دیہات میں نماز جمعہ کا حکم

سوالکیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ گووند نگر، ضلع مدنا پور، کلکتہ، ایک بڑا مسلم آبادی والا گاؤں ہے، یہ گاؤں پانسکوڑہ ریلوے اسٹیشن سے دس کلو میٹر اور ضلع مدنا پور سے پینتیس کلو میٹر دوری پر واقعے ہے، اس گاؤں میں دو ٹولہ ہے، ایک ٹولہ جس میں جامعہ مسجد ہے، مسلمانوں کے ساڑھے تین سو گھر آباد ہیں، جس میں عاقل بالغ مکلفین ساڑھے چارسو مردوں پر مشتمل ہوں گے، ووٹر لسٹ میں ووٹرس کی تعداد ساڑھے آٹھ سو ہے، جس میں چار سو عورتیں ہیں، جب کہ گووند نگر کے دوسرے ٹولہ میں مسلمانوں کا دو سو گھر ہے، جس میں ووٹر س چھ سو ہیں، اور مکلفین مردوں کی تعداد تین سو ہے، یہاں بھی ایک چھوٹی مسجد ہے، گووند پور میں اس وقت پوسٹ آفس، بینک، اسکول، مدرسہ، عیدگاہ اور ایک بڑا قبرستان ہے، یہاں ایک بازار بھی ہے جس میں ضروریات زندگی کے متعلق تمام سامان دستیاب ہیں، غرضیکہ یہ گاؤں اب قصبہ کا روپ اختیار کرچکا ہے، گووند نگر میں باپ دادا کے زمانے سے نماز جمعہ باجماعت مع اذان و اقامت ہوتی چلی آرہی ہے، لیکن پندرہ سال ہوئے کہ ایک امام صاحب نے جمعہ کی نماز کے بعد ظہر کی نماز باجماعت شروع کردی ہے، اس علاقہ میں باہر کے علما و مشایخ اور مفتیان کرام کا ورود مسعود گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے، بعض علما و مشایخ نماز جمعہ کے بعد ظہر باجماعت میں شریک ہوجاتے ہیں، جب کہ کچھ حضرات صرف جمعہ پڑھتے ہیں، ظہر ادا نہیں کرتے، حضرات علما و مشایخ کے اختلاف عمل کی وجہ سے ہم مسلمانان گووند نگر سخت اضطراب میں مبتلا ہیں کہ ایسے میں ہم عوام مسلمین کس طور پر عمل کریں، اس لیے آپ کی بارگاہ میں چند سوالات پیش ہیں، امید ہے کہ جواب عنایت فرماکر ہماری رہنمائی فرمائیں گے:

(۱)کیا ہم مسلمانان گووند نگر پر روز جمعہ، ظہر باجماعت فرض ہے یا صرف جمعہ فرض ہے یا جمعہ و ظہر دونوں باجماعت فرض ہے؟

(۲) اگر دونوں فرض ہوں؛ تو ان کے ادا کرنے کی کیا صورت ہوگی، کیا جمعہ و ظہر دونوں کے لیے اذان و اقامت الگ الگ کہنا ہوگی یا ایک ہی اذان و اقامت دونوں کے لیے کافی ہوگی، اسی طرح جمعہ و ظہر دونوں کی الگ الگ سنتیں بھی پڑھنی ہوں گی ای ایک ہی سنت دونوں کے لیے کافی ہوگی، یہ بھی وضاحت فرمادیں کہ پہلے جمعہ پڑھیں یا ظہر، نیز دونوں کے امام بھی ایک ہی ہوں گے یا الگ الگ ہوں گے؟

(۳) جمعہ و ظہر دونوں پڑھنے کی صورت میں دوسری نماز کی شرعی حیثیت کیا ہوگی، جو دونوں میں سے صرف ایک پڑھے، دوسری نہ پڑھے، اس کے لیے کیا حکم ہوگا، ہم لوگ بنگال کے باشندے ہیں؛ لہذا نہایت ہی آسان انداز میں واضح حم شرع بیان فرمائیں بڑا کرم ہوگا۔

المستفتی: (مولانا) قاضی عارفین۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب(۱)گووند نگر والوں پر جمعہ فرض نہیں، اگر پڑھیں گے، گنہ گار ہوں گےاور ظہر ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا؛ کیوں کہ جمعہ فرض ہونے کے لیے شہر ہونا شرط ہے اور گووند نگر شہر نہیں بلکہ دیہات ہے؛ اس لیے یہاں کے رہنے والوں پر جمعہ فرض نہیں بلکہ ظہر پڑھنا فرض ہے۔

حدیث پاک میں ہے: (()) ()

الدر المختار میں ہے: ’’‘‘۔

اسی کے تحت رد المحتار میں ہے:’’‘‘۔ ()

شہر کی تعریف یہ ہے: ’’وہ آبادی جس میں متعدد کوچے ہوں، دوامی بازار ہوں، نہ وہ جسے پیٹھ کہتے ہیں، اور پرگنہ ہے کہ اس کے متعلق دہات گنے جاتے ہوں اور اس میں کوئی حاکم مقدمات رعایا فیصل کرنے پر مقرر ہو، جس کی حشمت و شوکت اس قابل ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے‘‘۔ (فتاوی رضویہ جدید، امام احمد رضا، ج۶ص۱۹۸، کتاب الصلاۃ، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)

جس جگہ یہ تعریف صادق آئے گی، وہی شہر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تعریف گووند نگر پر صادق نہیں آتی؛ اس لیے وہ شہر نہیں؛ لہذا وہاں پر جمعہ بھی جائز نہیں بلکہ ظہر پڑھنا فرض ہے، اگر نہیں پرھیں گے، گنہ گار ہوں گے۔

لیکن چوں کہ گووند نگر کے رہنے والے ایک زمانہ سے جمعہ پڑھتے آرہے ہیں؛ اس لیے انہیں پڑھنے سے روکا نہیں جائے گا۔

اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’اور اگر اس کے سبب ظہر ترک کریں گے؛ تو تارک فرض ہوں گے اور ظہر احتیاطی تنہا پڑھی تو تارک واجب ہوں گے، بہر حال متعدد گناہ ان پر لازم ہیں، بایں ہمہ جہاں لوگ پڑھتے ہوں، انہیں نہ روکا جائے‘‘۔ (فتاوی رضویہ جدید، ج۶ص۳۳۳، کتاب الصلاۃ)

البتہ اگر گووند نگر میں عاقل، بالغ و مکلف اتنے ہوں کہ اگر سب جامع مسجد میں آجائیں؛ تو وہ جامع مسجد ان کے لیے کافی نہ ہو، اس صورت میں احناف کے نزدیک ایک روایت کے مطابق ایسے گاؤں میں جمعہ جائز و درست ہے۔

الدر المختار میں ہے: ’’‘‘۔ ()

اعلی حضرت علیہ الرحمۃ اسی روایت کے پیش نظر فرماتے ہیں: ’’مگر دربارہ عوام فقیر کا طریق عمل یہ ہے کہ ابتداء خود انہیں منع نہیں کرتا، نہ انہیں نماز سے باز رکھنے کی کوشش پسند کرتا ہے، ایک روایت پر صحت ان کے لیے بس ہے، وہ جس طرح خدا اور رسول کا نام پاک لیں، غنیمت ہے، مشاہدہ ہے کہ اس سے روکیے تو وہ وقتی چھوڑ بیٹھتے ہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ جدید، کتاب الصلاۃ، ج۶ص۲۷۱)

(۲) پہلے سوال کے جواب سے واضح ہوگیا کہ گووند نگر والوں پر جمعہ فرض نہیں بلکہ صرف ظہر فرض ہے؛ اس لیے یہاں کے لوگ صرف ظہر کی سنتیں پڑھیں گےلیکن چوں کہ گووند نگر کے لوگ جمعہ کی باجماعت نماز کے ساتھ ظہر کی نماز بھی باجماعت پڑھتے ہیں؛ اس لیے اذان تو وہی کافی ہے جو جمعہ کے لیے ہوتی ہے، البتہ اقامت دونوں نمازوں کے لیے الگ الگ کہیں گے، پہلے جمعہ پھر ظہر کی نماز پڑھیں گے اور دونوں نمازوں کے لیے الگ الگ امام ہوں تو بہتر ہے ورنہ ایک ہی امام دونوں نمازیں پڑھاسکتا ہے۔

(۳) جمعہ و ظہر دونوں نماز پڑھنے کی صورت میں جمعہ سنت ہوگی اور ظہر بصورت فرض ادا ہوگی؛ لہذا جس نے فرض نماز پڑھی، اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہوگیا اور جس نے صرف جمعہ کی نماز ادا کی، اس کے ذمہ سے فرض ساقط نہ ہوا، اس پر لازم ہے کہ فرض نماز ادا کرے ورنہ گنہ گار ہوگا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اگر گووند نگر کے رہنے والے اتنے عاقل، بالغ و مکلف لوگ ہوں کہ وہ نماز پڑھنے آجائیں؛ تو جامع مسجد میں سما نہ سکیں، اس صورت میں عوام جمعہ نماز پڑھے، یہی ان کے لیے کافی ہے اور خواص ظہر نماز پڑھیں اور اگر یہ اتنے لوگ ہوں کہ ان کے لیے جامع مسجد کافی ہے؛ تو اس صورت میں عوام کو جمعہ پڑھنے سے نہ روکا جائے، البتہ اگر وہ حکم شرعی پوچھیں؛ تو بتادیا جائے کہ دیہات میں جمعہ صحیح نہیں؛ اس لیے ظہر کی نماز ضرور پڑھیں ورنہ گنہ گار ہوں گے اور اس صورت میں اگر چاہیں؛ تو حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے فتوی کے مطابق ظہر نماز باجماعت قائم کرسکتے ہیں مگر عوام کے سامنے یہ وضاحت کرنے کے ساتھ کہ گووند نگر میں جمعہ صحیح نہیں؛ اس لیے یہاں جعمہ کے بعد ظہر کی نماز باجماعت پڑھی جائے گی؛ تاکہ عوام جمعہ و ظہر دونوں کو فرض سمجھنے سے محفوظ رہے۔ واللہ تعالی أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۳؍محرم الحرام ۴۱ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.