ناک چپٹی ہے جس کی وجہ سے سجدہ میں ہڈی زمین پر نہیں لگتی

باسمہ تعالی

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید مسجد کا امام ہے، اس کی ناک چپٹی ہے، حالت سجدہ میں ناک کی ہڈی کا زمین پر جمنا تو در کنار ناک زمین سے مس بھی نہیں ہوتی، لوگوں کے اعتراض کرنے پر زید کہتا ہے کبھی جلد بازی میں ایسا ہوگیا ہوگا، حالاں کہ مقتدیوں نے زید کو کئی بار اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، نیز زید کہتا ہے کہ اب میں اپنی ناک کی ہڈی زمین پر جمانے کی کوشش کرتا ہوں، آپ لوگ دیکھ کر بتائیں کہ میری ناک کی ہڈی زمین پر جمتی ہے کہ نہیں، زید کو خود اطمینان قلب نہیں ہے۔

ایسی صورت میں زید معذور ہے کہ نہیں، اگر معذور ہے تو اس کا عذر سلسل بول والے کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جس کے پاؤں میں ایسا لنگ ہے کہ پورا پاؤں زمین پر نہیں جمتا، دونوں میں زید کے پیچھے علما و عوام کی نماز ہوگی کہ نہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

المستفتی: حاجی محمد خلیل احمد صابری، سومناتھ، گجرات۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب اگر زید کی ناک اتنی زیادہ چپٹی ہے کہ کوشش کے باوجود اس کے ناک کی سخت ہڈی زمین پر نہیں لگ پاتی؛ تو اب وہ معذور ہے، اگر اس کی قراءت صحیح ہے اور موجودہ لوگوں میں وہی مسائل نماز کا زیادہ جانکار بھی ہے؛ تو وہی امامت کا زیادہ حق دار ہے اور اس صورت میں سب کی نماز بلاکراہت ہوجائے گی، لیکن اگر صحیح قراءت والا کوئی دوسرا شخص ہے اور وہ زید سے زیادہ مسائل نماز کا جانکار بھی ہے؛ تو اب یہی امامت کا زیادہ حق دار ہے اور اس صورت میں بھی زید کے پیچھے نماز ہوجائے گی مگر مکروہ تنزیہی ہوگی۔

لیکن اگر تھوڑی بہت چپٹی ہے کہ اگر زید کوشش کرے؛ تو اس کے ناک کی سخت ہڈی زمین سے لگ جائے گی مگر لاپرواہی کرتا ہے اور ناک کی ہڈی زمین سے نہیں لگاتا ہے؛ تو اس صورت میں اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوگی، جتنی نمازیں اس نے اس حالت میں پڑھائی ہیں، سب کا اعادہ واجب ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: ’’إنْ كَانَ مِنْ عُذْرٍ لَا يُكْرَهُ وَإِنْ كَانَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَإِنْ وَضَعَ جَبْهَتَهُ دُونَ أَنْفِهِ جَازَ إجْمَاعًا وَيُكْرَه‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، الباب الرابع فی صفۃ الصلاۃ،  الفصل الأول فی فرائض الصلاۃ، ج۱ص۷۰، ط: دار الفکر، بیروت)

الدر المختار میں ہے: ’’(وَسَجَدَ بِأَنْفِهِ) أَيْ عَلَى مَا صَلُبَ مِنْهُ‘‘۔

اس کے تحت رد  المحتار میں ہے: ’’(قَوْلُهُ أَيْ عَلَى مَا صَلُبَ مِنْهُ) وَأَمَّا مَا لَانَ مِنْهُ فَلَا يَجُوزُ الِاقْتِصَارُ عَلَيْهِ بِإِجْمَاعِهِمْ بَحْرٌ‘‘۔

الدر المختار ہی میں ہے: ’’(وَكُرِهَ اقْتِصَارُهُ) فِي السُّجُودِ (عَلَى أَحَدِهِمَا) وَمَنَعَا الِاكْتِفَاءَ بِالْأَنْفِ بِلَا عُذْرٍ وَإِلَيْهِ صَحَّ رُجُوعُهُ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى‘‘۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فی إطالۃ الرکوع للجائی، ج۱ص۴۹۸، ط: دار الفکر، بیروت)

الدر المختار میں ہے: ’’وَكَذَا كُلُّ صَلَاةٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاهَةِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُهَا‘‘۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب واجبات الصلاۃ، ج۱ص۴۵۷) و اللہ تعالی أعلمــــــــــــــــــ

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۲۸؍شوال المکرم ۱۴۴۱ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.