کیا صلح نامہ پر دباؤ ڈال کر دستخط کرانے سے طلاق ہوجائے گی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عالی جناب مفتی صاحب قبلہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مزاج عالی؟
ایک مسئلہ در پیش ہے جس کے جواب کا طلب گار ہوں۔
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین زیر مسئلہ میں کہ:
زید (محمد فاضل) کی شادی ہندہ (کنیز فاطمہ) سے ۲۳؍۴؍۲۰۱۸ء کو ہی اور ازدواجی زندگی خوش گوار چلنے لگی پھر اللہ نے ایک بچے کی نعمت سے نوازا لیکن مشیت الہی سے کچھ ہی مہینے بعد اس بچے کا انتقال ہوگیا، جس دن بچے کا انتقال ہوا اسی دن ہندہ (کنیز فاطمہ) کے والدین (گھر والے) ہندہ (کنیز فاطمہ) کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے کر چلے گئے، تب سے فریقین (دونوں گھر والوں) کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی اور آپسی تعلقات خراب ہوگئے۔
بالآخر بچے کے انتقال کے دو ۲ مہینے بعد ہندہ (کنیز فاطمہ) کےگھر والے ایک صلح نامہ لے کر آئے اور اس پر زید (محمد فاضل) سے دباؤ بناکر زبردستی دستخط کرالی، جب کہ نہ زید (محمد فاضل) اپنی بیوی ہندہ (کنیز فاطمہ) کو طلاق دینا چاہتا تھا اور نہ ہی ہندہ (کنیز فاطمہ) اپنے شوہر زید (محمد فاضل) سے الگ ہونا چاہتی تھی، محض فریقین کے گھر والوں کی کشیدگی اور نا اتفاقی کی وجہ سے زوجین (محمد فاضل و کنیز فاطمہ) پر دباؤ بناکر اس صلح نامہ پر الگ الگ، تنہا تنہا اکیلے میں دستخط کرالی گئی، دستخط کرے وقتت گواہان موجود نہ تھے، اس پورے معاملے زید (محمد فاضل) نے اپنی بیوی ہندہ (کنیز فاطمہ) کو نہ زبانی اور نہ ہی تحریری شکل میں طلاق دی (سواے اس صلح نامہ پر دستخط کے) بلکہ زوجین ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانا چاہتے ہیں۔
اب جواب طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا صرف صلح نامہ پر دستخط (جو کہ زبردستی اور دباؤ میں کرائی گئی) کرنے سے طلاق واقع ہوجائے گی؟ اگر ہوجائے گی تو کتنی طلاق واقع ہوگی؟ مذکورہ صورت حال میں اگر زوجین پھر سے ازدواجی زندگی شروع کرنا چاہیں تو شریعت کی رو سے کن کن باتوں پر عمل کرنا ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں، عین نوازش ہوگی، مولی ہمارے مفتیان کرام کو سلامت رکھے۔
نوٹ صلح نامہ کی کاپی اس استفتا کے ساتھ لگادی گئی ہے، صلح کی تفصیل وہاں دیکھ لیں۔
سائل: محمد فاضل، ساکن: سرخیل پور، منصور آباد، الہ آباد۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب صورت مسؤلہ میں اگر زید نے جبر و اکراہ شرعی کی صورت میں صلح نامہ پر دستخط کیا؛ تو طلاق واقع نہیں ہوئی، جبر و اکراہ شرعی مثلا مخالف زید کے قتل یا قطع عضو کی دھمکی دے اور یہ اس کے نفاذ پر اسے قادر سمجھتا ہو، لیکن اگر جبر و اکراہ شرعی کی صورت نہیں تھی؛ تو صلح نامہ پر دستخط کی وجہ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی۔
در مختار میں ہے: ’’(وَيَقَعُ طَلَاقُ كُلِّ زَوْجٍ بَالِغٍ عَاقِلٍ) وَلَوْ تَقْدِيرًا بَدَائِعُ، لِيَدْخُلَ السَّكْرَانُ (وَلَوْ عَبْدًا أَوْ مُكْرَهًا)‘‘۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ’’وَفِي الْبَحْرِ أَنَّ الْمُرَادَ الْإِكْرَاهُ عَلَى التَّلَفُّظِ بِالطَّلَاقِ، فَلَوْ أُكْرِهَ عَلَى أَنْ يَكْتُبَ طَلَاقَ امْرَأَتِهِ فَكَتَبَ لَا تَطْلُقُ لِأَنَّ الْكِتَابَةَ أُقِيمَتْ مَقَامَ الْعِبَارَةِ بِاعْتِبَارِ الْحَاجَةِ وَلَا حَاجَةَ هُنَا، كَذَا فِي الْخَانِيَّةُ‘‘۔ (الدر المختار مع رد المحتار، امام حصکفی و امام ابن عابدین شامی، کتاب الطلاق، مطلب فی المسائل التی تصح مع الإکراہ، ج۳ ص۲۳۵، ۲۳۶، ط: دار الفکر، بیروت)
مجدد دین ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’اگر کسی کے جبر و اکراہ سے عورت کو خط میں طلاق لکھی یا طلاق نامہ لکھ دیا اور زبان سے الفاظ طلاق نہ کہے؛ تو طلاق نہ پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ سب اس صورت میں جب کہ اکراہ شرعی ہو کہ اس سے ضرور رسانی کا اندیشہ ہو اور وہ ایذا پر قادر ہو، صرف اس قدر کہ اس نے اپنے سخت اصرار سے مجبور کردیا اور اس کے لحاظ پاس سے اسے لکھتے بنی، اکراہ کے لیے کافی نہیں، یوں لکھے گا؛ تو طلاق ہوجائے گی‘‘۔
نیز فرماتے ہیں: ’’ہاں جبر و اکراہ شرعی ہو، مثلا قتل یا قطع عضو کی دھمکی دے جس کے نفاذ پر یہ اسے قادر جانتا ہو‘‘۔ (فتاوی رضویہ، محدث بریلوی، کتاب الطلاق، ج۱۰ص۶۴، ۶۵، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
اگر واقعی جبر و اکراہ شرعی تھا؛ تو اس صورت میں طلاق واقع نہ ہونے کی وجہ سے ہندہ زید کے نکاح میں باقی ہے، زید کو چاہیے کہ اس کے ساتھ خوش دلی سے زندگی گزارے۔
اور اگر جبر و اکراہ شرعی نہیں تھا؛ تو طلاق رجعی واقع ہوگئی، اس طلاق رجعی کے بعد اگر ابھی ہندہ کی عدت نہیں گزری ہے؛ تو زید رجوع کرلے مثلا کہے کہ میں نے تجھے پھیر لیا یا میں نے تجھے روک لیا یا اس کے مثل کوئی دوسرا جملہ کہے؛ تو ہندہ زید کے نکاح میں دوبارہ واپس آجائے گی اور اگر عدت گزرگئی ہے؛ تو دونوں ایک دوسرے کی رضا سے از سر نو نکاح کرکے ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ایسا ہی (فتاوی رضویہ، مجدد دین و ملت، کتاب الطلاق، ج۱۰ص۵۰) میں ہے۔ و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۵؍جمادی الأولی ۱۴۴۲ھ
Lorem Ipsum