کیا آن لائن پیسہ کمانا جائز نہیں؟
سوال: استاد ہمیں دوا کم قیمت میں دیتے ہیں، مثلا حلوہ گھیکوار ۸۰۰ کلو دیتے ہیں، پھر ہم اس میں ۱۵۰ روپیہ کوریئر خرچ ملاکر ۱۶۰۰ قیمت لکھ کر، گروپ میں بھیجتے ہیں۔ جب کوئی رابطہ کرتا ہے؛ تو ۱۶۰۰ سے کچھ کم زیادہ قیمت کرکے دیتے ہیں۔ زید کا کہنا ہے کہ آپ سیلروں کا اوپر پیسہ لینا جائز نہیں؛ کیوں کہ یہ اون لائن ہوگیا اور اون لائن پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔ سوال طلب امر یہ ہے:
(۱)کیا اس طریقہ کار کے مطابق تجارت کرنا جائز ہے؟ (۲) کیا اس میں کا منافع جائز ہے؟ (۳) کیا ہر تجارت میں قبضہ کرنا شرط ہے؟ (۴) کیا ہم اپنے محنت کا منافع لے سکتے ہیں؟
سائل: محمد فہیم رضا غزالی
ساکن: پپری، اترولہ، بلرام پور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب (۱) اگر سائل کا طریقہ کار یہ ہے کہ استاد کے یہاں سے دوا اپنے پاس منگارکر قبضہ کرلیتا ہے، پھر اس کے بعد، کوریئر کا خرچ اور قیمت اضافہ کرکے بیچتا ہے؛ تو اس طریقہ پر آن لائن بیچنا، بلاشبہ جائز ہے۔
مسند احمد بن حنبل میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پاس آکر، عرض کیا: سَعِّرْ، فَقَالَ: ((إِنَّ اللهَ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ، وَلَكِنِّي أَرْجُو أَنْ أَلْقَى اللهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَيْسَ لِأَحَدٍ عِنْدِي مَظْلِمَةٌ)) (مسند احمد، ج۱۴ص۱۶۳، رقم: ۸۴۴۸، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
فتاوی عالم گیری میں ہے: ’’وَمَنْ اشْتَرَى شَيْئًا وَأَغْلَى فِي ثَمَنِهِ فَبَاعَهُ مُرَابَحَةً عَلَى ذَلِكَ جَازَ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، الباب الرابع عشر فی المرابحۃ و التولیۃ، ج۳ص۱۶۱، ط: دار الفکر، بیروت)
اور اگر طریقہ کار یہ ہے کہ استاد کے یہاں سے دوا منگاکر قبضہ نہیں کرتا ہے بلکہ آن لائن آڈر لے کر، استاد کے یہاں سے ہی پارسل کرادیتا ہے؛ تو اس طریقہ کار پر آن لائن بیچنا جائز نہیں اور یہ بچنا جائز نہ ہونا، اس وجہ سے نہیں کہ آن لائن ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ جو چیز اپنے قبضہ میں نہ ہو؛ اس کا بیچنا جائز نہیں۔ البتہ اس صورت میں جب دوا، خریدار کو مل گئی؛ تو اب بیع منعقد ہوگئی۔
حدیث شریف میں ہے: عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَأْتِينِي الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي مِنَ البَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي، أَبْتَاعُ لَهُ مِنَ السُّوقِ، ثُمَّ أَبِيعُهُ؟ قَالَ: ((لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ)) (سنن الترمذی، باب ماجاء فی کراھیۃ بیع ما لیس عندک، ج۳ص۵۲۶، رقم: ۱۲۳۲، ط: مصطفی البابی الحلبی، مصر)
رد المحتار میں ہے: ’’وَشَرْطُ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ سِتَّةٌ: كَوْنُهُ مَوْجُودًا مَالًا مُتَقَوِّمًا مَمْلُوكًا فِي نَفْسِهِ، وَكَوْنُ الْمِلْكِ لِلْبَائِعِ فِيمَا يَبِيعُهُ لِنَفْسِهِ، وَكَوْنُهُ مَقْدُورَ التَّسْلِيمِ‘‘۔ (رد المحتار، امام ابن عابدین شامی، کتاب البیوع، مطلب شرائط البیع، أنواع أربعۃ، ج۴ص۵۰۵، ط: دار الکتب العلمیۃ)
مجلس شرعی کے فیصلے میں ہے: ’’ہاں جب کمپنی کا بھیجا ہوا سامان خریدار کو مل جاتا ہے، اس وقت بطور تعاطی بیع منعقد ہوجاتی ہے اور پہلے سے جمع شدہ روپیے، اب ثمن قرار پاتے ہیں، اس سے پہلے وہ قرض تھے‘‘۔ (مجلس شرعی کے فیصلے، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی حفظہ اللہ، ج۲ص۳۰۲، ط: مجلس شرعی، مبارک پور)
(۲) اس تجارت کے منافع تو جائز ہیں مگر طریقہ کار ناجائز ہونے کی وجہ سے اس کا مرتکب گنہ گار ہے، توبہ کرے۔
مجلس شرعی کے فیصلے میں ہے: ’’جو سامان اپنی ملک میں نہ ہو، اسے بیچنا، ناجائز ہے‘‘۔(مجلس شرعی کے فیصلے، ج۲ص۳۰۲، ط: مجلس شرعی، مبارک پور)
(۳) بیع سلم کے علاوہ کوئی بھی تجارت ہو، اس میں سامان بیچنے کے لیے، اپنے قبضہ میں سامان کا ہونا ضروری ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے: ’’(وَمِنْهَا) وَهُوَ شَرْطُ انْعِقَادِ الْبَيْعِ لِلْبَائِعِ أَنْ يَكُونَ مَمْلُوكًا لِلْبَائِعِ عِنْد الْبَيْعِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَا يَنْعَقِدْ، وَإِنْ مَلَكَهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِوَجْهٍ مِنْ الْوُجُوهِ إلَّا السَّلَمَ خَاصَّةً‘‘۔(بدائع الصنائع، امام کاسانی، کتاب البیوع، فصل فی الشرط الذی یرجع إلی المعقود علیہ، ج۵ص۱۴۷، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
(۴) مذکورہ صورت میں منافع لینا تو جائز ہےمگر طریقہ کار جائز نہیں۔ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بیچنے والا، استاد کا وکیل بن جائے، اب اگرچہ دوا اس کی ملکیت میں نہ ہو؛ اسے دوا بیچنا اور متعینہ اجرت لینا جائز ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے: ’’فَأَمَّا مَا يَبِيعُهُ بِطَرِيقِ النِّيَابَةِ عَنْ غَيْرِهِ يُنْظَرُ إنْ كَانَ الْبَائِعُ وَكِيلًا وَكَفِيلًا فَيَكُونُ الْمَبِيعُ مَمْلُوكًا لِلْبَائِعِ لَيْسَ بِشَرْطٍ‘‘۔ (بدائع الصنائع، امام کاسانی، کتاب البیوع، فصل فی الشرط الذی یرجع إلی المعقود علیہ، ج۵ص۱۴۷، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
مجلس شرعی کے فیصلے میں ہے: ’’اس کو چاہیے کہ کمپنی سے وکالت بیع حاصل کرے، پھر بیع کرے، اس صورت میں اس کا بیچنا اور دوسرے کا اس سے خریدنا جائز ہوگا اور ریٹیلر اپنے کام کے عوض مقررہ اجرت کا بھی حقدار ہوگا‘‘۔(مجلس شرعی کے فیصلے، ج۲ص۳۰۲، ط: مجلس شرعی، مبارک پور) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۴؍ربیع الآخر ۱۴۴۵ھ
Lorem Ipsum