سالی سے زنا اور بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد سالی سے نکاح کا حکم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ:

(۱)زید اپنی سالی کو اپنے گھر پر تقریبا سال بھر سے رکھے ہوئے ہے، اس کے ساتھ زنا کیا، جب گاؤں والوں کو معلوم ہوا؛ تو گاؤں والوں نے اس کا سماجی بائیکاٹ کردیا، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

(۲) زید اقرار کرتا ہے کہ اس نے ایک مرتبہ اپنی بیوی سے کہا کہ میں تمہیں طلاق دے رہاں ہوں اور دو مرتبہ اپنی سالی سے کہا کہ جاؤ میری بیوی سے کہ دو میں اسے طلاق دیتا ہوں، اس صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں اور اگر ہوئی تو کتنی طلاق واقع ہوئی، زید اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے یا نہیں، نیز زید کی بیوی کا کہنا ہے کہ اس نے مجھے  گواہوں کے سامنے طلاق نہیں دیا؛ اس لیے طلاق واقع نہیں ہوگی، کیا اس کا یہ کہنا صحیح ہے؟

(۳) اگر صورت مذکورہ میں زید کی بیوی پر تین طلاق واقع ہوگئی اور زید کی بیوی دوسرے سے نکاح نہ کرنا چاہے؛ تو کیا زید توبہ کے بعد اپنی مذکورہ سالی سے نکاح کرسکتا ہے؟

المستفتی: محمد سلیم، مروٹیا بابو، بستی، یوپی۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         جواب (۱)زید اپنی سالی کے ساتھ زنا کرنے کی وجہ سے بہت بڑا گناہ کرنے والا ہوا؛ جس کی وجہ سے وہ سخت گنہ گار مستحق عذاب نار ہے، اگر اسلامی حکومت ہوتی؛ تو زید کو رجم کے ذریعہ قتل کی سزا دی جاتی اور اس کی سالی کو لوگوں کے سامنے سَو کوڑے لگائے جاتے۔

حدیث شریف میں ہے: عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ)) (صحیح مسلم، باب مایباح بہ دم المسلم، ج۳ص۱۳۰۲، رقم:۱۶۷۶، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (النور:۲۴، آیت:۲)

گاؤں والوں نے ایسے شخص کا سماجی بائکاٹ کرکے صحیح کیا ہے،  اس شخص پر لازم ہے کہ گاؤں کے سارے مرد اور بچوں کے سامنے اپنے اس گناہ عظیم سے توبہ کرے، اپنے کیے پر نادم ہو اور آئندہ اس طرح کی حرکت نہ کرنے کا عہد کرے، نیز تمام لوگوں کے سامنے تقریبا ایک گھنٹا قرآن پاک اپنے سرپر رکھ کر کھڑا رہے اور فوری طور پر اپنی سالی کے والد یا بھائی کو بلاکر، سالی کو اس کے حوالے کرے، جب وہ ان ساری باتوں پر عمل کرلے ؛ تو تقریبا چھ مہینے اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جائے، اگر وہ اپنی غلط کاری سے دور رہتا ہے؛ تو اسے اب سماج میں شامل کرلیا جائے اور زید کے لیے ضروری ہے  کہ اپنے گناہوں سے معافی کی قبولیت کے لیےپابندی کے ساتھ ہمیشہ پنج وقتہ نماز  کی پابندی کرے، اور اگر ممکن ہو تو غریب، مساجد اور مدارس کا تعاون کرے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ﴾ (ھود:۱۱، آیت:۱۱۴)

(۲) مذکورہ صورت میں زید کی بیوی پر تین طلاق واقع ہوگئی، اب زید اور اس کی بیوی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اگر دونوں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں؛ تو زید کی مطلقہ، عدت گزارنے کے بعد کسی غیر محرم سے نکاح کرے، اور دونوں کے درمیان جماع بھی ہو، اب اگر یہ غیر محرم طلاق دیدے؛ تو عدت گزارنے کے بعد زید اپنی مطلقہ سے نکاح کرسکتا ہے۔

قرآن پاک میں ہے: ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ﴾ (البقرۃ:۲، آیت:۲۳۰)

حدیث شریف میں ہے: عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رِفَاعَةَ القُرَظِيَّ تَزَوَّجَ امْرَأَةً ثُمَّ طَلَّقَهَا، فَتَزَوَّجَتْ آخَرَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ لَهُ أَنَّهُ لاَ يَأْتِيهَا، وَأَنَّهُ لَيْسَ مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةٍ، فَقَالَ: ((لاَ، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ)) (صحیح البخاری، باب إذا طلقھا ثلاثا ثم تزوجت بعد العدۃ زوجا غیرہ، فلم یمسھا، ج۷ص۵۶، رقم: ۵۳۱۷، ط: دار طوق النجاۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:’’وَإِنْ كَانَ الطَّلَاقُ ثَلَاثًا فِي الْحُرَّةِ وَثِنْتَيْنِ فِي الْأَمَةِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ نِكَاحًا صَحِيحًا وَيَدْخُلَ بِهَا ثُمَّ يُطَلِّقَهَا أَوْ يَمُوتَ عَنْهَا كَذَا فِي الْهِدَايَةِ وَلَا فَرْقَ فِي ذَلِكَ بَيْنَ كَوْنِ الْمُطَلَّقَةِ مَدْخُولًا بِهَا أَوْ غَيْرَ مَدْخُولٍ بِهَا كَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ وَيُشْتَرَطُ أَنْ يَكُونَ الْإِيلَاجُ مُوجِبًا لِلْغُسْلِ وَهُوَ الْتِقَاءُ الْخِتَانَيْنِ هَكَذَا فِي الْعَيْنِيِّ شَرْحِ الْكَنْز‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، فصل فیما تحل بہ المطلقۃ و ما یتصل بہ، ج۱ص۴۷۳، ط: دار الفکر، بیروت)

زید کی بیوی کا یہ کہنا:’’ اس نے مجھے گواہوں کے سامنے طلاق نہیں دیا؛ اس لیے طلاق واقع نہیں ہوگی‘‘۔  غلط و بے بنیاد ہے، کیوں شوہر تنہا یا کسی کے بھی سامنے، کسی جگہ پر طلاق دیدے؛ تو طلاق واقع ہوجاتی ہے، البتہ اگر وہ انکار کرے؛ تو اس وقت دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، مگر یہاں تو وہ انکار نہیں بلکہ اقرار کر رہا  ہے کہ میں نے ایک بار اپنی بیوی  اور دو بار اپنی سالی کے سامنے یکے بعد دیگرے تین طلاق دی ہے؛ لہذا اس کی بیوی پر تین طلاق واقع ہوجائے گی۔

اعلی حضرت مجدد دین و ملت ارشاد فرماتے ہیں: ’’بیان سوال سے ظاہر یہ ہے کہ شوہر اول طلاق دینے کا مقر ہے مگر عذر صرف یہ کرتا ہے کہ طلاق خفیہ دی، چار اشخاص کے سامنے نہ دی؛ لہذا اپنی جہالت سے طلاق نہ ہونا سمجھتا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کا دعوی باطل ہے، طلاق بالکل تنہائی میں دے جب بھی ہوجاتی ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، کتاب الطلاق، ج۱۰ص۴۸، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)

(۳) اب جب کہ زید کی بیوی پر تین طلاق واقع ہوگئی؛ تو مطلقہ کی عدت گزرنے کے بعد زید اپنی سالی سے نکاح کرسکتا ہے، مگر اس صورت میں زید پر لازم ہے کہ اپنی مطلقہ سے بالکل دور رہے اور کبھی ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی نہ ہونے پائے ورنہ سخت گنہ گار، مستحق عذاب نار ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: ’’وَإِنْ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ إحْدَاهُمَا بَعْدَ التَّفْرِيقِ؛ فَلَهُ ذَلِكَ إنْ كَانَ التَّفْرِيقُ قَبْلَ الدُّخُولِ وَإِنْ كَانَ بَعْدَ الدُّخُولِ؛ فَلَيْسَ لَهُ ذَلِكَ حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهُمَا، وَإِنْ انْقَضَتْ عِدَّةُ إحْدَاهُمَا دُونَ الْأُخْرَى فَلَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْمُعْتَدَّةَ دُونَ الْأُخْرَى مَا لَمْ تَنْقَضِ عِدَّتُهَا، وَإِنْ دَخَلَ بِإِحْدَاهُمَا فَلَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا دُونَ الْأُخْرَى مَا لَمْ تَنْقَضِ عِدَّتُهَا، وَإِنْ انْقَضَتْ عِدَّتُهَا؛ جَازَ لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِأَيَّتِهِمَا شَاءَ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، الباب الثالث فی بیان المحرمات، القسم الرابع المحرمات بالجمع، ج۱ص۲۷۸، ط: دار الفکر، بیروت)

حدیث شریف میں ہے: ((وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا يَخْلُوَنَّ بِامْرَأَةٍ لَيْسَ مَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا، فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ)) (مسند أحمد، ج۲۳ص۱۹، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۶؍ شوال المکرم ۱۴۴۱ھ مطابق ۲۹؍مئی ۲۰۲۰ء

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.