طلاق دے دونگا کا حکم۱

سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیا ن شرع متین درج ذیل مسئلہ میں کہ میاں بیوی تنہا ایک مکان میں جھگڑ رہے تھے، شوہر شراب کے نشے میں تھا، اس نے بیوی کو مارا جس کی وجہ سے اس کی بیوی پڑوسی کے گھر چلی گئی، شوہر تنہائی میں کہ رہا تھا کہ لڑکی کے والد کو بلاؤ، میں طلاق دے دونگا، دو چار عورتیں اس کی بیوی سے جاکر کہتی ہیں کہ تمہاری طلاق ہوگئی ہے، جس کو سن کر عورت اپنے میکے واپس چلی گئی، اس صورت میں عورت پر طلاق پڑے گی یا نہیں؟

المستفتی: مولانا محمد اسلم

مقام: ترکیٹی، خیر آباد شریف، سیتاپور

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب شوہر کے اس جملہ سے کہ ’’میں طلاق دے دونگا‘ طلاق واقع نہیں ہوگی؛ کیوں کہ یہ طلاق کا وعدہ ہے اور وعدہ سے طلاق نہیں ہوتی جب تک کہ طلاق نہ دیدے۔

الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’سُئِلَ نَجْمُ الدِّينِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لِامْرَأَتِهِ اذْهَبِي إلَى بَيْتِ أُمِّك فَقَالَتْ طَلَاق دَهٍ تابروم فَقَالَ تَوّ بَرْو مِنْ طَلَاقِ دُمَادِم فَرُسْتُمُ قَالَ لَا تَطْلُقُ لِأَنَّهُ وَعْدٌ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ‘‘۔ (ج۱ص۳۸۴، الفصل السابع فی الطلاق بالألفاظ الفارسیۃ، ط: دار الفکر)

جلالۃ العلم حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

’’عمرو کے اس جملہ سے کہ ’’طلاق دے دیں گے یا دیدیبے‘‘ طلاق نہیں واقع ہوئی کہ یہ جملہ طلاق الفاظ میں سے نہیں ہے بلکہ طلاق کا وعدہ ہے اور تاوقتیکہ طلاق نہ دے، صرف طلاق کے وعدہ سے طلاق نہیں پڑتی‘‘۔ (فتاوی فیض الرسول، ج۲ص۱۹۰) و اللہ تعالی أعلم۔

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے

بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۲۸؍ذی الحجۃ ۳۷ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.