دیہات میں بروز جمعہ نماز ظہر باجماعت کا حکم
سوال: ایک دیہات میں جمعہ کی باجماعت نماز کے ساتھ ظہر کی بھی باجماعت نماز پڑھی جاتی ہے، زید کہتا ہے کہ یہاں پر ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا جائز نہیں؛ کیوں کہ جمعہ کے دن صرف جمعہ کی نماز باجماعت پڑھی جاتی ہے، ظہر کی نہیں، کیا زید کا یہ کہنا صحیح ہے؟ بینوا توجروا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب دیہات کے بارے میں زید کا یہ کہنا صحیح نہیں؛ کیوں کہ دیہات میں جمعہ فرض نہیں، حدیث شریف میں ہے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا جمعة و لاتشریق إلا في مصر جامع))
ترجمہ: ((جمعہ اور تشریق صرف شہر میں ہے)) (مصنف عبدر الرزاق، ج۳ص۱۶۷، رقم:۵۱۷۵)
دوسری حدیث میں ہے:حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے: ((لیس علی أھل القری جمعة، إنما الجمعة علی أھل الأمصار))
ترجمہ: ((گاؤں والوں پر جمعہ فرض نہیں، جمعہ تو صرف شہر والوں پر فرض ہے)) (نصب الریۃ و یلیہ منیۃ الالمعی فیما فات الزیلعی؍قاسم بن قطلوبغا مصری، ج۵ص۶۴)
جب حدیث سے ثابت ہوگیا کہ دیہات میں جمعہ فرض نہیں؛ تو اب جمعہ کا دن دیہات کے لیے عام دنوں کی طرح ہوگیا، یعنی وہاں جمعہ نہ قائم کیا جائے بلکہ ظہر کی نماز عام دنوں کی طرح باجماعت پڑھی جائے، حدیث شریف میں ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((من سمع المنادي فلم یمنعه من اتباعه عذر)) قالوا: و ما العذر، قال: ((خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلوۃ التي صلی))
ترجمہ:((جس نے اذان سنی اور آنے سے کوئی عذرمانع نہیں (اور نہیں آیا) تو اس کی وہ نماز مقبول نہیں)) لوگوں نے عرض کیا: عذر کیا ہے؟ فرمایا: ((خوف یا مرض)) (سنن ابی داؤد: ج۱ ص ۱۵۱، باب فی التشدید فی ترک الجماعۃ، رقم: ۵۵۱)
مگر چونکہ جس دیہات میں جمعہ قائم کیا جا چکا ہے وہاں کے لوگوں کو جمعہ سے روکنے میں فتنے کا قوی اندیشہ ہے؛ اس لیے لوگوں کو فتنہ و آزمائش میں پڑنے سے بچانے کے لیے وہاں پر جمعہ کے ساتھ ظہر کی نماز بھی باجماعت پڑھی جاتی ہے؛ کیوں کہ لوگوں کو فتنے سے حتی الامکان بچانا مطلوب شرعی ہے، حدیث شریف میں ہے:
عن جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنھما، قال: کان معاذ بن جبل یصلي مع النبي صلی اللہ علیه وآله وسلم، ثم یرجع، فیؤم قومه، فصلی العشاء، فقرأ بالبقرۃ فانصرف الرجل، فکأن معاذا تناول منه، فبلغ النبي صلی اللہ علیه و آله وسلم فقال: ((فتان، فتان، فتان)) ثلاث مرات، أو قال: ((فاتنا، فاتنا، فاتنا)) و أمرہ بسورتین من أوسط المفصل۔
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ پڑھتے ، پھر لوٹ کر اپنی قوم کی امامت کرتے تھے، ایک مرتبہ عشا کی نماز پڑھائی اور سورئہ بقرہ کی تلاوت کی، ایک شخص نے نماز توڑدی اور تنہا پڑھی، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ان کا برائی سے ذکر کیا، یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچی؛ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ((اے معاذ! تم لوگوں کو بہت زیادہ آزمائش میں ڈالنے والے ہو، تم بہت زیادہ آزمائش میں ڈالنے والے ہو، تم بہت زیادہ آزمائش میں ڈالنے والے ہو)) یا فرمایا: ((اے معاذ تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالنے والے ہو، تم آزمائش میں ڈالنے والے ہو، آزمائش میں ڈالنے والے ہو)) اور انہیں اوساط مفصل سے دو سورت پڑھنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاری،کتاب الاذان، باب اذا طول الامام، و کان للرجل حاجۃ، فخرج فصلی، ج۱ص۱۴۱، رقم: ۷۰۱)
اس طرح سے ایسے دیہات کے لوگ جہاں نماز جمعہ فرض نہیں، نماز جمعہ اور نماز ظہر باجماعت پڑھی جاتی ہے، وہاں کے لوگ فتنہ اور آزمائش سے بچنے کے ساتھ ساتھ ظہر کی نماز باجماعت پڑھ کر اور نماز نہ چھوڑکر گناہ سے بھی بچ جاتے ہیں؛ لہذا زید پر لازم ہے کہ لوگوں کو ظہر کی نماز باجماعت سے روک کر یا نماز چھوڑنے کا سبب بن کر گنہ گار نہ ہو اور نہ ہی لوگوں کو گناہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{و تعاونوا علی البر و التقوی و لا تعاونوا علی الاثم و العدوان} ترجمہ: ((اور نیکی و پرہیز گاری پر لوگوں کی مدد کرو اور گناہ و زیادتی پر لوگوں کی مدد نہ کرو)) (المائدۃ:۵، آیت:۲) و اللہ أعلم۔
كتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
Lorem Ipsum