سیدی تاج الاولیاء کے شہر ناگ پور کا پہلا سفر!
آخری قسط۔
٢٨/ جمادی الآخرۃ ١٤٤٤ھ مطابق ٢٠/ جنوری ٢٠٢٣ء کو اپنے وقت رات آٹھ پچیس سے تقریبا پندرہ بیس منٹ تاخیر سے فلائٹ ناگپور پہنچتی ہے، وعدہ کے مطابق بچپن کے ساتھی محترم غلام محمد امجدی، اوجھا گنج نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ناگ پور ائیر پورٹ پر مجھے ریسیو کیا اور پھر ہم ایک ساتھ ناگپور سے ساٹھ کلو میٹر دوری پر واقع ضلع بھنڈارا کے لیے نکل گیے، بھنڈارا پہنچ کر ہم نے وہاں کے ایک مشہور ہوٹل فلیور میں کھانا کھایا اور اس کے بعد محترم امجدی صاحب کی قیام گاہ پر پہنچ گیے، وہاں پر اپنے گاؤں اوجھاگنج کے کچھ لڑکوں سے ملاقات ہو ئی، تھکاوٹ کے باوجود کچھ دیر بات ہوئی، میں نے سب کو ایک اہم امر کی طرف توجہ دلائی کہ کوئی بھی بڑا آدمی ہماری طرح انسان ہی ہوتا ہے، ہم آپ بھی چاہیں تو بڑے بن سکتے ہیں، بس اللہ تعالی پر بھروسہ کرکے بھر پور کوشش کرنے کی ضرورت ہے، نیز یہ کہ نوکری کر رہے ہیں تو آگے بڑھ کر تجارت کرنے کی کوشش کریں اور چھوٹی موٹی تجارت ہے تو بڑی تجارت کی طرف توجہ دیں اور بڑی تجارت ہے تو اور بڑی تجارت کرنے کی سعی کریں مگر فل اسٹاپ نہ لگائیں، کیوں کہ فل اسٹاپ لگانے والے صرف کھاتے اور جیتے ہیں اور ہمہ وقت آگے بڑھنے کی فراق میں رہنے والے، خود کھانے اور جینے کے ساتھ، دوسرے کو بھی کھلانے، جلانے کے ساتھ آگے بڑھانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیز میں نے سب کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ کوئی سسٹم اپنی بنیاد کو چھوڑ کر صحیح سلامت نہیں رہ سکتا، اس لیے ہمیں اسلام کی بنیاد کلمہ حق اور نماز وغیرہ کی سختی سے حفاظت کرنی چاہیے۔ پھر عشا کی نماز پڑھنے کے بعد تقریبا ایک بجے رات ہم سب نیند کی آغوش میں چلے گیے۔
٢٨/ جمادی الآخرۃ مطابق ٢١/جنوری کی صبح اٹھنے کے بعد فجر کی نماز پڑھی گئی اور اوراد و وظائف کے بعد ناشتہ کرکے وہاں سے تقریبا گیارہ بجے ناگپور کے لیے نکل گیے، چوں کہ محترم امجدی صاحب ساتھ میں تھے، اس لیے سب سے پہلے سیدی و سندی حضرت بابا تاج الدین علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں حاضری دینے کے بعد، ایک بجے کے آس پاس ہم اورینٹ طیبہ ہوٹل ٹو اسٹار پہنچ گیے۔ چار سو دو نمبر کمرے میں ہمارا قیام تھا، کمرے میں پہنچتے ہی دو متحرک نوجوان ازہری، ایک نبیرہ رئیس القلم حضرت مولانا محمود غازی ازہری زید علمہ اور دوسرے حضرت مولانا شاہ نواز مصباحی ازہری زید علمہ سے بڑی پرجوش ملاقات ہوئی، تھوڑی ہی دیر بعد چائے نوشی ہوئی اور اس کے بعد محترم امجدی صاحب اجازت لے کر بھنڈارا کے لیے نکل گیے، امجدی صاحب اور ان کے ساتھ دیگر لڑکے صوفے کا کام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو نماز وغیرہ پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق دے اور رزق و تجارت میں خوب برکت و ترقی عطا فرمائے، آمین۔
چوں کہ عصر بعد ہی چلسہ گاہ میں حاضر ہونا تھا، اس لیے فورا کھانے کے لیے ہم سب نیچے آگیے، یہیں پر اپنے وقت کے ناقد و مدقق مفتی مطیع الرحمن زید مجدہ اور متحرک و فعال عالم دین حضرت مولانا عمران برکاتی زید جہدہ اور دیگر علماے کرام سے بھی ملاقات ہوئی، جلد ہی کھانا کھا کر مفتی صاحب قبلہ کی طلب پر آپ کی بارگاہ میں ہم سب حاضر ہوئے، آپ نے اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کے اشعار سے متعلق اپنی ایک جدید تصنیف عطا فرمائی، فجزاہ اللہ عنا خیر الجزاء۔ کچھ گفت و شنید کے بعد آپ سے اجازت لے کر تھوڑا آرام کیا گیا اور پھر تیار ہوکر ہم سب جلسہ گاہ پہنچ گیے۔ جلسہ گاہ کا پنڈال سیدی تاج الاولیاء علیہ الرحمۃ کے مزار شریف کے پورب طرف لگا تھا، یہ کافی بڑا ہونے کے ساتھ بڑا بارونق نظر آرہا تھا، بیان جاری تھا اور لوگ بیان بخوبی سماعت کر رہے تھے۔ یہیں پر مولانا فیض احمد مصباحی ساؤتھ افریقہ سے ملاقات ہوئی، آپ بڑی خوش مزاجی سے ملے اور آپ ہی بڑے ہی نرالے انداز میں اناؤنسری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ مغرب کا وقت ہوا، تو وہیں پر حضرت مصباحی صاحب قبلہ کی امامت میں با جماعت مغرب کی نماز ادا کی گئی۔
آٹھ بجے رات کو میرے بیان کا وقت آیا، بیان کا موضوع تھا: طلاق کے بڑھتے رجحان، اسباب اور ان کا حل۔ تقریبا آدھا گھنٹا اس موضوع پر روشنی ڈال کر اپنی بات ختم کردی۔ درمیان میں دو حضرات تشریف لائے، ایک سید سلیمان صاحب قبلہ اور دوسرے سید ابدال صاحب قبلہ، پہلی شخصیت کے ورود مسعود تو غنیمت تھی مگر دوسری شخصیت ورود محمود پر پورا مجمع انہیں کی طرف متوجہ ہوگیا، حالاں کہ بیان کے وقت ایسا نہیں ہونا چاہیے، اس پر منتظمین، آنے والی شخصیات اور سامعین کو بند باندھنا چاہیے۔ مہمان کو سکون و اطمینان سے لایا جائے اور بیان کے بعد یا پھر جب آنے والے کے بیان کی باری آئے، اسی وقت تعارف پر اکتفا کیا جائے۔ یہ نشست تقریبا دس بجے رات کو اختتام پذیر ہوتی ہے۔ مجلس کے بعد ہی حضرت علامہ مولانا مفتی مجتبی شریف زید مجدہ، فاضل بغد و سربراہ الجامعۃ الرضویۃ دار العلوم امجدیہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، آپ کافی منکسر المزاج شخصیت کے مالک ہیں اور سادگی آپ کا بے مثال وقار ہے۔ آپ سے ملاقات کے بعد ہم نے اورئینٹل ہوٹل پہنچ کر رات کا کھانا کھایا، پھر احباب کے ساتھ تھوڑی گفت و شنید کے بعد، میں نماز پڑھ کر سونے کے لیے بستر پر چلا گیا۔
حسب پروگرام ٣٠/جمادی الآخرة مطابق ٢٢/جنوری کی صبح ناشتہ کے بعد تمام مہمان تقریبا الجامعۃ الرضویۃ دار العلوم امجدیہ، بوتھلی پہنچے، وہاں پر علما اور دانشوران کی ایک اہم میٹنگ تھی، یہاں پر حضرت مولانا فیض احمد مصباحی زید علمہ، ساؤتھ افریقہ نے نظامت سنبھال رکھی تھی، یکے بعد دیگرے فاضل بغداد حضرت مولانا مفتی مجتبی شریف زید مجدہ، صدر اعلی الجامعۃ الرضویۃ، دار العلوم امجدیہ، ڈاکٹر فضل اللہ چشتی صاحب زید شرفہ، ڈاکٹر غلام یحیی انجم مصباحی زید مجدہ اور دیگر حضرات نے حالات حاضرہ کے اعتبار سے دینی و عصری تعلیم پر روشنی ڈالی، اس موقع پر تمام بیانات حالات کے اعتبار سے بڑے مفید تھے، خاص کر ڈاکٹر فضل اللہ چشتی صاحب قبلہ نے بڑی اہم گفتگو فرمائی۔ اس مجلس کے انعقاد کا سبب یہ تھا کہ الجامعۃ الرضویۃ کے صدر و اراکین بڑی خوش اسلوبی سے علما کو دینی تعلیم کے ساتھ، سی بی ایس سی بورڈ کے لحاظ سے عصری تعلیم بھی دے رہے ہیں اور یوں وقت کے جبری تقاضا کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو، جب کہ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اس کے مستقبل میں یونیورسٹی ہونے کا اظہار خیال فرمایا تھا، جس کے لیے حضرت مولانا مفتی غلام محمد او حضرت مولانا مجیب اشرف علیہما الرحمۃ نے بھر پور کوشش کی اور آج بھی حضرت مفتی غلام محمد علیہ الرحمۃ کے نواسے حضرت مفتی مجتبی شریف زید مجدہ اپنے اراکین کے ساتھ اس اہم ذمہ داری کو بڑے ہی حسن و خوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ اخیر میں حضرت مولانا مفتی عبد المنان کلیمی زید مجدہ کی دعا پر یہ اہم میٹنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ کھانا کھانے کے بعد حضرت مولانا غلام محمد علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں فاتحہ پڑھ کر ہم لوگ اورینٹل طیبہ ہوٹل واپس آگئے۔
ظہر و عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد جامعۃ المدینۃ فیضان عطار اور بہت ہی قدیم یادگار مدرسہ شمس العلوم جو مدرسہ اسلامیہ سے بھی جانا جاتا تھا، ہم ان کی زیارت کے لیے نکل گیے، کمرے کے دونوں احباب کے ساتھ، متحرک عالم دین حضرت مولانا حسن نوری گونڈوی زید علمہ بھی تھے۔ شمس العلوم ہی وہ مدرسہ ہے جس میں رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ دن میں پڑھانے کے ساتھ رات میں بھی درس دیتے تھے، رات میں پڑھنے والوں میں ایک نمایاں نام حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ و الرضوان کا بھی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم اپنے منزل مقصود جامعۃ المدینۃ پہنچ گیے، یہان مفتی شفیق الرحمن اور مولانا گلریز مصباحی زید علمہما و غیرہ سے ملاقات ہوئی، سبھی لوگ بڑے ہی خوش اخلاقی سے پیش آئے، ناشتے کے درمیان مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، اس کے بعد ادارہ کو بھی دیکھا گیا، یقینا ادارہ کم زمین پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں بنایا گیا ہے جو اپنی تمام تر ضروریات پر مشتمل ہے۔ دعوت اسلامی نے جامعہ کے دوسری طرف مسجد بھی بنا رکھی ہے، جس میں گاہے بگاہے پروگرام بھی ہوتا اور لوگ کثیر تعداد میں فیض یاب ہوتے ہیں۔ جامعہ کے ذمہ داران علاقے کے پچاس سے زائد دیہاتوں میں تعلیمی و تربیتی بیداری لانے کوشش میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
مغرب سے پہلے ہی ہم جامعہ کے ذمہ داران سے اجازت لے کر ناگ پور قدیم یادگار ادارہ پہنچ گیے، بعد میں پتہ چلا کہ یہ جامعہ عربیہ ہے، جہاں رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ رات میں آرام کرتے تھے۔ بہر حال بہتر ہی ہوا، کیوں کہ کچھ انتظار کے بعد ہی مفتی عبد الرشید علیہ الرحمۃ کے صاحبزادے حضرت علامہ مولانا عبد القدیر اور آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا عبد العزیز زید شرفہما سے ملاقات ہوئی، آپ دونوں حضرات نے بڑی ہی خوشی کا اظہار کیا، کھانے کے لیے اسرار کیا گیا مگر ہم نے معذرت کرلی، چائے نوشی اور لائبریری دیکھنے کے بعد شمس العلوم/ مدرسہ اسلامیہ کا پتہ پوچھ کر ہم لوگ وہاں سے روانہ ہو گیے، وہاں پہنچ کر باہر ہی سے مدرسے کا دیدار کرنے پر اکتفا کرنا پڑا، کیوں کہ اب یہ ادارہ اسلامیہ کالج میں تبدیل ہوگیا جس کی وجہ سے اس میں اتوار کو چھٹی رہتی ہے، کوشش کی گئی کہ اندر سے بھی دیکھ لیا جائے مگر ممکن نہ ہوسکا اور یوں اس قدیم درسگاہ کی اندرونی زیارت سے محروم رہے۔ تقریبا عشا کے قریب ہم لوگ واپس اورئینٹل طیبہ ہوٹل پہنچے، اور تیار ہوکر اسٹیج پر پہنچ گیے۔ قریب بارہ بجے رات تک ہم لوگ اسٹیج پر رہے، اس درمیان مختلف علماے کرام کے بیانات ہوئے، اب ہم لوگ کچھ تھکن سی محسوس کر رہے تھے، اس لیے حضرت علامہ مفتی کوثر حسن زید مجدہ کے بیان کے بعد، آپ سے ملاقات کی اور اسٹیج سے چلے آئے، ہوٹل کے لیے گاڑی پر بیٹھے ہی تھے کہ ذہن میں یہ بات آئی کہ سیدی تاج الاولیاء علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں حاضری دے لی جائے، حاضری اور دعا کے بعد ہم لوگ واپس ہوٹل پہنچ گیے، کچھ دیر بات چیت ہوئی اور اس کے بعد میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ اسی آخری رات کی مجلس میں حضرت مولانا مفتی مجتبی شریف زید مجدہ کو مجلس میں موجود تمام علما کے اتفاق سے مفتی اعظم مہاراشٹر کے عظیم لقب سے نوازا گیا۔
١/رجب المرجب مطابق ٢٣/ جنوری کی صبح فجر کے وقت نبیرہ رئیس القلم زید علمہ ائیر پورٹ تشریف لے گیے، حضرت مولانا شاہ نواز مصباحی زید علمہ کی ٹرین ایک بجے کے آس پاس تھی، ان کو رخصت کرنے کے بعد میں بھی تیار ہوا اور حضرت مولانا عمران برکاتی زید جہدہ کے ساتھ کھانا کھایا اور تھوڑی ہی دیر بعد میں ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوگیا۔ چار بجے شام کی فلائٹ تھی مگر موسم کی کچھ خرابی کی وجہ سے تھوڑا پہلے ہی نکلی اور میں تقریبا ساڑھے پانچ بجے کے قریب لکھنؤ پہنچ گیا، سب سے پہلے عصر کی نماز پڑھی، پھر تھوڑی دیر بعد ہی مغرب کی نماز ادا کیا، ائیر پورٹ سے باہر آیا، تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد ہمارے گاؤں کے اسلم اور اول صاحبان گاڑی لے کر پہنچ گیے۔
ارادہ کے مطابق استاد مکرم حضرت علامہ مولانا مفتی فیضان المصطفی مصباحی زید مجدہ سے بات ہوئی، لکھنؤ میں قائم کردہ آپ کے ادارہ جامعہ امام اعظم ابو حنیفہ کی زیارت اور آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی بڑی تمنا تھی۔ آج وہ پوری ہونے والی تھی۔ تقریبا چالیس پچاس منٹ کے بعد ہم لوگ حضرت کے قائم کردہ ادارہ پہنچ گیے، حضرت کی نوازش و کرم فرمائی کہ آپ ادارہ کے دروازہ پر منتظر تھے، لپک کر میں نے سلام کیا اور دست بوسی کی، خیر و خیریت کے بعد آپ نے خود چل کر اپنا ادارہ دکھایا۔ یقینا سال ڈیڑھ سال کے اندر بننے والی ادارہ کی تین منزلہ عمارت اپنی مثال آپ ہے، تمام تر سہولیات سے مزین ہونے کے ساتھ تخصص اور درس نظامی کی پڑھائی باضابطہ طور پر جاری ہے اور ان شاء اللہ جلد ہی تیسری منزل مکمل ہونے پر عید الفطر کے بعد تعلیم میں مزید باضابطگی لائی جائے گی اور شعبے جات بڑھائے جائیں گے۔ ادارہ قائم کرنا بہت بڑا کام ہے اور اس سے بڑا کام یہ ہے کہ قوم کے خون پسینے اور اپنی محنت سے جو ادارہ قائم ہوا، اس کا بہترین نتیجہ تعلیم و تربیت کی صورت میں سامنے آئے۔ اس ادارہ کو قائم کرنے والے کی ذات ہمہ جہت ہے، دنیا دیکھی ہے اور صالح علمی و فکری صلاحیت کا سنگم ہے، اس لیے امید قوی ہے کہ یہ ادارہ لکھنؤ کی سنیت میں مضبوطی لائے گا اور یہاں سے صالح علمی و فکری صلاحیت سے مزین ہوکر نکلنے والے علما ہر میدان میں دین و اسلام کی خدمت کرنے کے قابل ہوں گے اور یوں اس ادارہ کے بہترین نتائج پر اپنے اخلاق و کردار کے ذریعے آخری مہر ثبت کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ حضرت کی اس ذرہ ناچیز پر مہربانی کہ کئی بار کھانے سے منع کرنے باوجود آپ نے کھانا بنوایا، کھانے کے درمیان تعلیم و تربیت کے علاوہ دیگر موضوعات پر گفتگو ہوئی، پھر تھڑی دیر بعد ہی ہم حضرت سے دعا و اجازت لے کر اپنے گھر اوجھا گنج کے لیے روانہ ہو گیے، الحمد للہ خیر و عافیت کے ساتھ تقریبا ڈیڑھ بجے رات ہم مرکز تربیت افتا کے احاطے میں تھے، حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے مزار شریف کی زیارت ہوئی، سلام عرض کیا اور خراما خراما گھر کی طرف نکل گیا۔ اتنی سہولت کے باوجود بھی السفر کالصقر ہی ہے، تین دن گزر گیے مگر لگ رہا ہے کہ اب بھی سفر ہی میں ہوں۔
ناگ پور کے پروگرام کی خاص باتیں: تقریبا تین دن و رات مسلسل مجلس جمی رہی/ عموماً عوام و خواص کے عملی اقدامات پر بیانات ہوئے/ نظامت مختصر ہوئی/ نعت خوانی بھی بہت کم رہی/ تعلیم و تربیت سے متعلق خواص کی علمی و فکری میٹنگ منعقد کی گئی/ بہت سارے علما جن سے غائبانہ تعارف تھا، ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
اللہ تعالی تمام ادارے بالخصوص الجامعۃ الرضویۃ اور مدرسہ امام اعظم ابو حنیفہ اور علماے کرام کی حفاظت فرمائے، دن دونی رات چوگنی ترقیوں سے نوازے، آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھا گنج، بستی، یو پی۔
٤/رجب المرجب ٤٤ھ مطابق ٢٦/جنوری ٢٠٢٣ء