قرض دے کر نفع حاصل کرنے کی ایک صورت اور اس کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میں کہ زید نے بکر کو دو لاکھ روپیے دئیے، بدلے میں اس کا مکان رہنے کے لیے لے لیا اور زید، بکر کو ایک ہزار روپیے، ہر مہینے کرایہ دیتا ہے، جب کہ اس مکان کا کرایہ، پہلے پانچ ہزار روپیے تھا، اب جب تک بکر، زید کے دو لاکھ روپیے واپس نہیں دےگا، تب تک زید بکر کے مکان کو استعمال کرےگا۔ کیا اس طرح دو لاکھ روپیے دےکر، پانچ ہزار روپیے کرایہ والا مکان، صرف ایک ہزار روپیے کرایہ پر لے کر، استعمال کرنا درست ہے یا نہیں؟ اطمینان بخش جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتی: جہانگیر علیمی، امام باغ مدینہ مسجد، لوہا بازار دھولیہ
۱۷؍دسمبر ۲۰۲۲ء بروز دوشنبہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب سوال میں مذکورہ صورت، قرض دے کر، نفع حاصل کرنے کی ایک شکل ہے اور قرض دےکر، نفع حاصل کرنا، سود ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ((كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا)) (مسند الحارث، باب فی القرض یجر المنفعۃ، ج۱ص۵۰۰، رقم: ۴۳۷، ط: مرکز خدمۃ السنۃ، المدینۃ المنورۃ)
الدر المختار میں ہے: ’’وَفِي الْأَشْبَاهِ كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ فَكُرِهَ لِلْمُرْتَهِنِ سُكْنَى الْمَرْهُونَةِ بِإِذْنِ الرَّاهِنِ‘‘۔ (الدر المختار مع رد المحتار، امام حصکفی رحمہ اللہ، کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیۃ، مطب کل قرض جر نفعا حرام، ج۵ص۱۶۶، ط: دار الفکر، بیروت)
لہذا دو لاکھ روپیے دےکر، پانچ ہزار روپیے کرایہ والا مکان، صرف ایک ہزار روپیے میں کرایہ پر لے کر، استعمال کرنا جائز نہیں بلکہ حرام و گناہ ہے۔ و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری مصباحی غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۵؍ربیع الآخر ۱۴۴۵ھ
۳۱؍اکتوبر ۲۰۲۳ء
نوٹ: جواب لکھنے کے لیے افتا کے ایک طالب علم کو دیا گیا تھا، مگر انھوں نے جواب لکھا نہیں اور دستار لےکر، گھر چلے گئے؛ اس لیے جواب میں زیادہ تاخیر ہوئی۔
Lorem Ipsum