حدیث ابنتي فاطمة آدمیة حوارء لم تحض کی تحقیق

جانشین فقیہ ملت ماہر علوم الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد ازہار احمد امجدی ازہری حفظہ اللہ تعالی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مزاج شریف! عرض یہ ہے کہ حضرت فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ کی ثقاہت و فقاہت اور علمی جلالت کی بنیاد پر آپ کی مصنفات کے حوالہ جات فقیر اپنی تقریروں میں بیان کرتا ہے۔

امسال ماہ محرم کے ایک خطاب میں میں نے یہ روایت بیان کی:

((إن ابنتي فاطمة حورآء آدمیة لم تحض و لم تطمث))

ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ روایت موضوع ہے، تو عرض یہ ہے کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے موضوع ہے یا ضعیف ہے یا صحیح وغیرہ ہے۔

علوم الحدیث کی روشنی میں مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی: (مولانا صوفی) رفاقت علی ثقلینی نعیمی، مہتمم: جامعۃ المصطفی قصبہ ککرالہ، ضلع بدایوں شریف۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، الحمد للہ میں بخیر و عافیت ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو صحت و سلامتی اور خلوص و محبت کے ساتھ مزید دینی خدمات کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کی مقبول انام کتاب ’خطبات محرم‘ میں حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے متعلق ذکر کردہ یہ روایت صحیح یا حسن یا موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے، اس کی قدر تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

معجم الشیوخ میں ہے:

حدثنا غانم بن حميد، ببغداد، حدثنا أبو عمارة أحمد بن محمد، حدثنا الحسن بن عمرو بن سيف السدوسي، حدثنا القاسم بن مطيب، حدثنا منصور بن صدقة، عن أبي معبد، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث، وإنما سماها فاطمة لأن الله عز وجل فطمها ومحبيها عن النار)) (معجم الشيوخ، أبو الحسين محمد بن أحمد بن عبد الرحمن بن يحيى بن جُمَيْع الغساني الصيداوي (المتوفى: 402ھ) تحقیق: د. عمر عبد السلام تدمري، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، دار الإيمان – بيروت، طرابلس)

 

اس روایت کی سند پر بحث:

(۱) غانم بن حمید، غانم بن حمید بن یونس بن عبد اللہ ابوبکر شعیری، آپ نے محمد بن ابوالعوام وغیرہ سے روایت کی ہے، اور آپ سے ابوالقاسم ابن ثلاج اور ابوالحسین بن جمیع صیداوی نے روایت کی ہے (تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج۱۴ص۲۸۷، رقم:۶۷۲۵، ط: دار الغرب الإسلامي – بيروت)

(۲) ابوعمارہ احمد بن محمد، مجہول، فقیر کو ان کا ترجمہ نہیں ملا۔

(۳) الحسن بن عمرو بن سیف السدوسی، مجہول، فقیر کو ان کا ترجمہ نہیں ملا۔

(۴) القاسم بن مطیب، مجہول، فقیر کو ان کا ترجمہ نہیں ملا۔

(۵) منصور بن صدقہ، مجہول،  فقیر کو ان کا ترجمہ نہیں ملا۔

(۶)  ابومعبد، ان کا نام نافذ ہے، یہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مولی ہیں، آپ ثقہ ہیں، آپ کا شمار چوتھے طبقہ میں ہوتا ہے، آپ کی وفات ۱۰۴ھ میں ہوئی (تقریب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ج۱ص۵۵۸، رقم: ۷۰۷۱)

(۷) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

حکم روایت: ضعیف۔

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اپنے شیخ کے ذریعہ اسی سند کے ساتھ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اس سند میں متعدد مجہول راوی ہیں اور یہ روایت ثابت نہیں ہے:

أخبرنا أبو محمد عبد الله بن علي بن عياض القاضي بصور، وأبو نصر علي بن الحسين بن أحمد الوراق بصيدا، قالا: أخبرنا محمد بن أحمد بن جميع الغساني، قال: حدثنا غانم بن حميد بن يونس بن عبد الله أبو بكر الشعيري ببغداد، قال: حدثنا أبو عمارة أحمد بن محمد، قال: حدثنا الحسن بن عمرو بن سيف السدوسي، قال: حدثنا القاسم بن مطيب، قال: حدثنا منصور بن صدقة، عن أبي معبد، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:((ابنتي فاطمة حوراء آدمية، لم تحض، ولم تطمث، وإنما سماها فاطمة لأن الله فطمها ومحبيها عن النار)) في إسناد هذا الحديث من المجهولين غير واحد، وليس بثابت. (تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج۱۴ص۲۸۷، رقم:۶۷۲۵، ط: دار الغرب الإسلامي – بيروت)

امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الموضوعات‘ میں اپنے شیخ سے روایت کرتے ہوئے مذکورہ بالا سند کے ساتھ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد صرف امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا، البتہ آپ کی اس سند میں ابن جمیع صیداوی کے شیخ، غانم بن حمید کے بجائے، حاتم بن حمید ہیں:

الحديث السابع في أنها كانت لا تحيض: أنبأنا عبد الرحمن بن محمد أنبأنا أحمد بن علي بن ثابت أنبأنا أبو محمد عبد الله بن علي بن عياض القاضي، وأبو نصر علي بن أحمد الوراق قالا أنبأنا محمد بن أحمد بن جميع الغساني حدثنا حاتم بن حميد بن يونس أبو بكر الشعيري حدثنا أبو عمارة أحمد بن محمد حدثنا الحسن بن عمرو بن سيف السدوسي حدثنا القاسم بن مطيب حدثنا منصور بن صدقة عن أبي معبد عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث، وإنما سماها فاطمة لأن الله تعالى فطمها ومحيها [محبيها] من النار))  قال الخطيب: في إسناد هذا الحديث من المجهولين غير واحد وليس بثابت. (الموضوعات،ابن الجوزی، کتاب الفضائل و المثالب، ج۱ص۴۲۱، ط: المكتبۃ السلفيۃ بالمدينۃ المنورة)

امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’تلخیص الموضوعات‘ میں سابقہ روایت ذکر کرنے کےبعد فرمایا کہ اس کی اسناد مظلم اور یہ روایت مجہول راویوں پر مشتمل ہے:

ابن جميع، ثنا [غانم] ثنا أبو عمارة أحمد بن محمد، ثنا الحسن بن عمرو بن سيف، ثنا القاسم بن [مطيب] ، ثنا منصور بن صدقة، عن أبي [معبد] عن ابن عباس، مرفوعا: ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث، وإنما سماها فاطمة؛ لأن الله فطمها محبيها من النار)). إسناده مظلم مجاهيل. (تلخیص الموضوعات، امام ذھبی، ص۱۵۰، رقم۳۲۵:، ط: مكتبۃ الرشد – الرياض)

خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ’اللآلی المصنوعۃ‘ میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی روایت ذکر کرنے کے بعد ان کے قول کو ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا:

(الخطيب) أنبأنا أبو محمد عبد الله بن علي بن عياض وأبو نصر علي بن الحسين بن أحمد الوراق قالا أنبأنا عمر بن أحمد بن جميع الغساني حدثنا غانم بن حميد بن يونس أبو بكر القصيري حدثنا أبو عمارة أحمد بن محمد حدثنا الحسن بن عمرو بن صيف السدوسي حدثنا القاسم بن مطيب حدثنا منصور بن صدقة عن أبي معبد عن ابن عباس قال قال رسول الله: ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث وإنما سماها فاطمة لأن الله تعالى فطمها ومحبيها عن النار)) قال الخطيب: ليس بثابت وفيه مجاهيل (اللآلی المصنوعۃ، امام سیوطی، کتاب المناقب، ج۱ص۳۶۵، ط: دار الكتب العلميۃ – بيروت)

امام ابن عراق کنانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ‘ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی سابقہ روایت ذکر کرکے امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول کو ذکر کیا، پھر اسی موضوع سے متعلق حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرمایا: یہ روایت بھی باطل ہے؛ کیوں کہ یہ روایت سلیمان بن داؤد کی علی بن موسی رضا سے روایت کردہ ہے:

[حديث] ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث وإنما سماها الله تعالى فاطمة لأن الله تعالى فطمها ومحبيها عن النار)) (خط) من حديث ابن عباس وقال ليس بثابت وفيه غير واحد من المجهولين (قلت) وجاء عن أسماء: قبلت فاطمة بالحسن فلم أر لها دما فقلت يا رسول الله إني لم أر لفاطمة دما في حيض ولا نفاس فقال: ((أما علمت أن ابنتي طاهرة مطهرة فلا يرى لها دم في طمث ولا ولادۃ أورده)) (لمحب الطبري) في ذخائر العقبي وهو باطل أيضا فإنه من رواية داود بن سليمان الغازي عن علي بن موسى الرضى، والله أعلم. (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ، ابن عراق کنانی، الفصل الأول، ج۱ص۴۱۲، رقم:۱۴، ط: دار الكتب العلميۃ- بيروت)

امام ابن عراق کنانی رحمہ اللہ کے حکم سے معلوم ہوا کہ جس طرح آپ کے نزدیک حضرت اسما رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ روایت باطل ہے، اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ روایت بھی باطل ہے، نیز امام ابن عراق رحمہ اللہ نے اس روایت کو فصل اول میں رکھا ہے، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ناقدین نے  اس روایت کے باطل ہونے پر امام ابن جوزی رحمہ اللہ سے اتفاق کیا ہے۔

امام ابن عراق کنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’(الأول) فيما حكم ابن الجوزي بوضعه ولم يخالف فيه‘‘۔ (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ، ابن عراق کنانی، مقدمۃ، ج۱ص۳، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

لیکن امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے زیر بحث  روایت کو ذکر کرنے کے بعد صرف امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول لیس بثابت کو ذکر فرمایا مگر کوئی واضح حکم ارشاد نہیں فرمایا؛ اس لیے آپ کا امام ابن جوزی رحمہ اللہ کے ساتھ موافقت کا قول کرنا محل تامل ہے۔

ناقدین کے قول لیس بثابت کا معنی اور روایت کا حکم:

امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے ’الموضوعات‘ میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول لیس بثابت کو  نقل کیا اور آپ کے بعد آنے والے ناقدین نے بھی انہی کا قول ذکر کرنے پر اکتفا کیا مگر امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا قول لیس بثابت واضح طور پر حدیث کے موضوع ہونے پر دلالت نہیں کرتا؛ کیوں کہ ناقدین کے اس قول کو مختلف احادیث کے بارے میں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قول کے متعدد احتمالات ہیں: یہ روایت خاص اس سند سے  ثابت نہیں، یہ روایت سند صحیح یا حسن سے ثابت نہیں، یہ روایت ثابت نہیں یعنی موضوع ہے، لیکن زیر بحث روایت کے رایوں کی تفصیل دیکھنے کے بعد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں لیس بثابت سے مراد یہ نہیں کہ یہ حدیث موضوع ہےبلکہ یہ مراد ہے کہ یہ حدیث سند صحیح یا حسن سے ثابت و مروی نہیں؛ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ابن جمیع صیداوی کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے  روایت کردہ روایت کا باطل و موضوع ہونا محل نظر ہے؛ کیوں کہ اس روایت میں نہ تو کوئی علامت وضع پائی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی سند میں کوئی راوی کذاب یا متہم بالکذب ہے، ہاں متعدد مجہول راوی ہیں مگر محض مجہول راویوں کی وجہ سے روایت موضوع نہیں بلکہ صرف ضعیف ہوتی ہے۔

حکم روایت: ضعیف۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اس خصوصیت کے متعلق مزید دو احادیث بھی وارد ہیں، مگر یہ دونوں احادیث شدید ضعیف ہیں، اس اجمال کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

پہلی حدیث: حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ حدیث مجھے صرف ایک کتاب ’ذخائر العقبی لمحب الدین الطبری‘ میں بغیر سند  ملی:

وعن أسماء قالت: قبلت أي ولدت فاطمة بالحسن فلم أر لها دما فقلت يا رسول الله إنى لم أر لها دما في حيض ولا في نفاس فقال صلى الله عليه وسلم: ((أما علمت ان ابنتى طاهرة مطهرة لا يرى لها دم في طمث ولا ولادة)) خرجه الامام على بن موسى الرضا. (ذخائر العقبى في مناقب ذوى القربى، محب الدين أحمد بن عبد الله الطبري (المتوفى: ۶۹۴ھ) ط: مكتبۃ القدسي بالقاهرة)

راوی داود بن سلیمان غازی کے بارے میں ناقدین کے اقوال:

حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی اس روایت پر جس راوی کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے وہ داود بن سلیمان غازی ہے، اس راوی کے متعلق ناقدین کے اقوال ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں:

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’داود بن سليمان الغازي عن علي بن موسى الرضا، لا شيء‘‘۔ (المغنی فی الضعفاء، امام ذہبی،ج۱ص۲۱۸، رقم: ۱۹۹۷، تحقیق: دکتور نور الدین عتر )

یعنی داود بن سلیمان کوئی چیز نہیں۔

امام ذہبی رحمہ اللہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:

’’داود بن سليمان الجرجاني الغازى، عن علي بن موسى الرضا وغيره. كذبه يحيى بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال فهو شيخ كذاب له نسخة موضوعة على الرضا‘‘۔  (میزان الاعتدال، امام ذہبی، ج۲ص۸، رقم: ۲۶۰۸،  ط: دار المعرفۃ، بیروت)

یعنی داود بن سلیمان نے امام علی بن موسی رضا وغیرہ سے روایت کی ہے، امام یحی بن معین نے اس کی تکذیب کی ہے، امام ابوحاتم کو اس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں اور بہر حال وہ ایسا شیخ ہے جو کذاب ہے، امام رضا پر اس کا ایک جھوٹ پر مشتمل نسخہ ہے۔

حکم روایت: شدید ضعیف۔

دوسری حدیث: یہ حدیث ام سلیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اسے ابن أبی الدنیا نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے:

قال ابن أبي الدنيا حدثنا إسحاق الأشقر ثنا العباس بن بكار ثنا عبد الله ابن المثنى عن عمه ثمامة عن أنس عن أم سليم قالت: ((لم ير لفاطمة دم في حيض ولا نفاس)) (لسان المیزان، امام ابن حجر عسقلانی، ج۳ص۲۳۷، رقم:۱۰۵۲، ط: مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، بيروت)

راوی عباس بن بَکَّار کے بارے میں ناقدین کے اقوال:

اس روایت کی سند میں ایک راوی عباس بن بکار ہے، ناقدین نے اس راوی کے بارے میں کافی کلام کیا ہے، بعض نے توثیق، اکثر نے سخت تجریح کی ہے اور بعض نے تضعیف پر اکفتا کیا ہے، اس راوی کے متعلق ذیل میں ناقدین کے توثیق و تضعیف والے اقوال بالترتیب ذکر کیے جاتے ہیں:

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’عباس بن بَكَّار من أهل البصرة كنيته أبو الوليد يروي عن أبي بكر الهذلي وأهل البصرة يروي عنه محمد بن زكريا العلاني وغيره من أهل بلده مات بالبصرة وهو بن ثلاث وتسعين سنة وكان يغرب حديثه عن الثقات لا بأس به‘‘۔ (الثقات، امام ابن حبان، ج۸ص۵۱۲، رقم:۱۴۷۴۳، ط: دائرة المعارف العثمانیۃ بحيدر آباد، الدكن، الهند)

یعنی ابو الولید عباس بن بکار، ابوبکر ہذلی اور اہل بصرہ سے اور ان سے محمد بن زکریا علانی اور بصرہ کے لوگ روایت کرتے ہیں، یہ راوی ثقات سے غریب حدیث روایت لاتا ہے، یہ راوی لا بأس بہ ہے۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’العباس بن الوليد بن بكار شيخ من أهل البصرة يروي عن أبي بكر الهذلي وخالد الواسطي وأهل البصرة العجائب روى عنه محمد بن زكريا الغلابي وأهل العراق لا يجوز الاحتجاج به بحال ولا كتابة حديثه إلا على سبيل الاعتبار للخواص ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔ (المجروحین، ابن حبان، ج۲ص۱۹۰، رقم:۸۲۸، ط:دار الوعی، حلب)

یعنی عباس بن بکار راوی ابوبکر ہذلی، خالد واسطی اور اہل بصرہ سے عجائب روایت کرتا ہے، اس راوی سے زکریا غلابی اور اہل عراق نے روایت کی ہے، اس سے کسی حال میں احتجاج جائز نہیں اور نہ ہی اس کی حدیث لکھنے کی اجازت ہے، البتہ  خواص و ناقدین کو اس کی حدیث علی سبیل الاعتبار زیر تحریر لانے کی اجازت ہے۔

امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’عباس بن بكار الضبى أبو الوليد بصري روى عن أبي بكر الهذلى وحماد بن سلمة وسعيد بن زربى سمع منه أبي بالبصرة أيام الانصاري، نا عبد الرحمن قال: سئل ابى عنه فقال شيخ‘‘. (الجرح و التعدیل، امام ابن ابی حاتم، ج۶ص۲۱۶، رقم:۱۱۹۱، ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)

یعنی امام ابوحاتم سے عباس بن بکار کے بارے میں پوچھا گیا؛ تو آپ نے فرمایا: وہ شیخ ہے۔

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’العباس بن بكار الضبي بصري، الغالب على حديثه الوهم والمناكير‘‘۔ (الضعفاء الکبیر، امام عقیلی، ج۳ص۳۶۳، رقم: ۱۳۹۹، ط: دار المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)

یعنی عباس بن بکار کی حدیث پر وہم اور مناکیر کا غلبہ ہے۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’منكر الحديث عَن الثقات وغيرهم‘‘۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال، امام ابن عدی، ج۶ص۶، رقم: ۱۱۸۴، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

یعنی عباس بن بکار ثقات وغیرہ سے منکر حدیث روایت کرتا ہے۔

امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے داود بن إبراهيم عقيلي کے ترجمہ میں ایک روایت ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

’’وقد رواه العباس بن بكار عن خالد بن بيان عن الشعبي وهو منكر أيضا‘‘. (لسان المیزان، امام ابن حجر عسقلانی، ج۲ص۴۱۵، رقم:۱۷۱۰، ط: مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، بيروت)

یعنی سابقہ حدیث کو عباس بن بکار نے بھی روایت کی ہے اور وہ بھی منکر ہے۔

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’قال الشيخ أيده الله العباس بن بكار غير ثقة‘‘۔ (تالی تلخیص المتشابہ، خطیب بغدادی، ج۲ص۵۵۶، ط: دار الصمیعی، الریاض)

یعنی شیخ فرماتے ہیں کہ عباس بن بکار ثقہ نہیں ہے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’العباس بن بكار البصري، عن أبي بكر الهذلي، متروك‘‘۔ (المقتنی فی سرد الکنی، امام ذہبی، ج۲ص۱۳۸، رقم:۶۵۵۲، ط: المجلس العلمي بالجامعۃ الإسلاميۃ، المدينۃ المنورة)

یعنی عباس بن بکار بصری متروک ہے۔

امام ابن قیسرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’والعباس هذا شيخ يروي العجائب‘‘۔ (تذكرة الحفاظ ’أطراف أحاديث كتاب المجروحين لابن حبان‘ ابن القيسراني، ص۴۱، رقم: ۷۷، ط: دار الصميعي للنشر والتوزيع، الرياض)

یعنی عباس بن بکار یہ شیخ عجائب روایت کرتا ہے۔

نیز فرماتے ہیں:

((الغلاء والرخص جندان من جنود الله عز وجل)) رواه العباس بن الوليد بن بكار، عن عبد الله بن المثنى، عن عمه تمامة، عن أنس۔ والعباس هذا يروي العجائب عن الثقات. (ایضا، رقم:۱۱۰۹)

یعنی عباس بن بکار ثقات سے عجائب روایت کرتا ہے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’وكناه الحاكم أبو أحمد: أبا الوليد، وقال: ذاهب الحديث، وهو ابن أخت أبي بكر الهذلي‘‘۔ (تاریخ الإسلام، امام ذہبی، ج۵ص۵۹۲، رقم:۱۹۸، ط: دار الغرب الإسلامی)

یعنی حاکم ابو احمد نے عباس بن بکار کو ذاہب الحدیث قرار دیا ہے، نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں اس راوی  کی طرف منسوب کرتے ہوئے کچھ باطل روایات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔

امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اس راوی کو کذاب قرار دیا:

’’وفيه العباس بن بكار، قال الدارقطني: هو كذاب‘‘۔  (العلل المتناھیۃ فی الأحادیث الواھیۃ، امام ابن جوزی، ج۱ص۲۳۲، ط: إدارة العلوم الأثریۃ، فيصل آباد، باكستان)

یعنی عباس بن بکار کو امام دارقطنی نے کذاب قرار دیا ہے۔

امام ذہبی نے اپنی کتاب المغنی (ج۱ص۳۲۸، رقم:۳۰۶۷ ، تحقیق: دکتور نور الدین عتر) اور میزان الاعتدال میں (ج۲ص۳۸۲، رقم: ۴۱۶۰، ط: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت) امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس کذاب والے قول کو ذکر کیا ہے، نیز ’میزان الاعتدال‘ میں اس راوی کی طرف منسوب کرتے ہوئے کچھ باطل روایات کا بھی قول کیا ہے۔

امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’العباس بن بكار الضبي بصري عن خالد بن أبي بكر الهذلي قال الدارقطني كذاب۔۔۔۔۔ وقال ابن ابن الدنيا حدثنا إسحاق الأشقر ثنا العباس بن بكار ثنا عبد الله ابن المثنى عن عمه ثمامة عن أنس عن أم سليم قالت: ((لم ير لفاطمة دم في حيض ولا نفاس)) هذا من وضع العباس‘‘. (لسان المیزان، امام ابن حجر عسقلانی، ج۳ص۲۳۷، رقم:۱۰۵۲، ط: مؤسسۃ، الأعلمي للمطبوعات، بيروت)

یعنی امام دارقطنی نے عباس بن بکار کو کذاب قرار دیا ہے اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ روایت کردہ حدیث اسی عباس بن بکار کی وضع کردہ ہے، نیز آپ نے اس راوی کے متعلق متعدد احادیث گڑھنے کی تہم کا بھی ذکر کیا ہے۔

امام محمد طاہر فتنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’((من غرس غرسا يوم الأربعاء فقال سبحان الله الباعث الوارث أتته بأكلها)) هو من أباطيل العباس بن بكار الكذاب‘‘۔ (تذکرۃ الموضوعات، امام فتنی، ص۵۸، ط: إدارة الطباعة المنيريۃ)

یعنی : ((من غرس۔۔۔الحدیث)) عباس بن بکار کذاب کے اباطیل میں سے ہے۔

امام سبط ابن العجمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث‘ میں عباس بن بکار کے متعلق میزان الاعتدال کا کلام ذکر کرکے عباس بن بکار کا تذکرہ کیا ہے۔ (الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث،سبط ابن العجمی، ص۱۴۷، رقم:۳۷۲، ط: عالم الكتب , مكتبۃ النهضۃ العربيۃ- بيروت)

حکم روایت: شدید ضعیف۔ و اللہ أعلم۔

نوٹ: حدیث کب موضوع ہوتی ہے، اس کی تفصیل ملاحظہ کرنے کے لیے فقیر کی کتاب ’تحقیقات ازہری‘ میں مضمون: حدیث ضعیف محدثین و ناقدین کی نظر میں، ملاحظہ فرمائیں۔

کتبہ : ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۱؍صفر المظفر ۱۴۴۱ھ مطابق ۱؍اکتوبر ۲۰۱۹ء

موبائل: +918318177138

ای میل: fmfoundation92@gmail.com

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.