دادا کے نام مکان تھا مرنے کے بعد اس وارث کون
بسم اللہ الرحمن الرحیم
استفتا
مکان زید کے مرحوم دادا کے نام پر ہے، دادا کے انتقال کے بعد کسی شخص نے اس مکان پر مقدمہ دائر کردیا کہ یہ ملکیت زید کے دادا کی نہیں ہے اور زید کے والد یہ مقدمہ اٹھارہ سال تک لڑتے رہے اور اس پر روپیہ خود اپنا خرچ کیا، اخیر میں زید کے والد یہ مقدمہ جیت گئے اور اب زید کے والد کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔
اس صورت میں یہ مکان زید کے دادا کی ملکیت ہوگی یا زید کے والد کی، اگر زید کے دادا کی ملکیت ہوگی تو اس ملکیت کو زید کے دادا کے ایک فرزند اور چار بیٹیاں ہیں، کس طرح تقسیم ہوگی؟
اگر زید کے والد کی پوری ملکیت ہے تو یہ ملکیت چار فرزند اور تین بیٹیوں میں کس طرح تقسیم ہوگی؟
مستفتی: عبد الرزاق، پھسل بنڈہ، حیدر آباد۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب مکان زید کے دادا مرحوم کی ہی ملکیت مانی جائے گی، ان کے انتقال کے بعد ان کا ایک فرزند اور ان کی چار بیٹیاں اس مکان کے وارث ہوں گے، اب تقسیم کی صورت یہ ہوگی کہ مکان کے چھ حصے کیے جائیں، ان میں سے دو حصہ فرزند کو ملے گا اور ایک ایک حصہ چاروں بیٹیوں کو دیا جائے گا۔
قرآن پاک میں ہے: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ (النساء:۴، آیت:۱۱)
البتہ زید کے والد نے مقدمہ لڑنے میں جو خرچ کیا ہے، اس خرچ کا دو تہائی مرحوم کی چاروں بیٹیوں سے مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔
رد المحتار میں ہے: ’’إنْ اُضْطُرَّ وَكَانَ شَرِيكُهُ لَا يُجْبَرُ، فَإِنْ أَنْفَقَ بِإِذْنِهِ أَوْ بِأَمْرِ الْقَاضِي رَجَعَ بِمَا أَنْفَقَ أَوْ لَا فَبِالْقِيمَةِ‘‘۔ (کتاب الشرکۃ، مطلب فی الحائط إذا خرب و طلب أحد الشریکین قسمتہ أو تعمیرہ، ج۴ص۳۳۴، ط:دار الفکر، بیروت) و اللہ أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی ، یوپی، انڈیا
۸؍شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ
Lorem Ipsum