ڈاکٹر کا ڈسکاؤنٹ میں دوا خریدنے کے بعد پوری قیمت پر بیچنے کا حکم۔
سوال: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ فقیہ اہل سنت علامہ مفتی ازہار احمد امجدی ازہری مد ظلہ العالی، آپ کی خیریت مطلوب ہے۔ حضور والا ایک مسئلہ معلوم کرنا تھا۔ ادویات والی کمپنیاں ڈاکٹر کو کوئی دوائی خریدنے پر ۲۰، ۲۵ فیصد ڈسکاؤنٹ دیتی ہیں۔ مثلا ایک دوا ۱۰۰ روپیے کی ہے؛ تو وہ ڈاکٹر کو ۸۰ روپیے میں ملے گی۔ اب یہ ڈاکٹر اپنے پیسوں سے یہ دوا خریدکر، اپنے کلینک پر رکھ لیتا ہے۔ پھر جب کوئی مریض آتا ہے؛ تو اسے وہ، دوا لکھ کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر آپ چاہیں؛ تو ہمارے کلینک سے ہی دوا بھی لے سکتے ہیں۔ اگر مریض راضی ہو؛ تو دوا ۱۰۰ روپیے میں بیچ دیتا ہے۔ کیا یہ جائز ہے؟ اس میں سود یا رشوت وغیرہ تو نہیں؟ برائے مہربانی جواب عنایت فرمادیں۔ اگر دلائل ممکن نہ ہوں؛ تو نفس مسئلہ ہی ارشاد فرمادیں، اشد ضرورت ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
سائل: محمد عثمان رضوی گوجرانوالہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، اللہ تعالی آپ کو بخیر و عافیت رکھے۔ سوال میں مذکورہ طریقہ پر، ڈاکٹر کا اپنے مریض سے دوا بیچنا، جائز ہے؛ کیوں کہ یہاں کسی شرط کے بغیر، مریض کی رضا سے، ڈاکٹر اس سے نفع لےکر، اپنی دوا بیچ رہا ہے اور نفع لینے میں اسے اختیار ہے کہ چاہے پورا نفع لے یا پھر کچھ کم کرکےبیچے۔
مسند احمد بن حنبل میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پاس آکر، عرض کیا: سَعِّرْ، فَقَالَ: ((إِنَّ اللهَ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ، وَلَكِنِّي أَرْجُو أَنْ أَلْقَى اللهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَيْسَ لِأَحَدٍ عِنْدِي مَظْلِمَةٌ)) (مسند احمد، ج۱۴ص۱۶۳، رقم: ۸۴۴۸، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
فتاوی عالم گیری میں ہے: ’’وَمَنْ اشْتَرَى شَيْئًا وَأَغْلَى فِي ثَمَنِهِ فَبَاعَهُ مُرَابَحَةً عَلَى ذَلِكَ جَازَ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، الباب الرابع عشر فی المرابحۃ و التولیۃ، ج۳ص۱۶۱، ط: دار الفکر، بیروت) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۵؍ ربیع الآخر ۱۴۴۵ھ
۳۱؍اکتوبر ۲۰۲۳ء
Lorem Ipsum