کیا ایک فرد کی قربانی گھر کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الحَنَفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ: كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:
((كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى)) (سنن الترمذی، باب ماجاء أن الشاۃ الواحدۃ تجزی عن، ج۴ص۹۱، رقم: ۱۵۰۵، ط: مصطفی البابی الحلبی، مصر)
ترجمہ: عطا بن یاسر کہتے ہیں کہ میں نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کیسے ہوا کرتی تھی؛ تو انہوں نے فرمایا:
((ایک آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کیا کرتا تھا، جس میں وہ خود کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے، یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے اور حال ویسا ہوگیا جیسا آپ دیکھ رہے ہیں))
اس حدیث سے غیر مقلدین استدلال کرتے ہیں کہ اگر گھر کا ایک آدمی اپنی اور سب کی طرف سے قربانی کردے؛ تو سب کی طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی، کیا یہ صحیح ہے؟
المستفتی: بندہ خدا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب احناف کے نزدیک ایک مالک نصاب اور اس مالک نصاب کے اہل خانہ کی جانب سے ایک بکرے کی قربانی کافی نہیں، بلکہ گھر کا جو بھی فرد مالک نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے، جب تک ہر مالک نصاب اپنی طرف سے قربانی نہیں کرے گا، وہ اپنے واجب کی ادائیگی سے سبکدوش نہیں ہوگا۔
سنن ابن ماجہ میں ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: ((مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا)) (سنن ابن ماجہ، أبواب الأضاحی، باب الأضاحی واجبۃ ھی أم لا، ج۴ص۳۰۲، رقم: ۳۱۲۳، ط: دار الرسالۃ العالمیۃ)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((جس کے اندر قربانی کرنے کی وسعت ہے اور وہ قربانی نہ کرے؛ تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے))
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’(وَأَمَّا) (شَرَائِطُ الْوُجُوبِ): مِنْهَا الْيَسَارُ وَهُوَ مَا يَتَعَلَّقُ بِهِ وُجُوبِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ دُونَ مَا يَتَعَلَّقُ بِهِ وُجُوبُ الزَّكَاةِ‘‘۔
اسی میں ہے: ’’وَالْمُوسِرُ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ مَنْ لَهُ مِائَتَا دِرْهَمٍ أَوْ عِشْرُونَ دِينَارًا أَوْ شَيْءٌ يَبْلُغُ ذَلِكَ سِوَى مَسْكَنِهِ وَمَتَاعِ مَسْكَنِهِ وَمَرْكُوبِهِ وَخَادِمِهِ فِي حَاجَتِهِ الَّتِي لَا يَسْتَغْنِي عَنْهَا‘‘۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الأضحیۃ، الباب الأول فی تفسیر الأضحیۃ، ج۵ص۲۹۲، ط: دار الفکر، بیروت)
اور غیر مقلدین نے سنن ترمذی کی جس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ایک شخص ایک بکری اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے قربانی کردے؛ تو وہ سب کی طرف سے کافی ہوجائے گی، اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں کہ اگر گھر کا ایک مالک نصاب شخص اپنی اور اپنے مالک نصاب اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کردے؛ تو سب کی طرف سے قربانی اد ہوجائے گی بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کوئی فقیر یا مالک نصاب قربانی کرے اور اس کے اجر و ثواب میں اپنے اہل خانہ کو بھی شامل کرلے؛ تو یہ درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، اس مفہوم کی تائید مندرجہ ذیل صحیح حدیث سے ہوتی ہے۔
صحیح مسلم میں ہے: عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ لِيُضَحِّيَ بِهِ، فَقَالَ لَهَا: ((يَا عَائِشَةُ، هَلُمِّي الْمُدْيَةَ)) ثُمَّ قَالَ: ((اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ)) فَفَعَلَتْ: ثُمَّ أَخَذَهَا، وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ، ثُمَّ قَالَ: ((بِاسْمِ اللهِ، اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ)) (صحیح مسلم، کتاب الأضاحی، باب استحباب الضحیۃ، ج۳ص۱۵۵۷، رقم: ۱۹۶۷، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: سینگ والا مینڈھا لایا جائے جو سیاہی میں چلتا، سیاہی میں بیٹھتا اور سیاہی میں نظر کرتا ہو، وہ قربانی کے لیے حاضر کیا گیا؛ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرمایا: ((عائشہ چھری لاؤ)) پھر فرمایا: ((اسے پتھر پر تیز کرلو)) پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو لٹایا اور اسے ذبح کیا، پھر فرمایا:
((باسم اللہ، الہی! تواس کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے، ان کی آل اور ان کی امت کی جانب سے قبول فرما))
اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مینڈھے کی قربانی اپنی طرف سے، اپنی آل اور اپنی پوری امت کی طرف سے فرمائی، اگر اس حدیث کا ظاہری مفہوم لیا جائے؛ تو بہت بڑی خرابی لازم آئے گی اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی غنی ہو یا فقیر، اگر تمام اہل خانہ اور پوری امت مسلمہ کی طرف سے قربانی کردے؛ تو تمام اہل خانہ اور پوری امت مسلمہ کی جانب سے قربانی ادا ہوجائے گی اور یہ ظاہر البطلان ہے، یہ مذاہب اربعہ میں سے کسی بھی مذہب بلکہ کسی بھی فقیہ کا قول نہیں؛ اس لیے اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے اس فعل سے تمام اہل خانہ اور پوری امت مسلمہ کو اجر و ثواب میں شریک کرنا مقصود ہے نہ کہ تمام اہل خانہ اور پوری امت کی جانب سے قربانی کرنا ہے۔
اور ثواب میں شریک کرنے کے احناف بھی قائل ہیں، یعنی ایک فقیر یا مالک نصاب شخص اگر قربانی کرے اور اس کے ثواب میں اپنے اہل خانہ بلکہ تمام امت مسلمہ کو شامل کرلے؛ تو شرعا کوئی حرج نہیں۔
بہار شریعت میں ہے: ’’ایصال ثواب یعنی قرآن مجید یا درود شریف یا کلمہ طیبہ یا کسی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچانا جائز ہے۔ عبادت مالیہ یا بدنیہ، فرض و نفل، سب کا ثواب دوسروں کو پہنچایا جاسکتا ہے، زندوں کے ایصال ثواب سے مردوں کو فائدہ پہنچتا ہے‘‘۔ (بہار شریعت، صدر الشریعۃ، ایصال ثواب، ج۳ح۱۶ص۶۴۲، ط: قادری کتاب گھر، بریلی شریف)
البحر الرائق میں ہے: ’’وَظَاهِرُ إطْلَاقِهِمْ يَقْتَضِي أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ الْفَرْضِ وَالنَّفَلِ فَإِذَا صَلَّى فَرِيضَةً وَجَعَلَ ثَوَابَهَا لِغَيْرِهِ فَإِنَّهُ يَصِحُّ‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، امام ابن نجیم، باب الحج عن الغیر، ج۳ص۶۴، ط:دار الکتاب الإسلامی)
اور حقیقت یہ ہے کہ اختلاف مذاہب رحمت ہے مگر غیر مقلدین اسے زحمت بنانے کے درپے رہتے ہیں؛ اسی لیے یہ عام طور سے کبھی کسی حدیث کے ظاہری مفہوم اور کبھی زیر بحث موضوع کی ایک دو حدیث لے کر عوام اہل سنت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی ایک خاص مذہب بالخصوص مذہب احناف اور کبھی پوری اہل سنت و جماعت کو حدیث کا مخالف بتانے کی سعی مذموم کرتے ہیں اور پوری بات بتانے سے کتراتے ہیں، یہاں بھی ایسا ہی ہے، امام ترمذی علیہ الرحمۃ زیر بحث حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں:
’’وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ۔۔۔۔۔۔ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ: لَا تُجْزِي الشَّاةُ إِلَّا عَنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ المُبَارَكِ، وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ‘‘۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء أن الشاۃ الواحدۃ تجزی عن، ج۴ص۹۱، رقم: ۱۵۰۵، ط: مصطفی البابی الحلبی، مصر)
ترجمہ: ’’بعض اہل علم کے نزدیک اسی حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل ہے اور یہی امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق علیہم الرحمۃ کا قول ہے۔۔۔۔۔۔اور بعض اہل علم نے فرمایا: ایک بکری صرف ایک ہی شخص کی طرف سے کافی ہوگی اور یہی عبد اللہ بن مبارک اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم علیہم الرحمۃ کا قول ہے‘‘۔
لہذا احناف وغیرہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے مذہب اور حنبلی حضرات وغیرہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں اور ان بدمذہب غیر مقلدین کی بات پر کان نہ دھریں نیز ان سے دور رہیں، و اللہ تعالی أعلمـــــــــــــ
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۶؍ ذی الحجۃ ۱۴۴۱ھ
Lorem Ipsum