مدارس کے اصول و ضوابط،کمیٹی و منتضمین کا کردار اور اساتذہ کی ذمہ داری۔
بسم اللہ الرحمن الررحیم
حضور مفتی صاحب قبلہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اولاً: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل پر کہ زید ایک مدرسے کا صدرالمدرسین ہے۔ مگر زید نے نا اپنے لیے نا دیگر مدرسین کیلئے کوئی اصول و ضوابط ادارہ میں بنائیں ہیں۔ زید دوسرے مدرسین پر تعلیمی معاملے میں اور تعطیل کے معاملے میں سختی رکھتا ہے۔ اور خود تعلیمی معاملے میں اکثر درس کے پورے اوقات میں حاضر نہیں رہتا۔ جبکہ متعینہ تنخواہ پوری لیتا ہے۔مدرسہ کے رجسٹریشن اور مانتا پراپت کرانے کی دوڑ بھاگ بتاکر اکثر درس کے اوقات میں کمی کرتا ہے۔ جبکہ یہ کام تقریباً چار سال سے صرف سنا جارہا ہے۔ اور اس بابت باوثوق ذرائع سے خبر ملی کے مدرسہ ہذا کا اب تک ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہوچکا اور کچھ حاصل بھی نہیں ہوا۔ اور زید نے اپنی لیے سالانہ رخصت اتفاقیہ کو متعین نہیں کیا۔ گاؤں والوں سے تواتر کے ساتھ یہ خبر ملی کہ وہ سال میں بمشکل سات سے آٹھ ماہ ادارہ میں رہتے ہیں باقی دن وہ اپنے گھر میں گزارتے ہیں اور یہ تعطیل کلاں کو چھوڑ کر اتنی رخصت کرتے ہیں۔ کیا کمیٹی اور صدرالمدرسین مدرسہ ہذا کا صحیح معنوں میں حق ادا کر رہے ہیں؟
ثانیاً: زید جب بھی مدرسہ میں موجود ہوتا ہے۔ تو اکثر فجر کے وقت سویا رہتا ہے اور نماز کا وقت نکل جاتا ہے۔ اور مدرسہ سے مسجد کی دوری صرف تین منٹ کی ہے۔ پھر بھی زید اکثر نمازوں میں باجماعت شامل نہیں ہوتا ایسے حافظ و قاری خطیب کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
ثالثاً: زید میلاد خوانی میں عورتوں کو سامنے بٹھاتا ہے۔ یعنی ایک جانب مرد اور ایک جانب تھوڑے فاصلے پر عورتیں بکر جو ممبئی میں ایک ادارہ اور مسجد کا ذمہ دار ہے گاؤں میں اس ماحول کے تعلق سے زید کو رد کرنے کے لیے کہتا ہے تو زید کہتا ہے ہم بہت بول چکے ہیں مگر لوگ عمل نہیں کرتے۔ مگر زید نے کبھی بھی بکر کے سامنے اس مسئلے کو عوام الناس کے سامنے واضح نہیں کیا بلکہ گاؤں والوں کے ذریعے بکر کو یہ خبر لگی کہ زید میلاد خوانی میں خواتین کو چچی بھابھی فلاں کی اماں مخاطب کرکے پکارتا بھی ہے جس سے عورتیں خوش ہوکر نذرانہ بھیجتی ہیں۔ جبکہ زید اگر چاہے تو یہ کہہ سکتا ہیکہ اگر آپ لوگ پردے کا اہتمام نہیں کریں گے تو ہم میلاد خوانی میں شرکت نہیں کریں گے۔اور پردے کے تعلق سے ایک نقطہ یہ بھی ہیکہ زید کسی کے بھی گھر میں بلا اجازت کے اس گھر کے لوگوں کا نام پکارتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوجاتا ہے۔ وہ داخل ہوتے وقت جو آواز لگاتا ہے اسی کو اپنے دماغ سے اجازت شرعی سمجھتا ہے۔ کیا ایسا شخص میلاد خوانی اور مسجد میں خطاب کر سکتا ہے یا نماز پڑھا سکتا ہے؟
رابعاً: زید نے گزشتہ الیکشن کے وقت گاؤں کے باہر ایک مزار شریف کی چادر ایک غیر مسلم نیتا کے سرپر باندھی اور نعرے لگائے یا لگوائے۔ اس کے علاوہ زید کا گاؤں کی پردھانی الیکشن ہو یا کسی بھی طریقے کا سیاسی معاملہ ہو اس میں اس کا ظاہری یا باطنی طور پر کسی کی حمایت کرنا اور کسی کو نظر انداز کرنے کا ماحول بنانے کی کوشش کرنا یہ کیسا ہے اس بابت بھی ارشاد فرمائیں؟
خامساً: کمیٹی کے دو افراد اور زید مل کر سالانہ رمضان المبارک میں چندہ کرتے ہیں۔ اور اس کا حساب عید کے بعد کمیٹی کے ان دو افراد میں سے کسی ایک کے گھر ممبئی میں ہوتا ہے۔ چوتھے کسی شخص کو آج سات سالوں سے آمدورفت کی معلومات نہیں دی جاتی۔ اور جب سے اب تک ادارہ میں کوئی تعمیری کام بھی نہیں ہوا۔ اور بتایا جاتا ہیکہ بیلینس بھی نہیں گاؤں کے باہر سرکاری پرائیویٹ اسکول ہونے کے باوجود بھی مدرسہ میں مانتا پراپت کرانے کے لیے اسکول کی تعلیم شروع کرائی جس سے دینی تعلیم پر بہت اثر پڑا۔ اور مدرسہ کے چندہ سے زید کو ایک موٹر بائک یہ کہہ کر دلوائی کے مدرسہ کو سرکاری کرانے کے لیے جو بھاگ دوڑ آپ کو کرنا ہے۔ وہ اس سے کیجئے، کیا یہ عمل زید اور کمیٹی کیلئے درست ہیں؟ ان تمام مسائل کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل عنایت فرمائیں، عین کرم ہوگا۔
المستفتی: محمد آصف رضا برکاتی۔ جنرل سیکریٹری امام احمد رضا دارالافتاء اینڈ ایجوکیشنل ٹرسٹ و خطیب و امام طیبہ مسجد میرا روڈ پالگھر۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب (۱) مدرسے کی جو معروف چھٹیاں ہیں، اگر زید واقعی ان کے علاوہ دنوں میں غیر حاضر رہتا ہے؛ تو وہ ان دنوں کی تنخواہ لینے کا حق دار نہیں، اگر لے گا؛ تو گنہ گار ہوگا، البتہ اگر واقعی کبھی مدرسے کے کام سے گیا؛ جس کی وجہ سے وہ غیر حاضر رہا؛ تو اس صورت میں وہ اس دن کی تنخواہ کا مستحق ہوگا۔
الأشباہ و النظائر میں ہے: ’’الْبَطَالَةُ فِي الْمَدَارِسِ، كَأَيَّامِ الْأَعْيَادِ وَيَوْمِ عَاشُورَاءَ، وَشَهْرِ رَمَضَانَ فِي دَرْسِ الْفِقْهِ لَمْ أَرَهَا صَرِيحَةً فِي كَلَامِهِمْ.
وَالْمَسْأَلَةُ عَلَى وَجْهَيْنِ: فَإِنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً لَمْ يَسْقُطْ مِنْ الْمَعْلُومِ شَيْءٌ، وَإِلَّا فَيَنْبَغِي أَنْ يَلْحَقَ بِبَطَالَةِ الْقَاضِي، وَقَدْ اخْتَلَفُوا فِي أَخْذِ الْقَاضِي مَا رُتِّبَ لَهُ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ بَطَالَتِهِ، فَقَالَ فِي الْمُحِيطِ: إنَّهُ يَأْخُذُ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ؛ لِأَنَّهُ يَسْتَرِيحُ لِلْيَوْمِ الثَّانِي وَقِيلَ: لَا يَأْخُذُ (انْتَهَى) وَفِي الْمُنْيَةِ: الْقَاضِي يَسْتَحِقُّ الْكِفَايَةَ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ فِي الْأَصَحِّ، وَاخْتَارَهُ فِي مَنْظُومَةِ ابْنِ وَهْبَانَ، وَقَالَ: إنَّهُ الْأَظْهَرُ‘‘۔ (الأشباہ و النظائر، امام ابن نجیم، الفن الأول، القائدۃ السادسۃ، ص۸۱، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
رد المحتار میں ہے: ’’وَفِي فَتَاوَى الْحَانُوتِيِّ يَسْتَحِقُّ الْمَعْلُومَ عِنْدَ قِيَامِ الْمَانِعِ مِنْ الْعَمَلِ وَلَمْ يَكُنْ بِتَقْصِيرِهِ سَوَاءٌ كَانَ نَاظِرًا أَوْ غَيْرَهُ كَالْجَابِي‘‘۔ (رد المحتار مع الدر المختار، امام ابن عابدین شامی، مطلب فی قطع الجھات لأجل العمارۃ، ج۴ص۳۷۲، ط: دار الفکر، بیروت)
(۲) اگر زید واقعی اکثر سوکر فجر کی نماز قضا کردیتا ہے یا باجماعت نماز نہیں پڑھتا ہے؛ تو وہ فاسق و فاجر ہے، اس پر لازم ہے کہ فورا توبہ کرے اور اپنی اس عادت قبیحہ سے باز آئے۔
مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’اگر قصدا قضا کی اگرچہ اتفاق سے تو فاسق ہوگیا‘‘۔ (فتاوی رضویہ، محدث بریلوی، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ج۵ص۲۵۰، ط جدید: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
نیز فرماتے ہیں: ’’اور اگر بلاوجہ شرعی جماعت ترک کرتا ہے؛ تو سخت گنہ گار، فاسق ہے، اس پر توبہ واجب ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، محدث بریلوی، کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، ج۵ص۴۷۰)
(۳) اگر واقعی عورتیں میلاد شریف میں بے پردہ بیٹھتی ہے؛ اگر زید کو غالب گمان ہے کہ وہ اثر پذیر ہوں گی؛ تو زید پر لازم ہے کہ انہیں اس بے پردگی سے حتی الامکان روکنے کی کوشش کرے، اگر نہیں روکے گا؛ تو گنہ گار ہوگا اور اگر غالب گمان ہے کہ اثر پذیر نہیں ہوں گی؛ تو بھی بہتر یہی ہے کہ انہیں بے پردگی سے روکنے کی پوری کوشش کرے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ذَكَرَ الْفَقِيهُ فِي كِتَابِ الْبُسْتَانِ أَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ عَلَى وُجُوهٍ إنْ كَانَ يَعْلَمُ بِأَكْبَرِ رَأْيِهِ أَنَّهُ لَوْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ يَقْبَلُونَ ذَلِكَ مِنْهُ وَيُمْنَعُونَ عَنْ الْمُنْكَرِ فَالْأَمْرُ وَاجِبٌ عَلَيْهِ وَلَا يَسَعُهُ تَرْكُهُ وَلَوْ عَلِمَ بِأَكْبَرِ رَأْيِهِ أَنَّهُ لَوْ أَمَرَهُمْ بِذَلِكَ قَذَفُوهُ وَشَتَمُوهُ فَتَرْكُهُ أَفْضَلُ، وَكَذَلِكَ لَوْ عَلِمَ أَنَّهُمْ يَضْرِبُونَهُ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى ذَلِكَ وَيَقَعُ بَيْنَهُمْ عَدَاوَةٌ وَيَهِيجُ مِنْهُ الْقِتَالُ فَتَرْكُهُ أَفْضَلُ، وَلَوْ عَلِمَ أَنَّهُمْ لَوْ ضَرَبُوهُ صَبَرَ عَلَى ذَلِكَ وَلَا يَشْكُو إلَى أَحَدٍ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَنْهَى عَنْ ذَلِكَ وَهُوَ مُجَاهِدٌ وَلَوْ عَلِمَ أَنَّهُمْ لَا يَقْبَلُونَ مِنْهُ وَلَا يَخَافُ مِنْهُ ضَرْبًا وَلَا شَتْمًا فَهُوَ بِالْخِيَارِ وَالْأَمْرُ أَفْضَلُ كَذَا فِي الْمُحِيطِ. إذَا اسْتَقْبَلَهُ الْآمِرُ بِالْمَعْرُوفِ وَخَشِيَ أَنْ لَوْ أَقْدَمَ عَلَيْهِ قُتِلَ فَإِنْ أَقْدَمَ عَلَيْهِ وَقُتِلَ يَكُونُ شَهِيدًا كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة.‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الکرھیۃ، الباب السابع عشر فی الغناء و اللھو، ج۵ص۳۵۲، ط: دار الفکر، بیروت)
گھر والوں کا نام لیتے ہوئے گھر میں داخل ہونا اور اسی نام لینے کو اجازت سمجھنا درست نہیں، خاص کر جب کہ گھر میں مستورات رہتی ہوں کہ اس سے بے پردگی ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے؛ لہذا زید کو اپنی اس غلط عادت سے باز آجانا چاہیے اور جب کسی کے گھر میں داخل ہونے کا ارادہ ہو؛ تو پہلے اجازت لے، جب اجازت مل جائے؛ تو داخل ہو اور سلام کرے۔
فتاوی عالمگیری ہی میں ہے: ’’إذَا أَتَى رَجُلٌ بَابَ دَارِ إنْسَانٍ يَجِبُ أَنْ يَسْتَأْذِنَ قَبْلَ السَّلَامِ، ثُمَّ إذَا دَخَلَ يُسَلِّمُ أَوَّلًا ثُمَّ يَتَكَلَّمُ، وَإِنْ كَانَ فِي الْفَضَاءِ يُسَلِّمُ أَوَّلًا ثُمَّ يَتَكَلَّمُ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الکراھیۃ، الباب السابع فی السلام، ج۵ص۳۲۴)
(۴) غیر مسلم نیتا کے سر پر مزار شریف کی چادر باندھنا اور نارہ لگانا یا لگوانا اگر اس کی تعظیم کی بنیاد پر ہے؛ تو یہ بہت بڑا گناہ بلکہ کفر ہے اور اگر تعظیم کی بنیاد پر نہیں بلکہ کسی صحیح شرعی غرض کے پیش نظر ہے؛ تو کفر و گناہ نہیں۔
الدر المختار میں ہے: ’’(وَلَوْ سَلَّمَ عَلَى الذِّمِّيِّ تَبْجِيلًا يَكْفُرُ) لِأَنَّ تَبْجِيلَ الْكَافِرِ كُفْرٌ وَلَوْ قَالَ لِمَجُوسِيٍّ يَا أُسْتَاذُ تَبْجِيلًا كَفَرَ‘‘۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ’’(قَوْلُهُ تَبْجِيلًا) قَالَ فِي الْمِنَحِ قَيَّدَ بِهِ لِأَنَّهُ لَوْ لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ بَلْ كَانَ لِغَرَضٍ مِنْ الْأَغْرَاضِ الصَّحِيحَةِ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَلَا كُفْرَ ……….. وَالظَّاهِرُ أَنَّ الذِّمِّيَّ لَيْسَ بِقَيْدٍ‘‘۔ (رد المحتار مع الدر المختار، امام ابن عابدین، ج۶ص۴۱۳، ط: دار الکفر، بیروت)
(۵) مدرسے کی وصولی کا حساب و کتاب کرنا کمیٹی والوں کا کام ہے، اگر کمیٹی میں یہی دو لوگ ہیں تو اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اگر کمیٹی میں دو سے زائد لوگ ہیں؛ تو حساب و کتاب کے بعد جتنے لوگ ہیں، سب کو اس حساب و کتاب کا علم ہونا چاہیے؛ تاکہ کسی طرح کی بے رواہ روی نہ ہونے پائے۔ نیز اگر واقعی مدرسے میں اسکول کی تعلیم شروع کرنے کی وجہ سے دینی تعلیم کا مقصد فوت ہوگیا ہے؛ تو یہ بہت بڑا جرم ہے، ذمہ داران کو فورا مدرسے کی تعلیم کو اس طریقہ کار پر لانا ضروری ہے کہ جس سے دینی تعلیم کا مقصد کبھی فوت نہ ہو، ورنہ سبھی لوگ سخت گنہ گار و مستحق عذاب نار ہوں گے۔ اور اگر واقعی مدرسے کے کاموں کے لیے بائک کی ضرورت تھی؛ تو مدرسے کی ضرورت کے لیے بائک خرید نے میں حرج نہیں۔
فتاوی عالمگیری ہی میں ہے: ’’وَلَا يَجُوزُ تَغْيِيرُ الْوَقْفِ عَنْ هَيْئَتِهِ فَلَا يَجْعَلُ الدَّارَ بُسْتَانًا وَلَا الْخَانَ حَمَّامًا وَلَا الرِّبَاطَ دُكَّانًا‘‘۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الوقف، الباب الرابع عشر فی المتفرقات، ج۲ص۴۹۰)
زید سے متعلق سوال میں مذکور خلاف شرع باتیں اگر مبنی بر حقیقت ہیں؛ تو زید پر لازم ہے کہ معروف دنوں کی چھٹیوں کے علاوہ، غیر حاضری کی تنخواہ لینے، اکثر فجر کی نماز قضا یا جماعت کے ساتھ نہ پڑھنے، قدرت کے باوجود اثر پذیر ہونے کی صورت میں بے پردگی سے منع نہ کرنے، بلا اجازت گھر میں داخل ہونے سے علانیہ توبہ کرے اور اگر مزار شریف کی چادر باندھنے و نعرہ سے کافر کی تعظیم مقصود ہو؛ تو تجدید ایمان و تجدید نکاح بھی کرے اور معروف دنوں کی چھٹیوں کے علاوہ، غیر حاضری کی جو تنحواہ لی ہے، اسے مدرسہ میں واپس کرے، اپنے ان خلاف شرعی کاموں پر نادم ہو اور عہد کرے کہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا، اگر زید ایسا کرلے؛ تو اسے امامت و خطابت کرنے دیا جائے، ورنہ اسے امامت و خطابت سے برخاست کردیا جائے۔ و اللہ تعالی أعلم۔
نوٹ: کمیٹی والوں پر لازم و ضروری ہے کہ وہ مدرسے کے اصول و ضوابط بنالیں اور پھر انہیں کے مطابق مدرسے کو چلایا جائے؛ تاکہ مدرسہ نظم و ضبط کے ساتھ اپنے مقاصد کی جانب رواں دواں رہے۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۸؍جمادی الآخرۃ ۱۴۴۲ھ
Lorem Ipsum