‘فقیہ اعظم‘ پر الزام تراشی کا مدعی ’خالد‘خود الزام تراشی کے کٹ گھرے میں (دوسری قسط)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
خالد صاحب نے ’فقیہ اسلام، سراج الفقہاء، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ پر دو طرح کے الزام لگائے ہیں، ایک یہ کہ مفتی صاحب قبلہ نے بعض متفق علیہ مسائل یا جمہور کی  مخالفت کی ہے۔ دوسرا دعوی  یہ ہے کہ مفتی صاحب قبلہ، حق واضح ہونے کے باوجود، ہٹ دھرمی کے ساتھ،  بعض مسائل میں اپنی رائے پر قائم ہیں۔

قارئین کرام! آئیے ذرا پہلے دعوی کا جائزہ لیتے ہیں، قارئین!  فقیہ اعظم زید مجدہ کے متعلق اس دعوی کی کوئی حقیقت نہیں؛ کیوں کہ آپ نے کبھی ثابت شدہ متفق علیہ مسئلہ یا جمہور کی محض اپنی رائے کی بنیاد پر مخالفت نہیں کی ہے اور نہ ہی آج تک اس پر کوئی قابل قبول حجت قائم ہوسکی ہے اور نہ ہی کوئی اس کو قابل قبول دلیل سے ثابت کرسکتا ہے اور خالد صاحب جیسے لوگ جس دن متفق علیہ اور جمہور کا صحیح مطلب سمجھ جائیں گے، اس دن خود اس طرح کی الزام تراشی کرنا چھوڑ دیں گے۔ ((قارئین! خالد صاحب کے ساتھ، حارث نوید رضوی صاحب کو بھی شامل کرلیں)

البتہ خالد صاحب کو، اس طرح کا دعوی کرنے سے پہلے کم از کم ایک دو بار، اپنا اور اپنے ارد گرد کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے، عام طور سے جن چیزوں کو بنیاد بناکر، فقیہ اسلام پر طعن و تشنیع کی جاتی ہے، اگر وہی بنیاد آپ کے لیے بنائی جائے؛ تو آپ کے مطابق، خود علامہ صاحب قبلہ نے متعدد مقامات پر، متفق علیہ مسئلہ یا جمہور یا مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ یا مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کی کھلم کھلا، مخالفت کی ہے۔ خالد صاحب، میں بعض مثالوں کے ذریعے، آپ کی عنان توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں؛ تاکہ آپ اور قارئین، سب کو یہ معلوم ہوجائے کہ متفق علیہ مسئلہ یا جمہور کی  کون مخالفت کرتا ہے یا  اعلی حضرت مجدد دین و ملت یا مفتی اعظم ہند اور تاج الشریعۃ علیہم الرحمۃ کی رائے پر، اپنی راہے کو کون فوقیت دیتا ہے  اور یہ بھی واضح ہوجائے کہ جب اپنے لوگوں کی بات آتی ہے؛ تو سانس لینا بھی گوارا نہیں کرتے اور مخالف کی بات آجاتی ہے؛ تو قیامت صغری قائم کیے بغیر چین نہیں ملتا، بہر حال بعض مسائل پیش خدمت ہیں، توجہ فرمائیں:

پہلا مسئلہ: سہ ماہی امجدیہ میں علامہ صاحب قبلہ کا یہ فتوی شائع ہوا ہے کہ نماز کے بعد، نمازی، نماز پڑھ رہے ہوں؛ تو بھی بلند آواز سے سلام پڑھنا جائز و درست ہے، حالاں کہ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے کہ نمازی کو سلام بلکہ قرآن پاک کے ذریعے بھی خلل دینا جائز نہیں، اعلی حضرت علیہ الرحمۃ اور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ نے خود اس حکم کی صراحت فرمائی ہے، مگر اس کے باجود علامہ صاحب قبلہ نے متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت کرکے، فتوی دیا اور وقت کے مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ کے فتوی سے انحراف کرنے کی جرأت کی۔ اب قارئین اور خود خالد صاحب اپنے اصول کے مطابق بتائیں کہ علامہ صاحب نے متفق علیہ حکم کی مخالفت کی یا نہیں؟! خود اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی رائے پر، اپنی رائے کو فوقیت دی یا نہیں؟! آپ کے طریقہ کار کے مطابق ضرور دی ہے، مگر جس سے اپنی عقیدت ہے، ان کے سو خون معاف ہیں اور جن سے عقیدت نہیں، ان سے کسی کی عقیدت کا اظہار بھی برداشت نہیں!!

دوسرا مسئلہ: اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ نے لڑکیوں کے لکھنے کا بڑی شد و مد سے انکار کیا ہے اور اس کے کئی ایک نقصانات بھی گنائے ہیں، مگر اس کے باوجود، علامہ صاحب قبلہ نے  اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ کی مخالفت کرتے ہوئے، سب سے پہلے نسواں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرکے، انھیں پڑھنا لکھنا، سکھانا شروع کیا۔ خالد صاحب کیا آپ یہاں ایموشنل ہوکر کہ سکتے ہیں کہ علامہ صاحب قبلہ نے اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ کی مخالفت کی ہے؟! خالد صاحب کیا اپنے طریقہ کار کے مطابق یہاں یہ ہفوات بک سکتے ہیں کہ یہ ایسا اقدام ہے جس کے سبب، بھارت میں جتنے لوگ نسواں کھول کر لڑکیوں کو تعلیم دے رہے ہیں یا دیں گے، سب کا گناہ، علامہ صاحب قبلہ کے سر بھی جائےگا؟! مگر یہاں خالد صاحب جیسے لوگوں کے بولنے کی سکت سلب ہوجاتی ہے، البتہ فقیہ اعظم زید مجدہ کی بات ہو؛ تو منھ بھر بھر کے بہتان طرازی کے لیے دوڑے چلے آتے ہیں!!

تیسرا مسئلہ: نعرہ تکبیر و رسالت کے ذریعے, آنے والے مقرر وغیرہ کا استقبال کرنا اور اس کے آنے کی اطلاع دینا، جائز نہیں، فتاوی بزازیہ وغیرہ میں اس طرح کے استقبال کے عدم جواز کی صراحت موجود ہے، فتاوی بزازیہ میں ہے: ”و عن ه‍ذا يمنع إذا قدم واحد من العظماء إلى مجلس فسبح أو صلى عليه السلام إعلاما بقدومه حتى ينفرج له الناس أو يقوموا له يأثم؛ لأنه جعل اسم الله تعالى وصلاته على رسوله عليه السلام، وسيلة إلى تعظيم الغير و استحلال ه‍ذا الصنع و اعتقاده عبادة لاخفاء في أنه أمر ھائل عظيم، نعوذ باالله سبحانه من ذلك و قد ابتلينا به في ديارنا”۔ (ج:٢ ص:٤٧٣)

اور اسی وجہ سے خود مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کا بھی یہی موقف ہے، جیسا کہ حضور تاج الشریعۃ علیہ الرحمۃ نے اپنی ایک تقریر میں اس کی  صراحت فرمائی ہے۔ کیا خالد صاحب، یہاں اپنا اسلوب اختیار کرکے کہ سکتے ہیں کہ علامہ صاحب قبلہ نے اپنے وقت کے فقیہ اسلام زید مجدہ کا  اس مسئلہ میں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے ساتھ موافقت ہونے کے باوجو، بلا وجہ غیر معتبر قرار دےکر زیادتی کی ہے اور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کی طرف غلط فتوی منسوب کردیا؟! کیا وہ یہ کہنے کی سکت رکھتے ہیں کہ علامہ صاحب قبلہ نے فقیہ اسلام زید مجدہ کی آڑ میں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کو بھی غیر معتبر قرار دے دیا؟! میں تو قطعا نہیں کہ سکتا، ہاں علما و فقہا کی شان میں اس طرح  کی ہفوات، موصوف خالد صاحب کو ہی مبارک ہو۔ یہ چند مسائل ہیں، جو نصیحت پکڑنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔

اب قارئین کرام اور خود خالد صاحب اپنے طرز استدلال کے لحاظ سے بتائیں کہ مذکورہ بالا تمام مسائل میں، فقیہ اعظم زید مجدہ نے متفق علیہ مسئلہ یا جمہور کی مخالفت کی ہے یا علامہ صاحب قبلہ اس  کے مرتکب ہوئے ہیں؟! فقیہ اعظم زید مجدہ نے اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ کے فتوی کے خلاف فتوی دیا ہے یا علامہ صاحب قبلہ نے اس کی جسارت کی ہےہے؟! فقیہ اعظم زید فضلہ نے مفتی اعظم ہند اور تاج الشریعۃ علیہم الرحمۃ کی رائے پر اپنی راے کو فوقیت دی ہے یا خود علامہ صاحب قبلہ نے یہ غیر محمود طریقہ اپنایا ہے؟!

کسے باشد، جو بھی اس طرح کے مسائل میں اختلاف کی وجہ سے طعن و تشنیع کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ علامہ صاحب قبلہ کو بھی اپنے ہفوات اور اپنے کریمانہ اخلاق و کردار سے نوازیں؛ تاکہ اپنی حقانیت کا پورے طور سے حق ادا کر سکیں اور اگر نہیں کرسکتے؛ تو نصیحت ہے کہ اس طرح کے مسائل کو لےکر، کسی کی کردار کشی کرنا بند کریں، کسی کو متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت کا ڈھول پیٹ کر، بدنام کرنے سے باز آجائیں اور اعلی حضرت مجدد دین و ملت، حضور مفتی اعظم ہند اور حضور تاج الشریعۃ علیہم الرحمۃ کی مخالفت کا دعوی کرکے، ایموشنل بلیک میلنگ کا بازار گرم کرنا ترک کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔

تنبیہ: اس قسط میں علامہ صاحب قبلہ کے تعلق سے جو مثالیں دی گئی ہیں، وہ صرف خالد صاحب جیسے لوگوں کے لیے، جواب آں غزل کے طور پر ہے، ورنہ علامہ صاحب قبلہ اور دیگر علماے اہل سنت کی آراء، جانشین فقیہ حفظہ اللہ اور خود میرے نزدیک، قابل احترام اور سب قابل اعتبار و عزت ہیں۔

محمد غضنفر امجدی
یکے از محبین فقیہ ملت علیہ الرحمۃ
۲؍رجب المرجب ۱۴۴۵ھ؍ ۱۴؍جنوری ۲۰۲۴ء

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.