موٹا چاند دو راتوں کا چاند!
قابل قدر حضرت مولانا مفتی نثار احمد مصباحی زید علمہ کی بر محل و بروقت تحریر بعنوان: موٹا چاند دیکھ کر فلسفہ بگھارنے والوں کے لیے…… میں موجود حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ضعیف قرار دینے کا علمی و فنی جائزہ۔
تحریر نثارمصباحی:
امام طبرانی المعجم الاوسط میں ایک “حدیثِ حسن” روایت فرماتے ہیں :
اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا :
من اقتراب الساعة أن يرى الهلال قبلا فيقال لليلتين، وأن تتخذ المساجد طرقاً، وأن يظهر موت الفجأة.
امام مناوی “التنویر شرح الجامع الصغیر” میں اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
(من اقتراب الساعة أن يرى الهلال قبلاً) بفتح القاف والباء الموحدة أي ساعة ما يطلع، لعظمته ووضوحه من غير أن يتطلب. (فيقال: لليلتين) أي يقول من رآه: إنه لليلتين وما هو إلا لليلة.
یعنی قیامت کی نشانی ہے کہ نیا چاند نکلتے ہی اپنے موٹے اور واضح ہونے کی وجہ سے بغیر تلاش کیے فورا نظر آ جائے گا. تو کہا جائے گا کہ یہ دو راتوں کا ہے!!! (حال آں کہ وہ دو رات کا نہیں بلکہ اُسی رات کا بالکل نیا چاند ہوگا)
نیز قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مسجدوں کو راستہ بنا لیا جائے گا.
نیز اچانک ہونے والی موت کی کثرت ہوگی.
امام طبرانی المعجم الصغیر میں ایک “حدیثِ صحیح” روایت فرماتے ہیں :
من اقتراب الساعۃ انتفاخ الأھلۃ, و أن يرى الهلال لليلته فيقال: لليلتين.
قیامت قریب ہونے کی ایک نشانی نئے چاند کا موٹا ہونا بھی ہے. نیز یہ کہ چاند اُسی رات کا ہوگا, پھر بھی کہا جائے گا کہ دو راتوں کا ہے.!!!!
صحیح مسلم شریف, کتاب الصوم میں ایک حدیث ہے:
عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ.
قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّام،ِ فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ.
ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا. ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمْ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَة. فَقَال:َ أَنْتَ رَأَيْتَهُ ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ.
فَقَالَ: لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ. فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ ؟
فَقَالَ : لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
یعنی حضرتِ کُرَیب (تابعی) کو ام الفضل بنت حارث نے ایک کام سے حضرتِ امیرِ معاویہ کے پاس ملکِ شام بھیجا. (یہ حضرتِ امیرِ معاویہ کے زمانۂ خلافت کا واقعہ ہے).
حضرتِ کریب وہاں گئے. کام کیا. اسی دوران وہاں رمضان کا چاند نظر آگیا. فرماتے ہیں : جمعہ کی رات (29 شعبان کو) مَیں نے چاند دیکھا.
پھر مہینے (یعنی رمضان) کے آخر میں مَیں مدینہ شریف واپس آیا.
حضرتِ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے رمضان کے نئے چاند کا تذکرہ ہوا تو انھوں نے پوچھا:
تم لوگوں نے وہاں چاند کب دیکھا؟
مَیں نے کہا : ہم نے جمعے کی رات اسے دیکھا.
عبد اللہ بن عباس نے پوچھا: تم نے خود دیکھا؟
کریب نے جواب دیا: ہاں, مَیں نے خود دیکھا. لوگوں نے بھی دیکھا. اور جمعہ کو تمام لوگوں اور خلیفۂ وقت امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا.
اس پر حضرتِ عبد اللہ بن عباس نے فرمایا:
لیکن, ہم نے تو سنیچر کی رات چاند دیکھا. تب سے ہم روزہ رکھ رہے ہیں. اب ہم (سنیچر کے اعتبار سے) یا تو تیس روزے پورے کریں گے, یا (29 ہی کو) چاند دیکھ لیں گے.
مَیں نے عرض کی:
کیا (حاکِم اسلام) امیرِ معاویہ کا چاند دیکھنا اور (جمعہ ہی کو) روزہ رکھنا آپ کے لیے کافی نہیں؟؟
حضرتِ عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا:
نہیں.
اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہمیں اِسی کا حکم دیا ہے.
(صحیح مسلم شریف)
مسلم شریف میں ہی ایک اور حدیث پاک ہے:
(بابُ بيان أنه لا اعتبار بكبر الهلال وصغره وأن الله تعالى أمده للرؤية فإن غم فليكمل ثلاثون)
1088- عن أبي البختري قال خرجنا للعمرة، فلما نزلنا ببطن نخلة، قال: تراءينا الهلال. فقال بعض القوم: هو ابن ثلاث. وقال بعض القوم: هو ابن ليلتين. قال: فلقينا ابن عباس ، فقلنا : إنا رأينا الهلال فقال بعض القوم هو ابن ثلاث وقال بعض القوم هو ابن ليلتين فقال : أي ليلة رأيتموه ؟ قال : فقلنا : ليلة كذا وكذا. فقال : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن الله مده للرؤية فهو لليلة رأيتموہ.
ابو البختری بیان کرتے ہیں. ہم عمرے کے لیے نکلے. جب ہم “بطن نخلہ” تو ہم نے چاند دیکھنے کی کوشش کی. کچھ لوگوں نے چاند دیکھ کر کہا: یہ تین دن کا ہے. کچھ نے کہا: یہ دو دن کا ہے.
پھر ہماری ملاقات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ہوئی. ہم نے عرض کی: ہم نے چاند دیکھا تو کوئی اسے تین دن کا کَہ رہا تھا اور کوئی اسے دو دن کا کَہ رہا تھا.
حضرتِ ابن عباس نے پوچھا: تم نے کس دن دیکھا.
ہم نے کہا: فلاں دن دیکھا.
تو آپ نے فرمایا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ نے رویت کے لیے اسے موٹا کر دیا ہے. وہ اسی دن کا ہے جس دن تم نے دیکھا ہے.
(صحیح مسلم کتاب الصوم, باب بیان أنہ لا اعتبار بکبر الهلال و صغره)
نئے چاند کے موٹے اور دیر تک رہنے کا فلسفہ بگھارنے والے اِن احادیث کو پہلے دیکھیں. پھر خدا توفیق دے تو دینی احکام سمجھنے کی کچھ کوشش کریں. بلا وجہ کا ڈرامہ اور جاہلانہ ہنگامہ کر کے مسلمانوں کے اس مقدس مہینے کے قیمتی لمحات ضائع نہ کریں.
نثارمصباحی
شبِ اول رمضان 1439ھ
ضعیف قرار دینے کا علمی و فنی جائزہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ اس حدیث کی شاہد حضرت طلحہ بن ابی حدرد رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب التاریخ الکبیر میں موجود ہے، اسے بطور شاہد ان ائمہ کرام نے قبول کیا ہے:
امام سخاوی رحمہ اللہ المقاصد الحسنۃ، امام عجلونی رحمہ اللہ کشف الخفاء اور البانی نے اپنے پر تشدد رویہ کے باوجود حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ، نیز امام مقدسی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الأحادیث المختارۃ أو المستخرج من الأحادیث المختارۃ مما لم یخرجہ البخاری و مسلم فی صحیحیھما میں اس روایت کی تخریج کی ہے، اس کے بعد آپ نے اس روایت کے متعلق امام طبرانی اور امام دارقطنی رحمہما اللہ کے نقد کو بھی نقل کیا ہے۔
بہر کیف حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ یہ حدیث ضعیف نہیں بلکہ امام مقدسی رحمہ اللہ کے مطابق صحیح یا دیگر ائمہ کے اعتبار سے کم از کم حسن ضرور ہے۔
نوٹ: بہت سارے ائمہ کرام نے حدیث حسن پر بھی حدیث صحیح کا اطلاق کیا ہے جیسے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ وغیرہ، لہذا اگر کوئی اس لحاظ سے حدیث حسن کو صحیح حدیث کہے تو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
و اللہ أعلم۔
طالب دعا:
أزھار أحمد أمجدی أزھری
خادم: مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج،
بستی، یوپی، انڈیا۔
١۸/مارچ ۲۰١۸ء