لاک ڈاؤن میں مدرسین کی تنخواہ کا حکم
حضرت مفتی ازہار صاحب قبلہ پہلے تو آپ کی قابل تحسین ہمت پر مبارکباد، دوسرے یہ کہ اس حوالے سے ایک فتوی جاری ہونا چاہیے، سوالات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)جو مدارس مسلمانوں کے چندے سے چلتے ہیں کیا وہ لاک ڈاؤن میں اپنے مدرسین کو تنخواہ دیں، یہاں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ چوں کہ تعاون بالکل بھی نہیں ہوا ہے یا پھر بہت کم اور آئندہ امسال امید بھی کم ہے اور مدرسین بھی ذمہ داری نہیں لے رہے ہیں کہ وہ چندہ کرنے میں ادارے کا تعاون کریں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ چندہ تو نہیں ہوپایا یا بہت کم ہوا ہے تاہم مدرسین کا کہنا ہے کہ ہم سارے مدرسین ادارے کے حلقہ اثر یا جہاں سے بھی ممکن ہوسکے گا چندہ کریں گے اور کم از کم اپنی تنخواہ کا انتظام بہر حال کرلیں گے، اب اس صورت کا اور پہلی صورت کا حکم شرعی بیان کیا جائے؟
(۲) کچھ مکاتب و اسکول جو در اصل طلبہ کی فیس پر ڈپینڈ ہیں یعنی ان کا کوئی باہری تعاون نہیں ہے، اب چوں طلبہ پڑھنے ہی نہیں آرہے ہیں تو ان کی فیس بھی ندارد ہے، ایسی صورت حال میں ٹیچر و مدرسین کی تنخواہ کا کیا حکم ہے؟
المستفتی: توصیف رضا مصباحی، سنبھل، یوپی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب موجودہ حالات میں دو طرح کی تنخواہ کا مسئلہ در پیش ہے، ایک تعطیل کلاں اور دوسری تعطیل کلاں کے علاوہ ایام میں لاک ڈاؤن کی تنخواہ۔
پہلی صورت میں اگر مدرس نے اپنی تقرری اس شرط پر قبول کی تھی کہ وہ تعطیل کلاں کی تنخواہ لے گا؛ تو اس صورت میں مدرس کو تعطیل کلاں کی تنخواہ دینی ہوگی اور اگر یہ شرط تھی کہ تعطیل کلاں کی تنخواہ نہیں ملے گی؛ تو اب مدرس تعطیل کلاں کی تنخواہ کا مستحق نہیں ہوگا۔
لیکن اگر تعطیل کلاں کی تنخواہ لینے یا نہ لینے کی شرط نہیں لگائی گئی تھی مگر جس ملک یا علاقے میں یہ مدرسہ ہے وہاں کا عرف ہے کہ ذمہ داران تعطیل کلاں کی تنخواہ دیتے ہیں؛ تو بھی اظہر یہی ہے کہ تعطیل کلاں کی تنخواہ ملے گی اور اگر عرف نہ دینے کا ہے؛ تو تنخواہ نہیں ملے گی۔
اور تعطیل کلاں کے علاوہ لاک ڈاؤن کے ایام کی تنخواہ بھی مدرس کو ملے گی؛ کیوں کہ اگرچہ چھٹی ہوگئی ہے مگر ابھی مدرس مدرسہ میں ملازم ہے اور ملازمت کی حالت میں تنخواہ ملتی ہے؛ اس لیے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدرس چھٹی کے ایام کی تنخواہ کا مستحق ہوگا۔
اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’ایام تعطیل کی تنخواہ بحالت ملازمت ملتی ہے، شرعا عرفا یہی قاعدہ ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، مجدد دین ملت، کتاب الإجارۃ، ج۱۴، ص۲۴۷، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
الأشباہ و النظائر میں ہے: ’’الْبَطَالَةُ فِي الْمَدَارِسِ، كَأَيَّامِ الْأَعْيَادِ وَيَوْمِ عَاشُورَاءَ، وَشَهْرِ رَمَضَانَ فِي دَرْسِ الْفِقْهِ لَمْ أَرَهَا صَرِيحَةً فِي كَلَامِهِمْ.
وَالْمَسْأَلَةُ عَلَى وَجْهَيْنِ: فَإِنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً لَمْ يَسْقُطْ مِنْ الْمَعْلُومِ شَيْءٌ، وَإِلَّا فَيَنْبَغِي أَنْ يَلْحَقَ بِبَطَالَةِ الْقَاضِي، وَقَدْ اخْتَلَفُوا فِي أَخْذِ الْقَاضِي مَا رُتِّبَ لَهُ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ بَطَالَتِهِ، فَقَالَ فِي الْمُحِيطِ: إنَّهُ يَأْخُذُ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ؛ لِأَنَّهُ يَسْتَرِيحُ لِلْيَوْمِ الثَّانِي وَقِيلَ: لَا يَأْخُذُ (انْتَهَى) وَفِي الْمُنْيَةِ: الْقَاضِي يَسْتَحِقُّ الْكِفَايَةَ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ فِي الْأَصَحِّ، وَاخْتَارَهُ فِي مَنْظُومَةِ ابْنِ وَهْبَانَ، وَقَالَ: إنَّهُ الْأَظْهَرُ‘‘۔ (الأشباہ و النظائر، امام ابن نجیم، الفن الأول، القائدۃ السادسۃ، ص۸۱، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
نیز اس جہت بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ یہاں مدرس کا عمل سے رکنا خود مدرس کی جانب سے نہیں بلکہ دوسرے کی طرف سے ہے؛ اس لیے بھی مدرس ان ایام کی تنخواہ کا مستحق ہوگا۔
رد المحتار میں ہے: ’’وَفِي فَتَاوَى الْحَانُوتِيِّ يَسْتَحِقُّ الْمَعْلُومَ عِنْدَ قِيَامِ الْمَانِعِ مِنْ الْعَمَلِ وَلَمْ يَكُنْ بِتَقْصِيرِهِ سَوَاءٌ كَانَ نَاظِرًا أَوْ غَيْرَهُ كَالْجَابِي‘‘۔ (رد المحتار مع الدر المختار، امام ابن عابدین شامی، مطلب فی قطع الجھات لأجل العمارۃ، ج۴ص۳۷۲، ط: دار الفکر، بیروت)
مگر چوں کہ عموما مدارس وغیرہ کا معاملہ چندہ یا پھر فیس پر موقوف ہوتا ہے اور چندہ ہوا نہیں یا بہت کم ہوا، نیز لڑکے بھی مدرسہ آ نہیں سکتے؛ تو فیس بھی نہیں ملے گی؛ اس لیے اس صورت حال میں ذمہ داران کے لیے تنخواہ کا انتظام کرنا مشکل ہوجائے گا؛ اس لیے واقعی جن مدارس کی یہ حالت ہے کہ اگر وہ تنخواہ ابھی یا بعد میں نہیں دے پائیں گے؛ تو ان کے ذمہ داران مدرس کی رضا سے تدریسی معاملہ کو فسخ کرسکتے ہیں اور فسخ کے بعد اب ان کے ذمہ مدرس کی تنخواہ دینا نہیں رہے گا۔
الدر المختار میں ہے: ’’تُفْسَخُ بِالْقَضَاءِ أَوْ الرِّضَا‘‘۔ (رد المحتار مع الدر المختار امام ابن عابدین شامی، باب فسخ الإجارۃ، ج۶ص۸۰، ط: دار الفکر، بیروت)
حاصل کلام یہ ہے کہ ہر مدرس و ملازم لاک ڈاؤن کے ایام کی چھٹی کی تنخواہ کا ضرور مستحق ہے، ہاں اگر مدرس کی رضا سے تدریسی معاملہ کو فسخ کر لیا جائے؛ تو اب مدرس فسخ کے بعد آنے والے ایام کی تنخواہ کا مستحق نہیں ہوگا، البتہ فسخ کی صورت میں اس بات کا لحاظ کیا جائے کہ جب پڑھائی باضابطہ طور سے شروع ہوجائے؛ تو جس سے معاملہ فسخ کیا گیا ہے اس کی دوبارہ تقرری کرلی جائے، و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۳؍ ذی القعدۃ ۱۴۴۱ھ
Lorem Ipsum