لاک ڈاؤن میں تعطیل کلاں کی تنخواہ نہ دینے کا حکم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ہذا میں کہ زید ایک مدسے میں پچھلے تین سال سے پڑھا رہا تھا، ہر بار تعطیل کلاں کی تنخواہ ملتی تھی لیکن اس مارچ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہوں نے مارچ تک کی ہی تنخواہ دی اور آئندہ کے لیے کہا کہ آپ اپنا انتظام کرلیں، اس بار تعطیل کلاں کی تنخواہ نہیں دی، کیا زید شرعا تعطیل کلاں کی تنخواہ کا حق دار ہے؟ اگر ہاں تو بکر جو کہ مدرسے کا ناظم اور بڑی مسجد کا امام ہے اگر وہ تنخواہ نہیں دیتا تو ایسے شخص کو امام بنانا درست ہے؟ اور اس کے پڑھی جانے والی نمازوں کا کیا حکم ہوگا؟ جب کہ بکر کی عادت ہے کہ مدرسین کے ساتھ ہمیشہ یہی کرتا ہے اور تعطیل کلاں کی تنخواہ نہیں دیتا، یعنی جب بھی کسی مدرس کو ہٹایا جاتا ہے اس وقت تعطیل کلاں کی تنخواہ نہیں دیتا، از روے شرع جو حکم ہو قر آن و حدیث سے مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی: محمد عزیر، کالپی شریف۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، مدارس اسلامیہ میں جو تعطیلات رائج ہیں جیسے جمعہ، ششماہی و سالانہ امتحان کے بعد رمضان المبارک وغیرہ کی تعطیلات، مدرسین ان کی تنخواہ کے مستحق ہیں؛ لہذا صورت مذکورہ میں زید شرعا تعطیل کلاں کی تنخواہ کا مستحق ہے۔
اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’تعطیلات معہودہ میں مثل تعطیل ماہ مبارک رمضان و عیدین وغیرہا کی تنخواہ مدرسین کو بے شک دی جائے گی؛ فإن المعھود عرفا کالمشروط مطلقا‘‘۔ (فتاوی رضویہ، مجدد دین ملت، کتاب الإجارۃ، ج۱۴، ص۲۴۷، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
الأشباہ و النظائر میں ہے: ’’الْبَطَالَةُ فِي الْمَدَارِسِ، كَأَيَّامِ الْأَعْيَادِ وَيَوْمِ عَاشُورَاءَ، وَشَهْرِ رَمَضَانَ فِي دَرْسِ الْفِقْهِ لَمْ أَرَهَا صَرِيحَةً فِي كَلَامِهِمْ.
وَالْمَسْأَلَةُ عَلَى وَجْهَيْنِ: فَإِنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً لَمْ يَسْقُطْ مِنْ الْمَعْلُومِ شَيْءٌ، وَإِلَّا فَيَنْبَغِي أَنْ يَلْحَقَ بِبَطَالَةِ الْقَاضِي، وَقَدْ اخْتَلَفُوا فِي أَخْذِ الْقَاضِي مَا رُتِّبَ لَهُ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ بَطَالَتِهِ، فَقَالَ فِي الْمُحِيطِ: إنَّهُ يَأْخُذُ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ؛ لِأَنَّهُ يَسْتَرِيحُ لِلْيَوْمِ الثَّانِي وَقِيلَ: لَا يَأْخُذُ (انْتَهَى) وَفِي الْمُنْيَةِ: الْقَاضِي يَسْتَحِقُّ الْكِفَايَةَ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ فِي الْأَصَحِّ، وَاخْتَارَهُ فِي مَنْظُومَةِ ابْنِ وَهْبَانَ، وَقَالَ: إنَّهُ الْأَظْهَرُ‘‘۔ (الأشباہ و النظائر، امام ابن نجیم، الفن الأول، القائدۃ السادسۃ، ص۸۱، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اگر واقعی بکر ناظم کی یہ عادت ہے کہ وہ جب مدرس کو ہٹاتا ہے؛ تو وہ تعطیل کلاں کی تنخواہ نہیں دیتا اور یہ بات لوگوں کے درمیان مشہور بھی ہے؛ تو اس کو امام بنانا جائز نہیں اور اس حالت میں جو بھی نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئیں، سب کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح میں ہے: ’’و” لذا كره إمامة “الفاسق” العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة‘‘۔
اس کے تحت حاشیۃ الطحطاوی میں ہے: ’’قوله: “فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة” تبع فيه الزيلعي ومفاده كون الكراهة في الفاسق تحريمية‘‘۔ (حاشیۃ الطحطاوی، فصل فی بیان الأحق بالإمامۃ، ص۳۰۳، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
درر الحکام شرح غرر الحکام میں ہے: ’’كُلُّ صَلَاةٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاهَةِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُهَا‘‘۔ (درر الحکام، ملا خسرو، باب صفۃ الصلاۃ، ج۱ص۶۹، ط: دار إحیاء الکتب العربیۃ) و اللہ تعالی أعلمـــــــــــــــــــــــــــــ
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۳؍ ذی القعدۃ ۱۴۴۱ھ
Lorem Ipsum