وائی فائی کنیکشن لگانے کی کمائی کیسی ہے
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حضرت کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ زید ایک نمازی لڑکا ہے اور وہ ٹی وی اور وائی فائی کے کنیکشن کا کام کرتا ہے اور بکر جو عالم دین ہے ان کا کہنا ہے کہ ٹی وی اور وائی فائی کنیکشن کے کام سے جو تنخواہ ملتی ہے وہ جائز نہیں ہے، حضرت کیا بکر کا کہنا درست ہے؟
المستفتی: حافظ ابرار، پیکولیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بکر کا کہنا صحیح نہیں، ٹی وی اور وائی فائی کنیکشن لگانے کا کام کرنا جائز ہے؛ کیوں کہ بذات خود ٹی وی یا وائی فائی میں گناہ نہیں بلکہ ٹی وی اور وائی کے ذریعہ غلط چیزیں دیکھنا گناہ ہے؛ لہذا زید کے لیے اس کی تنحواہ بھی جائز و حلال ہے۔
حضرت فقیہ ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’زید اجرت پر سنیما ہال وغیرہ کی آرائش کراسکتا ہے بشرط کہ اس میں تصویر سازی کا کام شامل نہ ہو؛ اس لیے کہ سنیما دیکھنا گناہ ہے نہ کہ سنیما آرائش میں اجرت پر کام کرنا۔ یہاں تک کہ اجرت پر راج گیر کا گرجا یا شوالہ بنانا بھی جائز ہے‘‘۔ (فتاوی فیض الرسول، فقیہ ملت، کتاب الإجارۃ، ج۲ص۴۱۹، ط: شبیر برادرز، لاہو)
فتاوی خانیہ علی الھندیۃ میں ہے: ’’و کذا لو بنی بالأجر بیعة أو کنیسة للیھود و النصاری طاب له الأجر‘‘۔ (فتاوی قاضی خاں، کتاب الإجارات، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ج۲ص۳۲۴، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
، و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۴؍جمادی الأولی ۱۴۴۲ھ
Lorem Ipsum