#فاضل انیس عالم سیوانی کی فقیہ اعظم و جانشین فقیہ ملت پر نوازشات کا منصفانہ جائزہ#

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابھی حال ہی میں صاحبزادہ و جانشین فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری حفظہ اللہ کے آداب فقہا سے متعلق، ایک اصولی بات کرنے کی وجہ سے آپ پر بےجا الزامات لگائے گیے، اسی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے، فاضل انیس عالم سیوانی صاحب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا بھی مناسب سمجھا اور اپنی تحریر کے ذریعے، مسلک و بزرگان دین کو آڑ بناکر، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب قبلہ اور حضرت ازہری صاحب پر متعدد جہات سے تحریری طور پر نوازشات کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ آئیے ان کی اس تحریر و نوازشات کا منصفانہ جائزہ لیتے ہیں۔

فاضل انیس سیوانی صاحب لکھتے ہیں: “فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے بیٹے تو ہیں جانشین کس نے بنایا؟ ابھی تک تو یہ تھا کہ جانشین وسجادہ حضرت علامہ مولانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدظلہ العالی ہیں۔ مولانا ازہارصاحب، ازہری ہیں، حضور فقیہ ملت کے صاحبزادے ہیں لیکن حضور فقیہ ملت کے موقف وتعلیم سے بالکل الگ ہیں”.

قارئین! ذرا دیکھیں تو سہی کہ کتنی آسانی سے جانشین فقیہ ملت ازہری صاحب قبلہ کو کہ دیا کہ وہ حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے موقف و تعلیم سے تھوڑا بہت نہیں بلکہ بالکل الگ ہیں! اس کے بطلان و فساد کو سمجھنے کے لیے حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے موقف، تعلیم اور مشن کو سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ سمجھ لیں گے؛ تو ان شاء اللہ آپ کو یہ بھی سمجھ میں آجائے گا کہ اگرچہ حضرت گدی نشیں صاحب، حضور فقیہ ملت کی خانقاہ کے سجادہ نشیں ہیں، مگر حقیقت میں ازہری صاحب قبلہ ہی فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے سچے علمی وارث و جانشیں ہیں اور جس دن آپ کو گدی نشیں صاحب کی عملی زندگی معلوم ہو جائے گی، بالکل تو نہیں، مگر یہ ضرور کہیں گے کہ گدی نشیں صاحب، بہت حد تک، فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے موقف و تعلیم سے الگ ہیں۔

فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کا موقف یہ تھا اور تعلیم یہ تھی کہ کسی مسئلہ میں اگر فقہاے اہل سنت کا اختلاف ہو جائے؛ تو کسی کو برا بھلا نہ کہا جائے، ساتھ ہی سب کی تعظیم و توقیر کی جائے، اس کی مثال مائک پر نماز اور چین کی گھڑی کا مسئلہ سامنے رکھ سکتے ہیں، پہلے مسئلہ میں اختلاف کی بنیاد پر فقیہ ملت علیہ الرحمۃ نے کبھی نہیں کہا کہ سراج الفقہاء زید مجدہ، مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے موقف و تعلیم سے بالکل ہٹ گیے اور نہ ہی دوسرے مسئلہ میں جمہور کے خلاف ہونے کے باوجود، شارح بخاری مفتی شریف الحق علیہ الرحمۃ کو ان کے موقف پر کبھی عار دلایا، بلکہ ان کی شان و شوکت کے مطابق، ہمیشہ انھیں عزت و وقار دیا۔

آپ کا مشن درس و تدریس، تصنیف و تالیف، تبلیغ دین، احقاق حق، مسائل کی گتھیوں کو سلجھانا، کتاب و سنت اور فقہاے کرام کے اقوال سے استناد، مشکل سوالات کا تحقیقی جواب، غلط فہمی کی تردید اور اصلاح معاشرہ وغیرہ کے ذریعے، مسلک اعلی حضرت یعنی مسلک اہل سنت کی ترویج و اشاعت تھی۔

اس لحاظ سے اگر اس وقت چشم بصارت کے ساتھ، چشم بصیرت کا بھی استعمال کیا جائے؛ تو یہ ساری چیزیں، دیگر صاحبزادگان کی بنسبت، ازہری صاحب قبلہ کے اندر، بدرجہ اتم و اکمل پائی جاتی ہیں بلکہ گدی نشیں صاحب قبلہ کے اندر، اس کا عشر عشیر بھی نہیں پایا جاتا؛ لہذا ازہری صاحب قبلہ ہی حقیقت میں حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے علمی و روحانی جانشیں ہیں اور اس میں کسی قسم کی کوٸی قباحت بھی نہیں، اس کو سمجھنے کے لیے آپ تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ کی بے مثال شخصیت کو سامنے رکھ سکتے ہیں، آپ کو جانشین مفتی اعظم ہند کہا جاتا تھا؛ تو اس لیے نہیں کہ آپ حضرت کے گدی نشیں یا سجادہ نشیں تھے بلکہ اس لیے کہا جاتا تھا کہ آپ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے سچے علمی وارث و جانشیں تھے؛ لہذا ازہری صاحب قبلہ کا فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے سچے جانشیں ہونے میں کسی کو کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے موقف و تعلیم سے بالکل، تو دور کی بات ہے، تھوڑا بھی الگ سمجھنے کی بھول کرنی چاہیے، اگر کوئی کرتا ہے؛ تو اس کے لیے کی دعا ہی کی جاسکتی ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ اس کم عمری کے اعتبار سے بھی جانشین فقیہ ملت حفظہ اللہ کی خدمات جلیلہ کا علم اگر کسی اندھے کو ہوجائے؛ تو وہ بھی آپ کا فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کا علمی وارث و جانشیں ہونے کا برملا اعتراف کرکرنے سے نہیں چوکے گا! فاضل انیس سیوانی صاحب! ازہری صاحب کی علمی و فقہی خدمات کی بنیاد پر نہ جانے کتنے علما و فقہا، اس بات کا اعتراف و اظہار کرتے ہیں کہ اپ ہی حضرت کے سچے علمی و روحانی جانشیں ہیں۔

فاضل انیس سیوانی صاحب مزید فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے بارے میں لکھتے ہیں: “میں الگ کوئی تحقیق نہیں کرتا، جو تحقیق بریلی یا مفتی شریف الحق صاحب امجدی کی تحقیق ہے وہی میری تحقیق ہے”.

یہ بات بالکل اپنی جگہ درست ہے کہ فقیہ ملت علیہ الرحمۃ، بریلی شریف کے فتوی کے خلاف اپنی نئی کوئی تحقیق نہیں پیش کرتے تھے، لیکن یہ بھی مسلمات سے ہے کہ اگر اہل سنت و جماعت کا کوئی فقیہ کسی مسئلہ میں اختلاف رکھتا تھا؛ تو  آپ اس کے ساتھ، کبھی بد زبانی بھی نہیں کرتے تھے بلکہ  بحیثیت فقیہ و مفتی، ان کی تعظیم میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ اور یہ کہنا کہ: “مفتی شریف الحق صاحب امجدی کی تحقیق ہے، وہی میری تحقیق ہے”. یہ غالبا فاضل انیس سیوانی صاحب کی طرف سے حقیقت سے چشم پوشی یا پھر بھولنے یا لا علمی کا نتیجہ ہے؛ کیوں کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ، پوری زندگی چین والی گھڑی کے ساتھ، نماز کے جواز کے قاٸل تھے اور پوری زندگی، فقیہ ملت علیہ الرحمۃ، عدم جواز کے قائل تھے؛ لہذا اس تعلق سے آپ کا دعوی، باطل محض ہے۔

فاضل انیس سیوانی صاحب، ایک بات یہاں مزید نوٹ کرلیں کہ فقیہ ملت حق گو و بے باک تھے، چاپلوس نہیں اور حق گوئی میں لومۃ لائم سے کبھی خوف نہیں کھاتے تھے، اگر حقیقت یہی ہوتی کہ کسی مسئلہ میں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ یا جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے، دونوں مفتیان کرام یعنی مفتی شریف الحق علیہ الرحمۃ اور مفتی نظام الدین صاحب قبلہ، اعلی حضرت یا مفتی اعظم  کے موقف و تعلیم سے بالکل الگ مانے جاتے، جیسا کہ آپ گمان کرتے ہیں اور اسی گمان کے مطابق، آپ نے ازہری صاحب قبلہ کو فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے موقف و تعلیم سے بالکل الگ ڈیکلئر کردیا؛ تو فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کبھی بھی ان دونوں کی تعظیم و توقیر نہیں کرتے اور نہ ہی ان دونوں کے لیے رطب اللسان رہتے! مزید کے لیے مطالعہ کرسکتے ہیں: فقیہ ملت اور سراج الفقہاء، کچھ یادیں، کچھ باتیں، لنک حاضر ہے: https:/?p=481

فاضل انیس سیوانی صاحب مزید لکھتے ہیں: “مفتی نظام الدین صاحب یقینا وہ سب پہ فائق، سب سے زائد،  تفقہ کے مالک ہیں، جو صلاحیت اور حوصلہ ان کے اند ر ہے، موجودہ وقت میں بریلی کے طرفدار علماء میں بالکل نہیں اور آئندہ وہ چیزیں، ان میں ہو بھی نہیں سکتیں، محدث کبیر علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ صاحب قادری، تاج الشریعہ علیہ الرحمہ، فقیہ ملت اور ان کی مثل دوسرے علماء امام اعظم ابوحنیفہ کے مقلد اور امام احمد رضا خاں قادری کے مسلک و تعلیمات کے مترجم ہیں، امام احمد رضا کی تعلیمات اور مفتی اعظم کے فتووں سے سر مو انحراف انہیں گوارہ نہیں، یہ سبھی حضرات قدیم الخیال ہیں۔
جو کچھ بزرگوں نے لکھا ہے، وہی  جواب یہ حضرات لکھتے ہیں۔ مفتی نظام الدین صاحب کی راے یہ ہے کہ اعلی حضرت، مفتی اعظم، صدر الشریعہ، حافظ ملت علیھم الرحمہ وغیرھم کے فتووں اور فیصلوں سے اختلاف کرتے رہنا چاہیے، ہاں دوسرے کسی کو ان سے اختلاف کا ہر گز ہر گز، نہ شرعاً حق ہے نہ کسی اور جہت سے، ہاں! ایک بات عرض کردوں کہ حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ اور محدث کبیر کے درمیان جو مراسم تھے، خلف الرشید ہونے کے ناطے، اس کی کامل پاسداری جانشین فقیہ ملت علامہ انوار احمد امجدی مدظلہ کرتے ہیں اور وہ محدث کبیر کی بارگاہ میں مؤدب بھی ہیں اور محترم بھی، جن مسئلوں میں مفتی نظام الدین صاحب اپنے بزرگوں سے اختلاف رکھتے ہیں، ان تمام مسائل میں مولانا انوار احمد امجدی صاحب، علامہ صاحب کے ساتھ ہیں”.

اف، فاضل انیس سیوانی صاحب، آخر کب تک بریلی شریف اور بزرگان دین کا نام لےکر قارئین کے جذبات سے کھیلیں گے؟! جناب من، جیسے باقی لوگ مقلد ہیں، اسی طرح فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب قبلہ بھی مقلد ہیں اور مسلک اعلی حضرت یعنی مسلک اہل سنت کے سچے و پکے ترجمان اور طرفدار ہیں، البتہ ضرورت پڑنے پر تحقیق کا دروازہ کھلا تھا، کھلا ہے اور کھلا رہےگا۔  تعجب ہے، اگر فقیہ اعظم زید مجدہ کا کسی وجہ سے بعض مسائل میں معاصرین بریلی سے اختلاف ہوگیا؛ تو وہ مسلک کے اچھے یا پھر اس کے ترجمان ہی نہ رہے! یہ آپ کی سوچ تو ہو سکتی مگر اعلی حضرت، مفتی اعظم ہند اور فقیہ ملت علیہم الرحمۃ کی سوچ کبھی نہیں ہوسکتی اور آپ کی یہ سوچ، ریت کی عمارت سے بھی کمزور ہے، جو ھباء منثورا ہے۔ اگر یہی طرز استدلال ہے؛ تو بعض موقف، مثلا کتابت نسواں وغیرہ میں حضرت محدث کبیر صاحب قبلہ نے، اعلی حضرت کے مخالفت کی ہے، اگر محض اسی بنا پر کسی کی مقلدیت و مسلکیت پر سوالیہ نشان قائم کیا جاسکتا ہے؛ تو کیا محدث کبیر صاحب قبلہ پر بھی اس طرح کی بات کی جاسکتی ہے؟! میں سمجھتا ہوں کہ ہرگز نہیں کی جاسکتی ہے، آپ کو بھی اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ اور رہی بات یہ کہ فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کی گدی کے سجادہ نشیں، ہر موقف میں علامہ صاحب قبلہ کے ساتھ ہیں؛ تو اس میں ہر عالم و فقیہ خود مختار ہے، اہل سنت و جماعت کے جس گروہ کے ساتھ، دل جمے، ادھر والوں کے ساتھ رہے، مگر اس کی وجہ سے کسی کی مقلدیت یا مسلکیت پر ضرب لگائی جائے؛ تو یہ بہت ہی مذموم حرکت ہے۔ نیز کسی کے ساتھ، چاپلوسی  یا اپنا مطلب نکالنے کے لیے، نہیں ہونا چاہیے، ورنہ دنیا تو جائے گی ہی، ساتھ ہی میں آخرت بھی تباہ و برباد ہوجائے گی۔

فاضل انیس سیوانی صاحب مزید مہربانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “گھریلوں طور پر ہر جگہ کچھ نہ کچھ اختلافات ہوتے ہیں, آدمی دوست کے دوست کو دوست سمجھتا ہے اور دشمن کے دوست کو دشمن سمجھتا ہے چونکہ مولانا انوار احمد امجدی صاحب علامہ صاحب سے قریب ہیں تو پھر مولانا ازہار صاحب کسی جہت سے علامہ صاحب کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں تو کیا”.

واہ سیوانی صاحب واہ، آپ نے تو کمال ہی کر دیا، آپ تو بڑے پہنچے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے گھر تک پہنچ گیے اور نتیجہ وہ نکالا جو آپ کے بد ظنی کی کان ہونے کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے، نیز آپ نے شوسل میڈیا پر اس آپسی اختلاف کا ذکر کرکے، وہ کام کیا ہے، جو آج تک فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے گھر والے یا ان کے محبین یا معاندین میں سے بھی کوئی نہیں کرسکا! مگر آپ نے گدی نشیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر بھولے لوگوں کے استغلال کے لیے کچھ تو کرنا ہی پڑےگا، آپ کی یہ بے مثال کاوش، آپ کو بہت مبارک ہو!

بہر حال حضرت فقیہ ملت کے گدی نشیں اور جانشین فقیہ ملت ازہری صاحب قبلہ کے درمیان کچھ اختلاف تو ضرور ہے، مگر وہ کوئی ذاتی رنجش کا شاخسانہ نہیں اور نہ ہی ان دونوں کے درمیان کوئی تقابل اور نہ ہی ازہری صاحب کی علامہ صاحب قبلہ سے کوئی دشمنی۔ البتہ آپ جب گھر تک پہنچ گیے ہیں؛ تو میں آپ کو بتادوں، ازہری صاحب قبلہ کی وہ بے نیاز اور علما و فقہا کا احترام کرنے والی شخصیت ہے کہ جامعہ ازہر شریف، مصر میں، بے دست و پا ہونے کے باوجود، مرکز تربیت افتا اور آپ کے گھریلو اختلاف کے حل کرنے کو لےکر، دس بارہ سال پہلے، جب علامہ صاحب قبلہ کی ازہری صاحب سے بات ہوئی اور پوچھا کہ آپ کو اس معاملہ میں کچھ کہنا ہے؛ تو ازہری صاحب نے عرض کیا کہ آپ اور دیگر علما جو فیصلہ کردیں گے، وہی ہمارے لیے کافی ہے، مجھے کچھ نہیں کہنا۔ اگر اس حالت میں آپ کے سجادہ نشیں ہوتے؛ تو بلا مبالغہ، ان کے پاس مانگ کی پوری فہرست ہوتی، مگر قربان جائیے ازہری صاحب کی قربانی اور علما کے احترام پر کہ آپ نے ایک آدھ مانگ بھی پیش نہ کی اور فصلہ علما و فقہا پر چھوڑ دیا۔ خیر اس وقت مع علامہ صاحب قبلہ، پچاسوں علما نے مل کر فیصلہ کیا تھا، دس بارہ سال گزر گیے مگر آج تک، فقیہ ملت کے گدی نشیں صاحب نے اس فیصلے کی ایک بات پر بھی عمل نہیں کیا اور سب لےکر بیٹھے کے بیٹھے رہ گیے، اگر آپ انصاف کریں گے؛ تو آپ کو احساس ہوگا کہ حقیقت میں علامہ صاحب قبلہ کی مخالفت کرنے والے، یہی فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے گدی نشیں صاحب ہیں، نہ کہ ازہری صاحب قبلہ، یہیں سے آپ کا گدی نشیں صاحب کی طرف سے علامہ صاحب قبلہ کی تابع داری کا جو بھرم تھا، وہ بھی جاتا رہا!

فاضل انیس سیوانی صاحب! اگر وقت اجازت دے؛ تو جاتے جاتے جانشین فقیہ کی دو درجن سے زائد، تالیف اور عربی و اردو ترجمہ اور تحقیق و تصحیح اور ہزار صفحات سے زائد پر مشتمل مقالات اور ہزار سے زائد تحریر و تصحیح کردہ فتاوی پر آپ کی بھی ایک نظر پڑ ہی جانی چاہیے، جو جانشین فقیہ ملت کے فقیہ ملت کے موقف و تعلیم پر قائم رہنے کا منھ بولتا ثبوت ہے، حق واضح ہوجائے گا، مگر شرط ہے کہ انصاف کی نظر دیکھا جائے، لنک پیش ہے، 👇👇👇👇👇👇👇:
تعارف: https:/?p=43 تالیفاتتالیفات و تراجم: https:/?cat=39 مقالات: https:/?cat=11

فاضل سیونی صاحب آپ کی محبتوں کا بہت شکریہ:
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر

تنبیہ: اس کے جواب میں کسی بھی تحریر کا جواب نہیں دیا جائے گا۔
عبد اللہ امجدی
یکے از محبین فقیہ ملت علیہ الرحمۃ
٣/رجب المرجب ١٤٤٥ھ

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.