دور حاضر میں اجتماعی و انفرادی کام اور رئیس التحریر!

دور حاضر میں اجتماعی و انفرادی کام
اور رئیس التحریر!

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

انفرادی و اجتماعی کام، ہر ایک کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، مگر یہ بات بھی مسلمات سے ہے کہ اجتماعی کام، سماج پر جو اثر ڈالتا ہے، وہ اثر انفرادی کام سے نظر نہیں آتا؛ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ اجتماعی طور پر کام بہت بڑے پیمانے پر کیا جاسکتا ہے جب کہ انفرادی کام کا دائرہ کار کافی محدود ہوتا ہے۔ اس کو آپ موجودہ تجارت کے طریقہ کار سے سمجھ سکتے ہیں، اگر ایک شخص تنہا تجارت کرتا ہے؛ تو اس کا دائرہ کار کافی حد تک محدود ہوتا ہے لیکن جب اسی تجارت کو متعدد افراد مل کر اجتماعی طور پر کرتے ہیں؛ تو اس کا دائرہ کار کافی وسیع و پھیلا ہوا نظر آتا ہے اور اپنا اثر بھی سماج پر کافی دور تک ڈالتا ہے، بالکل اسی طرح دینی کام کا معاملہ ہے، یہ اگر انفرادی طور پر کیا جاتا ہے؛ تو اس کی وسعت کافی کم ہوتی ہے لیکن جب یہی کام اجتماعی رخ اختیار کر لیتا ہے؛ تو اس کی وسعت میں کافی کشادگی ہوتی ہے۔ اہل سنت و جماعت میں انفرادی کام کی کمی نہیں مگر ان میں اجتماعی کام عام طور سے مفقود نظر آتا ہے،اس کا احساس اس وقت اور زیادہ ہوا، جب اللہ تعالی کی توفیق اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرم سے تعلیم و تعلم کے لیے جامعہ ازہر شریف، مصر جانا ہوا، عموما ہر طرف کتابی شکل میں بدمذہبوں کے کام نظر آئے اور اس کے مقابل اہل سنت و جماعت کے کام نہ کے برابر دکھائی دئے؛ جس کی وجہ سے علماے ازہر کی نظر میں بھارت کے بدمذہب، اہل سنت قرار پائے اور اہل سنت و جماعت ، بدمذہب کی فہرست میں داخل کردئے گئے اور یوں بھارت کے اہل سنت و جماعت کی شبیہ کافی خراب حالت میں پائی گئی، لیکن جب جامعہ ازہر شریف میں بھارت کے پڑھنے والے علما نے انفرادی و اجتماعی کوشش کی، قربانیاں دیں اور بہت کچھ برداشت کیا؛ تو اب کافی حد تک اہل سنت و جماعت سے بدمذہبیت کا دھبہ ماند پڑا مگر ابھی بھی خلش باقی ہے، اللہ کرے وہ بھی دور ہوجائے۔

اہل سنت و جماعت کی جانب سے عموما اکثر میدان میں اجتماعی کام نہ ہونے کا احساس لیے ہوئے، جب میں ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء میں بھارت آیا اور ان میں سے کسی ایک سفر میں علماے کرام کی آماج گاہ، مارہرہ شریف حاضری ہوئی، اسی موقع پر رئیس التحریر علامہ یس اختر مصباحی علیہ الرحمۃ اور دیگر متعدد علماے کرام سے ملاقات کا شرف حال ہوا، احساس گہرا تھا، متعدد جلیل القدر علماے کرام کو دیکھ کر خیال آیاکہ ان سے اجتماعی کام سے متعلق کچھ معلومات حاصل کی جائیں، میری نظر وقت کی جہاں دیدہ شخصیت حضرت رئیس التحریر علیہ الرحمۃ پر جاکر ٹکی، سلام و دعا کے بعد، میں نے عرض کیا کہ حضرت اہل سنت و جماعت میں انفرادی کام تو پایا جاتا ہے مگر اجتماعی کام، بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہے، حضرت آپ ارشاد فرمائیں کہ اہل سنت و جماعت میں اجتماعی کام کرنے کی کیا صورت ہوگی؟ کیوں کہ اجتماعی کام کی سخت ضرورت ہے، اس کے بغیر ہمیں اپنا وجود منوانا بڑا مشکل پڑ رہا ہے۔ حضرت رئیس التحریر علیہ الرحمۃ کے ماہر، جہاں دیدہ اور تجربہ کار ہونے میں شاید ہی کسی عاقل کو کلام ہو، آپ نے اپنے سالوں تجربات کی روشنی میں بہت ہی اہم اور تاریخی بات فرمائی:

’’یقینا اہل سنت و جماعت کے درمیان اجتماعی کام کی سخت ضرورت ہے، اس کے لیے اہل سنت کے ہر فرد کو کوشش کرنی چاہیے، مگر آپ اور دیگر تمام اہل سنت و جماعت کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ اجتماعی کام کی کوشش میں اپنے انفرادی کام کو نہ روکیں؛ کیوں کہ اجتماعی کام کا تعلق متعدد افراد اور مختلف مزاج کے لوگوں سے ہوتا ہے، حالات یہی بتاتے ہیں کہ اس میں کامیابی مل تو سکتی ہے مگر امکان کم ہے، البتہ آپ کا جو انفرادی کام ہے، اس میں کامیابی کا زیادہ امکان ہے؛ لہذا اجتماعی کام کی کوشش میں اپنی انفرادی صلاحیت کو اور اپنے انفرادی کام کو ضائع کرنا عقل مندی نہیں؛ اس لیے کہ اجتماعی کام کی کوشش میں اگر آپ ناکام ہوئے اور آپ نے اپنے انفرادی کام پر بھی توجہ نہیں دی اور اس کے لیے وقت نہیں نکالا؛ تو آپ ہر دو طرف سے نقصان اٹھانے والے ہوں گے، لیکن اگر آپ نے اجتماعی کام کے ساتھ اپنے انفرادی کام پر بھی توجہ دی اور اس کے لیے کچھ قیمتی وقت نکالا؛ تو اگر اجتماعی کام میں آپ کامیاب نہ بھی ہوئے؛ تو کم سے کم آپ کا انفرادی کام موجود رہے گا، جس سے امت مسلمہ فائدہ حاصل کرنے کے قابل رہے گی‘‘۔ (مفہوما)

یقینا حضرت رئیس التحریر علیہ الرحمۃ کی زبان فیض ترجمان سے نکلنے والے یہ قیمتی جملے، آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں، آپ کے یہ جملے جہاں اہل سنت و جماعت کے لوگوں کو اس بات کی دعوت دے رہے ہیں کہ انھیں اجتماعی کام کی طرف عملی اقدام کرنے کی سخت ضرورت ہے، وہیں اس جانب بھی بڑی خوش اسلوبی سے توجہ دلا رہے ہیں کہ اجتماعی کام کے ساتھ، اپنے انفرادی کام کے لیے بھی وقت نکالیں تاکہ دو طرفہ فائدہ حاصل کریں اور دو طرفہ نہ سہی تو کم از کم یک طرفہ فائدہ ضرور حاصل ہو جائے اور دو طرفہ نقصان سے بچا جاسکے۔

حضرت رئیس التحریر علیہ الرحمۃ کی یہ انمول باتیں اور نصیحت سے پر جملے ، میرے دل میں ایسے بیٹھے کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اور شاید کبھی نہیں نکلیں گے۔ اگرچہ جامعہ ازہر شریف، مصر سے ۲۰۱۴ء میں آنے کے بعد، بعض کاموں سے متعلق میں اس نصیحت پر عمل نہیں کرسکا اور ان سے متعلق انفرادی کام کو چھوڑکر، صرف اجتماعی کوشش کرتا رہا اور اسی کو فروغ دینا چاہا، مگر بعض حالات اور تجربات کے پیش نظر، میں نے حضرت رئیس التحریر علیہ الرحمۃ کی اسی نصیحت کو سامنے رکھتے ہوئے، ان بعض کاموں میں بھی اجتماعی کوشش کے ساتھ، انفرادی کوشش شروع کردی اور ان شاء اللہ پوری زندگی اسی نصیحت کی روشنی میں کام کرتا رہوں گا۔ آپ کی یہ اہم نصیحت، ہم جیسے نہ جانے کتنے طفل مکتب کے لیے رہنما ثابت ہوئی اور ان شاء اللہ آئندہ بھی امت مسلمہ کے لیے رہنما ثابت ہوگی۔

اللہ تعالی، رئیس التحریر علیہ الرحمۃ کی خدمات جلیلہ اور آپ کی جانب سے اہل سنت و جماعت کے لیے پیش کی گئیں قربانیاں، قبول کرے، اہل سنت و جماعت میں آپ جیسے مخلص و بے باک علما و مفکرین کی کثرت فرمائے، ہم جیسے ناکاروں کو آپ کے نقوش قدم پر چل کر، اخلاص کے ساتھ، دین و سنیت کی خدمات کی توفیق سے نوازے، رب تعالی آپ کی مرقد پر رحمت و انوار کی بارش فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی۔
مقیم حال، عزیزیہ ، بلڈنگ نمبر ۳۵۷، فلیٹ نمبر ۷۰۵، کمرہ نمبر ۶۱۰، مکہ مکرمہ۔
۲۴؍ذو القعدۃ ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۴؍جون ۲۰۲۳ء

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.