، ورنہ نااہل کی وجہ سے جو نقصان ہورہا ہے یا جو آئندہ نقصان ہوگا، اس کی بھرپائی بہت مشکل ہوجائے گی۔

         امام ابن نجیم علیہ الرحمۃفرماتے ہیں: ’’وفي شرح الروض وينبغي للإمام أن يسأل أهل العلم المشهورين في عصره عمن يصلح للفتوى ليمنع من لا يصلح ويتوعده بالعقوبة بالعود‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۶ص۲۸۶، کتاب الکفالۃ، دار الکتاب الإسلامی)

            محترم قارئین! اخیرا لا آخرا، میرے ساتھ ذرا غور کریں کہ ناقل مفتی بھی ہونے کے لیے، تدریب وغیرہ کی شرائط کے باوجود، دور حاضر میں جب بزعم خویش اور خود ساختہ مفتی اتنے زیادہ ہورہے ہیں؛ تو اگر اس کا دروازہ کھول دیا جائے کہ فتوی دینے کے لیے، درس نظامی مکمل کرنے والے کے اندر اہلیت ہی کافی ہے؛ تو جہاں درس نظامی پڑھنے والوں کے اندر عموما اہلیت مفقودہوتی ہے، وہیں شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کتنے خود ساختہ مفتی پیدا ہوں گے! کیوں کہ اس دور میں نہ جانے کتنے حافظ، قاری، نام کے عالم، اپنے آپ کو علامہ وقت سمجھنے اور کہلوانے میں کوئی محسوس نہیں کرتے، بلکہ آج جو بے پڑھے لکھے مفتیوں کی بھر مار ہے، اس کا ایک بہت بڑا سبب، کہیں نہ کہیں یہ مفلوج فکر بھی ہے کہ ناقل مفتی وہ بھی ہے، جو بعض اردو یا عربی کتاب دیکھ کر، مسئلہ بتادے اگرچہ، وہ مذکورہ بالا شرائط کا جامع نہ ہو؛ لہذا جب اتنی سی بات ہے؛ تو  درس نظامی والا بھی تو یہ کام کرسکتا ہے! پھر آخر وہ کیوں نہیں مفتی کہلا سکتا اور وہ کیوں مفت میں فتوی نہیں دے سکتا؟!  حالاں کہ جو درس نظامی کے بعد بھی صحیح معنوں میں عالم نہیں ہوسکے، ان کی تو بات تو چھوڑئے، ان حضرات کی ایک لمبی فہرست ہے، جو حقیقت میں عالم دین ہیں اور ان کی صلاحیت بھی مسلم، مگر جب ان کے فتوی دینے کی بات آجائے؛ تو تدریب نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بھی پسینے چھوٹ جاتے ہیں؛ اس لیے مفتی کے لیے اس درس نظامی والا دروازہ، نہ کھولنے میں ہی اس عہدے کے وقار کی سلامتی ہے، خاص کر اس دور میں جب کہ عموما صرف بلا محنت و کد و کاوش، القابات سے ملقب ہونے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے، اللہ تعالی، تمام علماے کرام و مفتیان عظام کو صحت و سلامتی اور خلوص کے ساتھ، دین و سنیت کی بیش بہا خدمت کرنے کی توفیق دے اور ہر ایک  کو اپنے دائرے کار کی حدکو پہچان کر، اس سے باہر نکلنے سے محفوظ رکھے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ 

طالب دعا:

ابن فقیہ ملت غفرلہ

فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے

خادم مرکز تربیت افتا و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی، یوپی

۱۳؍جمادی الأولی ۴۶ھ مطابق ۱۴؍نومبر ۲۰۲۴ء

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.