خلع وغیرہ کا حکم
حضرۃ العلام السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ:
زید بریلی شریف کا رہنے والا ہے، چند سالوں سے بغرض تجارت شہر منگلور میں رہتا ہے، ڈیڑھ سال قبل بنگلور کی رہنے والی ایک لڑکی سے شادی کرلیا، یہ شادی لڑکی کے گھر پر ہوئی اور لڑکے نے اپنی طرف سے شادی کے بہت سے اخراجات جیسے زیور، پڑوسیوں کی دعوت و ہال کرایہ وغیرہ کا انتظام کیا۔
زید منگلور سے وقتا فوقتا لڑکی کے گھر آتا جاتا ہے لیکن جب بھی رخصتی کراکر منگلور لے جانے کی بات کیا؛ تو لڑکی اور اس کے گھر والوں نے سختی سے انکار کیا، حالاں کہ اس درمیان زید برابر حسب استطاعت ماہانہ بطور ذاتی و گھریلو خرچ کے دیتا رہا۔ ایک دن زید نے یہاں لڑکی کے رہنے پر کچھ عیوب و نقائص سمجھ میں آنے کے بعد رخصتی کی بات پر زور دیا؛ تو لڑکی نے یہاں تک کہ دیا کہ اس گھر کا داماد بن کے رہنا ہے؛ تو بہو کی طرح دب کر رہواور رخصتی کی بات مت کرنا ورنہ میں خلع لوں گی۔ اور پھر لڑکی کا روز بروز خلع پر اصرار بڑھتا گیا۔ زید کے لیے یہ بات مشکل ہورہی تھی کہ وہ شادی سے لے کر اب تک بڑا خرچ کر چکا ہے تھا مگر چند دنوں سے اس نے بھی اس میں عافیت سمجھ لی ہے۔
ایسی صورت میں حق مہر، زیورات و شادی کے وقت کے اخراجات کے بارے میں صحیح رہنمائی فرمائی جائے، بینوا توجروا۔
المستفتی: خاکسار نوشاد عالم
مقام و پوسٹ بسنت پور، بلیا، یوپی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب اگر زید نے اپنی زوجہ کو زیورات بطور تملیک دیا ہے؛ تو اب اس کے لیے ان زیورات کا واپس لینا جائز نہیں لیکن اگر بطور تملیک نہیں دیا ہے؛ تو زید جب چاہے، دئے گئے زیورات واپس لے سکتا ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’وَإِذَا بَعَثَ الزَّوْجُ إلَى أَهْلِ زَوْجَتِهِ أَشْيَاءَ عِنْدَ زِفَافِهَا مِنْهَا دِيبَاجٌ فَلَمَّا زُفَّتْ إلَيْهِ أَرَادَ أَنْ يَسْتَرِدَّ مِنْ الْمَرْأَةِ الدِّيبَاجَ لَيْسَ لَهُ ذَلِكَ إذَا بَعَثَ إلَيْهَا عَلَى جِهَةِ التَّمْلِيكِ، كَذَا فِي الْفُصُولِ الْعِمَادِيَّةِ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب النکاح، الباب السابع فی المھر، الفصل السادس عشر، ج۱ص۳۲۷، ط: دار الفکر، بیروت)
اور زید نے شادی کے وقت جو اخراجات کیے، وہ تبرع میں شمار ہوں گے، اسے نیک نیتی پر ان کا ثواب ملے گا مگر اب وہ ان اخراجات کو واپس نہیں لے سکتا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’وَإِنْ زُكِّيَتْ الْبَيِّنَةُ فَإِنْ أَنْفَقَ الْمَوْلَى عَلَيْهَا عَلَى وَجْهِ التَّبَرُّعِ أَوْ أَكَلَتْ فِي بَيْتِ الْمَوْلَى فَلَا رُجُوعَ عَلَيْهَا كَمَا فِي سَائِرِ التَّبَرُّعَاتِ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب أدب القاضی، الباب الثانی و العشرون ما یضعہ القاضی علی یدی عدل و ما لایضعہ، ج۳ص۳۷۸)
مہر زید کی زوجہ کا حق ہے؛ لہذا اگر زید نے اپنی زوجہ کو مہر دے دیا ہے؛ تو اب وہ اس کی ملکیت ہے، وہ اس میں جیسے چاہے تصرف کرے اور اگر ابھی نہیں دیا ہے؛ تو مہر معجل، مؤجل اور مطلق کے اعتبار سے زید پر اپنی زوجہ کو مہر دینا لازم و ضروری ہوگا۔
البتہ اگر واقعی زید اور اس کی زوجہ کے درمیان بننے کی کوئی صورت نہیں اور یہ دونوں کسی طرح ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرسکتے؛ تو اب خلع کی اجازت ہے اور چوں کہ مذکورہ صورت میں زیادتی زید کی زوجہ کی جانب سے ہے؛ اس لیے زید مہر کے مقابلے میں خلع کرسکتا ہے مگر زید کے لیے مہر سے زیادہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’إذَا تَشَاقَّ الزَّوْجَانِ وَخَافَا أَنْ لَا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ تَفْتَدِيَ نَفْسَهَا مِنْهُ بِمَالٍ يَخْلَعُهَا بِهِ فَإِذَا فَعَلَا ذَلِكَ وَقَعَتْ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ وَلَزِمَهَا الْمَالُ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ، إنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ شَيْءٍ مِنْ الْعِوَضِ عَلَى الْخُلْعِ وَهَذَا حُكْمُ الدِّيَانَةِ فَإِنْ أَخَذَ جَازَ ذَلِكَ فِي الْحُكْمُ وَلَزِمَ حَتَّى لَا تَمْلِكَ اسْتِرْدَادَهُ كَذَا فِي الْبَدَائِعِ، وَإِنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا كَرِهْنَا لَهُ أَنْ يَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا مِنْ الْمَهْرِ وَلَكِنْ مَعَ هَذَا يَجُوزُ أَخْذُ الزِّيَادَةِ فِي الْقَضَاءِ كَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب النکاح، الباب الثانی فی الخلع و ما فی حکمہ، الفصل الأول فی شرائط الخلع و حکمہ و مایتعلق بہ، ج۱ص۴۸۸) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۸؍ربیع الأول ۱۴۴۲ھ
Lorem Ipsum