مارکشیٹ یا اصل کے اعتبار سے عمر بتانے کا حکم۔
سوال: شہزادہ فقیہ ملت، فقیہ عصر، حضرت العلام مفتی ازہار حمد صاحب قبلہ امجدی ازہری۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ گذارش ہے کہ زید کا یبٹا ۳۱؍دسمبر ۲۰۲۲ عیسوی میں پیدا ہوا مگر والدین نے ادھار کارڈ اور سرٹیفکیٹ میں ۲۰۰۴ لکھوایا یعنی دو سال کم کرکے؛ لہذا اسی اعتبار سے ۳۱ دسمبر کو اس لڑکے کے والد نے مبارک باد اور دعاؤں سے نوازتے ہوئے لکھا کہ اب میرا بیٹا ۱۸ سال کا، اللہ کے کرم و فضل سے ہوگیا؛ تو بکر نے کہا کہ آپ کا اس طرح تحریر کرنا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ آپ کا بیٹا ۲۰ سال کا ہوگیا اور ۱۸ سال کی دعائیہ کلمات سے نواز رہے ہیں؛ لہذا آپ مفتی صاحب بتائیں کہ کیا کوئی شرعی خرابی اور اخلاقی جرم ہے، ان کے والدین کا۔ مستحکم و مضبوط دلائل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں گے اور شکریہ کا موقع دیں۔
آپ کا مخلص و خیر خواہ: ابو الشفاء محمد معصوم رضا صدیقی اشرفی عاصم بھاگلپوری
بانی، صدر دار الطاھرۃ، گرلس ایجوکیشنل شوسل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ، بھاگلپور، بہار-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اگر زید نے اپنے بیٹے کی عمر، آدھار یا سرٹیفکیٹ کے اعتبار سے بتائی کہ میرے بیٹے کی عمر ۱۸ سال ہوگئی؛ تو یہ جھوٹ نہیں؛ لہذا اس صورت میں اپنے بیٹے کی عمر ۱۸ سال بتانے میں کوئی شرعی خرابی نہیں، مگر بچنا ہی بہتر ہے کہ عوام اسے جھوٹا ہی سمجھیں گے۔
حدیث پاک میں ہے: ((إِيَّاك وَمَا يَسُوءُ الْأُذُنَ)) (مسند أحمد بن حنبل، ج۲۷ص۲۵۳، رقم: ۱۶۷۰۱، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
اور اگر زید نے یہ سمجھ کر کہ حقیقت میں اس کے بیٹے کی عمر ۱۸ سال ہوگئی اور اس نے اپنے بیٹے کی عمر ۱۸ سال بتائی؛ تو اس صورت میں یہ جھوٹ ہے؛ کیوں کہ حقیقت کے لحاظ سے اس کے بیٹے کی عمر ۱۸ سال نہیں بلکہ ۲۰ سال ہے اور جھوٹ بولنا، شرعا ناجائز و گناہ کبیرہ ہے؛ لہذا اس صورت میں زید سخت گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا، اس پر توبہ لازم ہے۔ اور اگر اس جھوٹ پر اللہ تعالی کے کرم و فضل کا ذکر، حلال سمجھ کر کیا؛ تو اب یہ کفر بھی ہے، اب اس صورت میں توبہ کافی نہیں بلکہ توبہ کے ساتھ لازم ہے کہ تجدید ایمان و تجدید نکاح بھی کرے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ﴾ (النحل:۱۶، آیت: ۱۰۵)
حدیث شریف میں ہے: ((إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى البِرِّ، وَإِنَّ البِرَّ يَهْدِي إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يَكُونَ صِدِّيقًا. وَإِنَّ الكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الفُجُورِ، وَإِنَّ الفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا)) (صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب قول اللہ تعالی: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ} وَمَا يُنْهَى عَنِ الكَذِبِ، ج۸ص۲۵، رقم: ۶۰۹۴، ط: دار طوق النجاۃ)
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے: ’’و الصحیح أنه إن استحل ذلك عند فعل المعصیة کفر و إلا لا و تلزمه التوبة‘‘۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص۳ص، ط: دار الإیمان، بیروت) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۲؍ربیع الآخر ۱۴۴۵ھ
۷؍نومبر ۲۰۲۳ء
Lorem Ipsum