‘فقیہ اعظم‘ پر الزام تراشی کا مدعی ’خالد‘خود الزام تراشی کے کٹ گھرے میں (تیسری و آخری قسط)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
خالد صاحب نے ’فقیہ اسلام، سراج الفقہاء، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ پر دو طرح کے الزام لگائے ہیں، ایک یہ کہ مفتی صاحب قبلہ نے بعض متفق علیہ مسائل یا جمہور کی  مخالفت کی ہے۔ دوسرا دعوی  یہ ہے کہ مفتی صاحب قبلہ، حق واضح ہونے کے باوجود، ہٹ دھرمی کے ساتھ،  بعض مسائل میں اپنی رائے پر قائم ہیں۔ (قارئین! خالد صاحب کے ساتھ، حارث نوید رضوی صاحب کو بھی شامل کرلیں)

قارئین کرام! آئیے اس سلسلہ میں خالد صاحب کے  ایک دعوی کی طرف چلتے ہیں، آپ لکھتے ہیں: ’’یہاں حضور محدث کبیر نے مسائل میں خطا کی وجہ سے مفتی نظام الدین کو ناقابل اعتبار نہیں فرمایا ہے بلکہ  غلطی کے بعد جب حق واضح ہو جائے تب بھی اس غلطی پر کوئی شخص اَڑا رہے تو ایسے شخص کو ہٹ دھرم کہا جاتا ہے اور اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہیں ناقابل اعتبار کہا گیا ہے، ناقابل اعتبار ہونے کے کئی وجوہ ہو سکتے ہیں نہ کہ صرف مسائل میں خطا کی وجہ جیسا کہ مولانا ازہار نے اپنی کج فہمی اور کم عقلی کی وجہ سے لکھ مارا‘‘۔

خالد صاحب، اگر یوں ہی دل پر حکم لگاکر، اندھیرے میں لٹھ چلانا ہو؛ تو کوئی بھی اختلاف رکھنے والا مفتی، فاسق ہونے سے نہیں بچ سکےگا، نہ حضرت محدث کبیر صاحب قبلہ اور نہ ہی سراج الفقہاء صاحب قبلہ اور نہ ہی سارے ائمہ کرام؛ اس لیے صحیح یہ ہے  کہ  حق کسی مفتی پر واضح ہوا یا نہیں ہوا، یہ وہی مفتی بتائےگا، کوئی دوسرا نہیں؛ لہذا خالد صاحب نے  فقیہ اعظم زید مجدہ کے دل پر جو یہ حکم لگایا ہے، یہ باطل و مردود ہے؛ کیوں کہ دل کی بات صرف رب تعالی یا اس کے بتانے سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے صدقہ میں اولیاے کرام جانتے ہیں۔ دل پر حکم لگانا اس لیے ہے کہ خود جانشین فقیہ ملت حفظہ اللہ نے فقیہ اعظم زید مجدہ سے اس سلسلے میں بات کی، آپ نے فرمایا: ’’میرا موقف حق ہے، اگر میرا موقف حق نہیں ہوتا؛ تو میں فورا رجوع کرلیتا، میں نے تمام مسائل میں ہمیشہ دعوت دی ہے کہ کسی معتبر کو فیصل بنالیا جائے اور پھر بیٹھ کر، سنجیدگی سے بات ہوجائے، فتاوی رضویہ کی روشنی میں گفتو ہوگی، اگر میری بات غلط ہوئی؛ تو میں رجوع کرلوں گا، لیکن اگر میری بات صحیح ثابت ہوئی؛ تو مد مقابل، کشادہ قلبی کے ساتھ، اسے صحیح مان لےگا، مگر آج تک کوئی بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوا‘‘۔ مفہوما۔

قارئین کرام! خود فیصلہ کریں کہ فقیہ اعظم زید مجدہ کی بات مانی جائے یا خالد صاحب جیسے شتر بے مہار کی طرح کلام کرنے والے کی بات تسلیم کی جائے، جو دل پر حکم لگانے کے مجرم ہیں؟! یقینا قائل اور صاحب معاملہ ہی کی بات مانی جائےگی، نہ کہ ایں و آں کی بات کو اس طرح کے معاملہ میں کوئی جگہ دی جائےگی۔

قارئین کرام! آپ کو خالد صاحب کے اسی قسم کے ایک دعوی کی طرف مزید لے چلتا ہوں، خالد صاحب لکھتے ہیں:’’خود مولانا ازہار سے پوچھیے کہ جب عبید اللہ والے مسئلہ میں علامہ صاحب نے عرس فقیہ ملت کے موقع پر برسر اسٹیج مفتی نظام الدین صاحب کا کھل کر رد کیا اور فرمایا کہ یہاں ایمان و کفر کا مسئلہ ہے اس لیے ہم اس سے گریز نہیں کر سکتے تو اس وقت مولانا ازہار صاحب نے کیوں نہیں کہا کہ حضرت آپ غلط فرما رہے ہیں؟‘‘۔

اگر خالد صاحب اس عرس فقیہ ملت میں موجود تھے؛ تو مجھے لگتا ہے کہ یہ پورے نشے میں تھے! اور نہیں تھے تو پوری بات معلوم کرکے ہی عقل کا گھوڑا دوڑانا چاہیے؛ کیوں کہ خود جانشین فقیہ ملت حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اسٹیج کی بات تو مجھے یاد نہیں اور جہاں تک مجھے یاد آتا ہے کہ میں اس وقت اسٹیج پر نہیں تھا، البتہ عرس فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے موقع پر اوجھاگنج گاؤں میں حضرت علامہ مولانا نور محمد فیضی علیہ الرحمۃ کے گھر، خطیب عبید اللہ خان صاحب کے متعلق، فتوی پر دستخطی میٹنگ رکھی گئی تھی، اس میٹنگ میں تقریبا پچیس یا تیس علما اور حضرت محدث کبیر صاحب قبلہ موجود تھے، کچھ نوک جھونک کے بعد، مجلس برخاست ہوگئی اور جب تک میں وہاں تھا، میرے علم کے مطابق کسی نے بھی، آپ کے فتوی پر دستخط نہیں کیا تھا؛ کیوں کہ اس طرح کے فتوی پر دستخط کرنا، کسی مسلم کی تکفیر کرنا ہے اور یہ بہت ہی نہیں بلکہ سب سے مشکل مسئلہ ہے، اس میں قدم بہت پھونک پھونک کر، رکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔

قارئین کرام! خود بتائیں کہ یہ خالد صاحب، اندھیرے میں تیر مارنے اور آگ میں تیل ڈالنے کے علاوہ، کچھ کر رہے ہیں؟! ہر گز نہیں، اور شاید اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے؛ کیوں کہ جس کا یہ وطیرہ رہتا ہے، وہ اس سے باز نہیں آتا۔ اللہ تعالی ہدایت دے۔

خالد صاحب مزید لکھتے ہیں: ’’آپ دیکھیں کہ جب مفتی نظام الدین صاحب نے چاند کے مسئلے میں الگ موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ موبائل وغیرہ جدید ذرائع ابلاغ سے خبر استفاضہ ثابت ہو جائے گا لہذا موبائل سے چاند کی گواہی جائز ہے تو اس پر حضور تاج الشریعہ نے ایک پورا رسالہ تحریر فرمادیا مفتی نظام الدین صاحب سے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑا اسی طرح اس خبر استفاضہ پر ٢١ سوالات و اعتراضات بھی قائم کیے گئے اس کا بھی اب تک کوئی جواب نہیں ہے۔
یوں ہی عبید اللہ کے مسئلے میں جب انہوں نے اپنا الگ موقف اختیار کیا اور خود اپنے صحیح فتوی کی مخالفت کی تو ان پر سوالات قائم کر کے ان کے نام رجسٹری کی گئی۔  لیکن آج تک کوئی جواب نہیں آیا اور ان اعتراضات کے بارے میں کچھ بھی نہ کہا – جبکہ مفتی نظام الدین صاحب پر لازم تھا کہ وہ ان اعتراضات کے جواب دیتے ورنہ اپنی نئ تحقیق سے مکمل گریز کرتے لیکن ہٹ دھرمی کا کیا علاج ہے ؟؟؟؟؟
دنیا جانتی ہے کہ عرس شارح بخاری کے موقع پر جبکہ اساتذہ اشرفیہ اسٹیج پر موجود تھے علامہ صاحب نے ان کی موجودگی میں عبید اللہ کے مسئلے کو لے کر مفتی نظام الدین صاحب کا رد فرمایا اور جن لوگوں کا دستخط تھا ان کا بھی رد فرمایا لیکن کسی کے منہ میں زبان نہ تھی کہ کوئی اس کا جواب دیتا یا حضور محدث کبیر کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کے جوابات اساتذہ اشرفیہ دیتے – اب ہمیں بتائیے کیا یہ ہٹ دھرمی نہیں ہے ؟؟؟؟‘‘۔

پہلی بات: فقیہ اعظم زید مجدہ کے بتانے کے مطابق، آپ کو خبر استفاضہ سے متعلق، نہ تو تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ کا رسالہ ملا اور نہ ہی اعتراضات آپ کو موصول ہوئے! تو اب جواب نہ دے پانے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا، سوالات ملے؛ تو فقیہ اعظم جواب دیں گے یا بغیر ملے ہی جواب دے دیں گے؟!

دوسری بات: اپنے صحیح فتوی کی مخالفت کا دعوی، یہ تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے؛ کیوں کہ فتاوی میں دقیق فرق کو سمجھنا، یہ خالد صاحب جیسے لوگوں کی بس کی بات نہیں، یہ کام تو فقیہ اسلام، سراج الفقہاء، محقق عصر اور فقیہ اعظم جیسی شخصیات کا کام ہے، حضرت کے سامنے زانوے تلمز تہ کرئیے، ان شاء اللہ حقیقت کا انکشاف ہوجائے گا۔

تیسری بات: اگر اختلاف ختم کرنا مقصود ہے؛ تو بھارت جیسی سرزمین پر، اسٹیج بازی سے وہ مقصد کبھی حاصل ہو ہی نہیں سکتا، دور حاضر میں کافی حد تک، اسٹیج بازی ہی نے تو مسلک اعلی حضرت یعنی مسلک اہل سنت و جماعت کا بیڑا غرق کر رکھا ہے؛ اس لیے اگر حضرت محدث کبیر صاحب قبلہ کی تقریر کے بعد، کوئی ان کے رد میں تقریر کردیتا؛ تو بات بننے کے بجائے آگ لگ جاتی اور گستاخی کا جو پہاڑ، اس تقریر کرنے والے پر توڑا جاتا، اسے وہ مرتے دم تک نہیں بھول پاتا؛ اس لیے اسٹیج پر، رد نہ کرنے ہی میں بھلائی تھی۔ نیز عام طور سے تحریر کے ذریعے محقق اپنی تحقیق، مد مقابل کے پاس بھیج دیتا ہے اور اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتا ہے، مگر عموما دیکھا گیا ہے کہ اس کا بھی کوئی مفید نتیجہ سامنے نہیں آتا؛ لہذا سب سے بہتر وہی ہے جو فقیہ اعظم زید مجدہ نے فرمایا کہ کسی قابل قبول شخصیت کو فیصل بناکر، آمنے سامنے بیٹھ کر بات ہوجائے، جو حق ہو، اسے کشادہ قلبی سے قبول کر لیا جائے اور جو ناحق ہو، اسے مسترد کردیا جائے۔ یہی ہونا ہی چاہیے اور اسی میں پوری سنیت کی بھلائی ہے۔

نیز خالد صاحب اگر آپ کو آپ کے مطابق لگتا ہی ہے کہ کوئی سنی مفتی ہیں جو کسی سنی مفتی کی دلیل کا جواب نہ دے سکے یا نہیں دیا؛ تو آپ کے علم میں اضافہ کے لیے بتادوں کہ یہ بات اس کے ہٹ دھرم ہونے پر دلالت نہیں کرتی، نہ ہی غیر معتبر ہونے کی علامت ہے اور نہ ہی حق پر مطلع ہوکر، حق نہ قبول کرنے والا ہے، اس پر فقہاے کرام کے متعدد شواہد پیش کیے جاسکتے ہیں، مگر سر دست آپ علامہ صاحب قبلہ کی مثال لے لیں، اگر دیکھا جائے تو آپ کے بقول لازم آئے گا کہ محدث کبیر صاحب قبلہ بھی ہٹ دھرم میں شمار ہوں، غیرمعتبر ہوجائیں  اور حق پر مطلع ہونے کے باوجود، حق قبول نہ کرنے والوں میں ان کا شمار کیا جائے؛ کیوں کہ آپ نے ازہریوں کے متعلق، ارتداد یا تضلیل یا ڈھل مل یقین کا حکم تقریبا چار پانچ سال پہلے لگانے کے باوجود، آج تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور سارے معتقدین بھی ساکت و جامد ہیں، جب کہ علامہ صاحب قبلہ کے جملے کی ایسی حالت ہے، جس سے بظاہر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ کے صاحبزادے مولانا ابو یوسف ازہری صاحب کے سوا، کم از کم بڑے، چھوٹے، حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ سے لے کر تمام ازہری برادران، ڈھل مل یقین ضرور ہیں! آپ اور قارئین کرام، سبھی پھٹی آنکھوں سے آنے والی عبارت پڑھ سکتے ہیں، علامہ صاحب قبلہ فرماتے ہیں: ”اور الحمد للہ ازہر سے جتنے واپس آتے ہیں، ان میں سے کچھ تو گمراہ ہوگئے ہیں، کچھ تو ارتداد کے درجے تک پہونچ گئے اور کچھ وہ ہیں جو ڈھل مل یقین ہیں، اللہ تعالی نے بچایا ہے ان (حضرت کے صاحبزادے) کو اور یہ صرف فیضان ہے حضرت صدر الشریعہ کا جو فیضان، صدر الشریعہ پر اعلی حضرت کا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔ (تقریر)
میں کہتا ہوں اگر علامہ صاحب قبلہ کی جگہ پر یہ بیان دینے والا کوئی دوسرا ہوتا؛ تو خالد صاحب جیسے لوگ برملا حکم لگا چکے ہوتے کہ فلاں مفتی صاحب نے تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ کو ڈھل مل یقین تو ڈھل مل یقین، گمراہ تو گمراہ، مرتد تک کہ دیا؛ کیوں کہ جذباتیات سے کھلواڑ کرنا؛ تو کوئی خالد صاحب جیسے لوگوں سے ہی سیکھے۔

یہاں  کوئی یہ کہنے کی کوشش نہ کرے کہ علامہ صاحب قبلہ کو علم نہیں ہوگا؛ کیوں کہ جس وقت علامہ صاحب قبلہ نے بیان دیا تھا، اس وقت ازہری گروپ میں بہت گرما گرمی بحث ہوئی تھی اور اس گروپ میں آپ کے صاحبزادے مولانا ابو یوسف ازہری بھی موجود ہیں، وہ ضرور پہنچائے ہوں گے، اگر نہیں پہنچایا؛ تو بہت غلط کیا اور اگر بر سبیل تنزل مان لیا جائے کہ مولانا ابو یوسف ازہری صاحب کو بھی اس بیان کی خبر نہ ہوئی؛ تو میرے بھائی اب تو علامہ صاحب قبلہ تک پہنچا دیں تاکہ وہ کوئی قابل قبول توجیہ کردیں اور سب سکون و اطمینان کا سانس لے سکیں۔

یاد رہے اس موضوع کو لے کر جس وقت ازہری گروپ میں گرمی گرما بحث ہوئی تھی، اس وقت جانشین فقیہ ملت نے سب کو مؤدب انداز میں اپنی بات رکھنے کی گزارش کی تھی؛ کیوں کہ علما و فقہا کا احترام کیا ہوتا ہے، اس بخوبی واقف ہیں اور اس پر ہمیشہ عمل بھی کرتے ہیں۔

بہر حال خالد صاحب جیسے لوگ، ہوش کے ناخن لیں اور اتہام بازی سے پرہیز کریں، دلائل سے بات کریں، ذلیل کرنے کی کاوش چھوڑ دیں، عالمانہ وقار بر قرار رکھیں، کردار کشی سے دور رہیں، اسی میں ہم، آپ اور تمام اہل سنت و جماعت کی بھلائی ہے۔

تنبیہ: اس قسط میں بھی علامہ صاحب قبلہ کے تعلق سے جو یعض مثال دی گئی ہے، وہ صرف خالد صاحب جیسے لوگوں کے لیے، جواب آں غزل کے طور پر ہے، ورنہ علامہ صاحب قبلہ اور دیگر علماے اہل سنت، جانشین فقیہ ملت اور خود میرے نزدیک قابل اعتبار و احترام ہیں۔ نیز اب اس تحریر کے جواب میں آنے والی کسی بھی تحریر کا جواب نہیں دیا جائے گا۔

محمد غضنفر امجدی
یکے از محبین فقیہ ملت علیہ الرحمۃ
٣/رجب المرجب ٤٥ھ

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.