فلسفہ پاکستان اور عاتکہ ازہر!
گذشتہ رات میں پاکستان کے ایک عالم دین کا واٹسیپ میسیج سن رہا تھا، اتفاق سے وہیں پر میری تین سالہ بیٹی عاتکہ ازہر بھی موجود تھی، اس نے آواز سن کر فورا سوال کیا کہ ابو یہ کون بول رہے ہیں؟ میں نے کہا پاکستان سے ایک عالم دین ہیں، اس نے کہا یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا جیسے یہاں گھر ہے اور لوگ رہتے ہیں ایسے پاکستان ایک جگہ ہے وہاں گھر ہے اور لوگ وہاں رہتے ہیں، اس نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یہ پاکستان کیا ہے! پھر میں نے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ جیسے عاتکہ منی یہاں ہے ویسے ہی پاکستان بھی ایک جگہ ہے، وہاں آپ کی طرح منی رہتی ہے، آپ کے ابو کی طرح عالم رہتے ہیں اور آپ کی امی کی طرح عالمہ رہتی ہیں اور جیسے آپ کے نانا کے یہاں دور گاڑی سے جاتے ہیں ویسے ہی وہاں پر بھی گاڑی سے جانا پڑتا ہے، اس پر اس نے کچھ چین کی سانس لی اور کہا کہ ابو آپ جب دور گاڑی سے نانا کے یہاں جائیں گے تو مجھے پاکستان لے جائیے گا؛ تو میں نے کہا کہ ان شاء اللہ جب پاکستان جانا ہوگا تو آپ کو بھی لے جائیں گے۔
عادت: عاتکہ ازہر کی ایک عادت ہے کہ جب تک اسے اس کے اعتبار سے اپنے سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں مل جاتا اس وقت تک اس کی طرف سے سوال پر سوال جاری رہتا ہے اور حتی الامکان ہم اسے اس کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جواب پاکر مطمئن ہوجائے۔
اے رب! اسے دارین کی سعادتیں عطا فرما، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
اااازہری
١٣ جون ۲۰۲۰ء