شوہر کا قول میں طلاق دے دوں گا اور عورت کا قول طلاق دیتا ہوں۱

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آج سے ۲۳ (تیئس) سال پہلے بیوی سے ناراضگی پر میں نے بیوی کو دو مرتبہ کہ دیا کہ تم کو طلاق دے دوں گا، ہم دونوں کے درمیان کوئی گواہ موجود نہیں تھا، بیوی نے کہا کہ تم نے کہا ہے کہ طلاق دیتا ہوں، اس بات پر بحث ہوئی اور پھر ہم ساتھ رہتے رہے۔ ۲۰ (بیس) سال پہلے میں نے شکاگو میں ایک مرتبہ کہا کہ تم کو طلاق دیتا ہوں اور فورا احساس ہوا کہ یہ جملہ صحیح نہیں ہے، ۱۹۹۹ء سے آج تک ہم ساتھ رہتے ہیں، کوئی اس بات کا بیوی نے ذکر نہیں کیا، ۲۰۰۲ء میں ایک بچہ بھی پیدا ہوا، آج تقریبا آٹھ سال کا ہے۔

مئی ۲۰۱۹ء سے وہ کہ رہی ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی نہیں ہیں، شرعی ہمارے لیے کیا حکم ہے، شکریہ۔

میرا نام:  سہیل احمد بن مسلمہ خاتوان

بیوی: شاہین احمد بنت رابعہ بیگم

فون: 6472422960

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب سہیل احمد یہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو پہلی مرتبہ دو بار کہا: ’’ تم کو طلاق دے دوں گا‘‘  اور اس کی بیوی کہتی ہے کہ اس نے دو مرتبہ : ’’طلاق دیتا ہوں‘‘ کہا تھا مگر اس کے پاس شرعی گواہ نہیں؛ تو اس صورت میں شوہر سے حلف لیا جائے۔

حدیث شریف میں ہے: ((الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ)) (معرفۃ السنن و الآثار، بیہقی، ج۱۴ص۲۹۶، رقم:۲۰۰۲۶، ط:دار الوفاء، القاھرۃ)

الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’ادَّعَتْ عَلَى زَوْجِهَا تَطْلِيقَةً رَجْعِيَّةً يَحْلِفُ بِاَللَّهِ مَا هِيَ طَالِقٌ مِنْك السَّاعَةَ وَإِنْ ادَّعَتْ الْبَائِنُ فَفِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ يَحْلِفُ بِاَللَّهِ مَا هِيَ بَائِنٌ مِنْك السَّاعَةَ بِوَاحِدَةٍ أَوْ ثَلَاثٍ عَلَى حَسْبِ الدَّعْوَى أَوْ بِاَللَّهِ مَا طَلَّقْتُهَا الْبَائِنَ أَوْ الثَّلَاثَ فِي هَذَا النِّكَاحِ الْمُدَّعَى وَلَا يَحْلِفُ مَا طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا مُطْلَقًا كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ‘‘۔ (ج۴ص۱۸، الفصل الثانی فی کیفیۃ الیمین و الاستحلاف)

حلف کے بعد اس کی بات مان لی جائے گی اور یہ تسلیم کیا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی کو پہلی بار دو مرتبہ ’طلاق دے دوں گا‘ کہا ہے؛ لہذا اس صورت میں اس کی بیوی پر ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’سُئِلَ نَجْمُ الدِّينِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لِامْرَأَتِهِ اذْهَبِي إلَى بَيْتِ أُمِّك فَقَالَتْ طَلَاق دَهٍ تابروم فَقَالَ تَوّ بَرْو مِنْ طَلَاقِ دُمَادِم فَرُسْتُمُ قَالَ لَا تَطْلُقُ لِأَنَّهُ وَعْدٌ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ‘‘۔ (ج۱ص۳۸۴، الفصل السابع فی الطلاق بالألفاظ الفارسیۃ، ط: دار الفکر)

البتہ شکاگو میں سہیل احمد کے دوسری بار اس جملہ ’’تم کو طلاق دیتا ہوں‘‘ سے اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی، مگر اس صورت میں سہیل احمد اپنی بیوی سے عدت میں رجوع کرسکتا ہے، اگر عدت میں رجوع کرلیا تھا؛ تو اب اس کی بیوی اس کی زوجیت سے خارج نہیں ہوگی۔

رد المحتار میں ہے: ’’وَكَذَا تَنْقَطِعُ الرَّجْعَةُ بِمُجَرَّدِ طُهْرِهَا بِتَمَامِ الْعَشَرَةِ فِي الْحَيْضَةِ الثَّالِثَةِ لَوْ كَانَتْ مُطَلَّقَةً طَلَاقًا رَجْعِيًّا. وَيَجُوزُ لَهَا التَّزَوُّجُ بِآخَرَ؛ لِأَنَّهَا بَانَتْ مِنْ الْأَوَّلِ بِانْقِضَاءِ الْعِدَّةِ‘‘۔ (باب الحیض، ج۱ص۲۹۶، ط:دار الفکر، بیروتت)

البتہ اگر سہیل احمد نے جھوٹی قسم کھائی؛ تو اس کا وبال اس کے سر ہوگا لیکن اگر سہیل احمد کی بیوی کو یقین ہے کہ اسے اس کے شوہر نے پہلی بار دو مرتبہ ’’طلااق دیتا ہوں‘‘ کہا تھا اور اس کا شوہر ایک مرتبہ خود شکاگو میں طلاق دینے کا اقرار کر رہا ہے؛ جس کی بنا پر کل تین طلاق ہوگئیں؛ تو اس صورت میں اس پر لازم ہے کہ  کسی طرح شوہر کو اپنے اوپر قدرت نہ دے اور خلع وغیرہ کے ذریعہ سہیل احمد سے چھٹکارا حاصل کرے۔

         اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ (البقرۃ:۲، آیت:۲۳۰) و اللہ أعلم۔ کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

     ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

    خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی ، یوپی، انڈیا

۲۱؍شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.