صلاۃ التسبیح اور قضا نماز جماعت سے پڑھنا جائز ہے یا نہیں

۹۲؍۷۸۶

(۱)کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین، اس مسئلہ میں رجب المرجب کی ستائیسویں شب میں تداعی کے ساتھ، صلاۃ التسبیح کی نماز، جماعت کے ساتھ پڑھانا اور لوگوں کا پڑھنا، شرعا درست ہے یا نہیں؟ جب کہ دعوت اسلامی کے مبلغین اس نماز کا مذکورہ شب میں کثرت سے اہتمام کرتے ہیں، شرعا اس کا حکم کیا ہے؟ کیا قضا نمازوں کو جماعت کے ساتھ، شب مذکور میں پڑھنے کی اجازت ہے؟ اگر کوئی صورت ہو؛ تو بیان فرمائیں۔

(۲)جن مسلمانوں کے ذمہ فرض اور واجب نمازیں باقی ہوں، ان لوگوں کو صلاۃ التسبیح کی نماز، جماعت کے ساتھ یا تنہا پڑھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں، نوازش ہوگی؟ بینوا توجروا۔

المستفتی: محمد آفتاب خاں

ابو سراے، فیض آباد، ضلع ایودھیا۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب (۱) نفل نماز، تداعی یعنی تین سے زائد لوگوں کے ساتھ جماعت سے پڑھنا، جائز ہے، مگر تداعی کے ساتھ پڑھنا، مکروہ تنزیہی و خلاف اولی ہے؛ لہذا دعوت اسلامی کے مبلغین کا رجب المرجب کی ستائیسویں شب کو صلاۃ التسبیح، تداعی کے ساتھ پڑھنا، مکروہ تنزیہی و خلاف اولی ہے، اس سے پرہیز کریں؛ تو بہتر ہے، لیکن اگر وہ پرہیز نہیں کرتے  بلکہ تداعی کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں؛ تو گنہ گار نہیں۔

بہار شریعت میں ہے: ’’نوافل اور علاوہ رمضان کے، وتر میں اگر تداعی کے طور پر ہو؛ تو مکروہ ہے۔ تداعی کے یہ معنی ہیں کہ تین سے زیادہ مقتدی ہوں‘‘۔ (بہار شریعت، صدر الشریعۃ، ج۱ح۳ ص۵۸۶، ط: قادری کتاب گھر، بریلی شریف)

فتاوی رضویہ میں ہے: ’’تراویح و کسوف و استسقا کے سوا، جماعت نوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کا مذہب معلوم و مشہور اور عامہ کتب مذہب میں مذکور و مسطور ہے کہ بلاتداعی مضائقہ نہیں اور تداعی کے ساتھ مکروہ…………………………بالجملہ دو مقتدیوں میں بالاجماع جائز اور پانچ میں بالاتفاق مکروہ اور تین اور چار میں اختلاف نقل و مشائخ اور اصح یہ کہ تین میں کراہت نہیں، چار میں ہے؛ تو مذہب مختار یہ نکلا کہ امام کے سوا چار یا زائد ہوں؛ تو کراہت ہے ورنہ نہیں……….پھر اظہر یہ کہ یہ کراہت صرف کراہت تنزیہی ہے، یعنی خلاف اولی لمخالفۃ التوارث (کیوں کہ یہ طریقہ توارث کے خلاف ہے۔ت) نہ تحریمی کہ گناہ و ممنوع ہو‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی، باب الوتر و النوافل، ج۷ص۴۳۰–۴۳۱، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، پوربندر)

کافی غور و فکر کے بعد بھی ستائیس رجب المرجب کی شب یا کسی دوسرے وقت،  قضاے عمری، جماعت سے پڑھنے کی کوئی صورت، جواز کی نہیں نکل رہی ہے؛ کیوں کہ اس میں امام اور مقتدی کی نیت مختلف ہوجائےگی اور یہی مقتدی کی  نماز کے فاسد ہونے کے لیے کافی ہے، مثلا امام کے ذمہ جو ظہر کی نمازیں قضا تھیں، اس نے ان میں سے پہلی نماز ظہر کی نیت کی اور مقتدی کے ذمہ جو ظہر کی نمازیں قضا تھیں، اس نے ان میں سے پہلی نماز ظہر کی نیت کی اور اس صورت میں جب پہلی نماز ظہر کا دن معلوم نہیں؛ تو ظاہر یہی ہے کہ  امام اور مقتدی نے ظہر کی پہلی نماز کی جو نیت کی ہے، وہ دونوں الگ الگ دن کی ہے اور  اس صورت میں مقتدی کی نماز فاسد ہونے میں کوئی کلام نہیں۔

فتاوی عالم گیری میں ہے: ’’لَا يَصِحُّ اقْتِدَاءُ مُصَلِّي الظُّهْرِ بِمُصَلِّي الْعَصْرِ وَمُصَلِّي ظُهْرِ يَوْمِهِ بِمُصَلِّي ظُهْرِ أَمْسِهِ وَبِمُصَلِّي الْجُمُعَةِ وَكَذَا عَكْسُهُ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الإمامۃ، الفصل الثالث فی بیان من یصح إمامالغیرہ، ج۱ص۸۶، ط: دار الفکر، بیروت)

(۲) جن مسلمانوں کے ذمہ فرض یا واجب نمازیں ہیں، ان لوگوں کو بھی صلاۃ التسبیح کی نماز، جماعت کے ساتھ یا تنہا پڑھنا، جائز ہے، لیکن  تین سے زائد لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز، مکروہ تنزیہی ہوگی، مگر ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ سب سے پہلے اپنے ذمہ جو فرض یا واجب نمازیں ہیں، ان کو جلد از جلد ادا کریں،  البتہ اگر عوام، انھیں ادا کرنے میں کوتاہی کریں؛ تو اس کی وجہ سے ان کو نفل نماز پڑھنے سے روکا نہ جائے؛ کیوں کہ وہ جس طرح بھی رب تعالی کی عبادت کریں، غنیمت ہے، البتہ ذمہ داران کو چاہیے کہ انھیں ہمیشہ فرض و واجب کی اداےگی کی طرف توجہ دلاتے رہیں اور انھیں بتائیں کہ نفل کی جگہ فرض و واجب پڑھیں۔

فتاوی رضویہ مترجم میں ہے: ’’نفل، غیر تراویح میں، امام کے سوا، تین آدمیوں تک تو اجازت ہے ہی، چار کی نسبت کتب فقہیہ میں کراہت لکھتے ہیں، یعنی کراہت تنزیہ جس کا حاصل خلاف اولی ہے، نہ کہ گناہ حرام کما بیناہ فی فتاوٰنا (جیسا کہ اس کی تفصیل ہم نے اپنے فتاوی میں دی ہے۔ ت) مگر مسئلہ مختلف فیہ ہے اور بہت اکابرین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اور عوام فعل خیر سے منع نہ کیے جائیں گے، علماے امت و حکماے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی، باب الوتر و النوافل، ج۷ص۴۶۵، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، پوربندر)

اعلی حضرت مجدد دین وملت علیہ الرحمۃ سے فرض ذمہ میں ہوتے ہوئے، نفل کے مقبول ہونے کے بارے میں سوال ہوا؛ تو آپ نے فرمایا: ’’خالی نفلوں کی جگہ بھی قضاے عمری پڑھے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، محدث بریلوی، کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، ج۶ص۱۰۳، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف) و اللہ تعالی أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری مصباحی غفرلہ

فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعہ حدیث، ایم اے

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۲۰؍رجب المرجب  ۱۴۴۵ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.